ہوم << معاملہ آرمی چیف کی تقرری کا - حبیب الرحمن

معاملہ آرمی چیف کی تقرری کا - حبیب الرحمن

رواں ماہ کی 29 تاریخ کو پاکستان کے موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ریٹائر ہو رہے ہیں اور فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق ان کے مختلف فارمیشنز کے الوداعی دورے جاری ہیں۔

وفاقی حکومت کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ سے قبل فوج کے نئے سربراہ کے تقرر کا اعلان کرنا ہے اور اس حوالے سے چھ سینیئر ترین لیفٹینٹ جنرلز اس فہرست میں شامل ہیں۔ پاکستان میں اہم ترین سمجھے جانے والے عہدے کے حوالے سے آئین کے آرٹیکل 243 میں بہت مختصر سا طریقہ کار درج ہے۔ آرٹیکل 243 کی شق تین کے مطابق وزیراعظم کی ایڈوائس پر صدر مملکت بری، بحری اور فضائی تینوں سروسز کے سربراہان اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کو تعینات کرے گا۔

اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے سابق سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ آصف یاسین جو کہ خود بھی بطور سیکریٹری دفاع سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی تعیناتی کے عمل کا حصہ رہے ہیں، کا کہنا تھا کہ اس تقرری میں سارا اختیار وزیراعظم کا ہوتا ہے اور جانے والے آرمی چیف کا اس میں زیادہ کردار نہیں ہوتا، تاہم ماضی میں وزرائے اعظم سبکدوش ہونے والے آرمی چیف سے ایک غیر رسمی مشاورت کرتے رہے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ آصف یاسین کا کہنا تھا کہ "آئین میں درج طریقہ کار کے مطابق سبکدوش ہونے والے آرمی چیف وزیراعظم کو سینیئر ترین جرنیلوں کی ایک فہرست دیں گے جن میں سے وہ آرمی چیف کے امیدوار کا انتخاب کر کے صدر پاکستان کو منظوری کے لیے بھیجیں گے"۔

آرمی چیف کی تقرری کے حوالے سے مندرجہ بالا حوالے انٹر نیٹ سے ماخوذ ہیں۔ اگر ان کو بغور پڑھا جائے تو یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ آیا وزیر اعظم کو آرمی چیف کے تقرر کا اختیار ہے بھی کہ نہیں۔ جب یہ بات طے ہے کہ فوج حکومت کا ایک ما تحت ادارہ ہے تو پھر کئی مہینوں سے بحث کیوں جاری ہے اور اگر اس سلسلے میں حکومت کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے ہیں تو پھر وزیر اعظم کی یہ ذمے داری کہ وہ آرمی چیف کا تقرر کرے کیوں ہے۔

ایک جانب آرٹیکل یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے کہ وزیر اعظم جس کو چاہیں آرمی چیف بنا سکتے ہیں تو دوسری جانب افواجِ پاکستان کی جانب سے کچھ نام تجویز کئے جائیں گے کہ آرمی چیف کے عہدے کے اہل کون کون سے جرنیل ہو سکتے ہیں اور وزیر اعظم ان میں سے جس کا نام منتخب کر لیں گے صدر اس کو آرمی چیف کا عہدہ سنبھالنے کے احکامات جاری کر دیں گے۔ کچھ ناموں کی تجویز افواجِ پاکستان کی جانب سے آنا کیا اس بات کی جانب اشارہ نہیں کہ وزیر اعظم کا آرمی چیف کی تقرری کا یہ اختیار غیر مشروط نہیں؟۔

جہاں تک میری یادداشت کام کر رہی ہے تو میں اتنا سمجھا ہوں کہ پرویز مشرف کے مارشل لا سے پہلے آرمی چیف کی تقرری کے سلسلے میں کبھی کوئی صورتِ حال ایسی پیدا نہیں ہوئی تھی کہ یہ پاکستان کا بہت بڑا مسئلہ رہا ہو۔ صدرِ پاکستان یا وزیرِ اعظم جس کو بھی چاہتے تھے اسے یہ عہدہ سونپ دیا جاتا تھا۔ نواز شریف اُس وقت وزیر اعظم ہوا کرتے تھے۔ مشرف سے ان کے تعلقات کشیدہ ضرور تھے لیکن ان ہی کے ایک اختیار کی وجہ سے پرویز مشرف کو اپنے عہدے کیلئے ایکسٹینشن بھی دے چکے تھے.

لیکن وہ جب سری لنکا کے دورے پر تھے تو اس دوران وزیرِ اعظم پاکستان نے پرویز مشرف کو عہدے سے برطرف کرنے کے بعد آرمی چیف کا عہدہ جنرل ضیاء الدین کے سپرد کرکے باقائدہ نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا تھا لیکن اس وقت کے جنرلز نے وزیر اعظم کے اس اقدام کو تسلیم نہ کرتے ہوئے جو قدم اٹھایا وہ اس سے قبل لگائے جانے والے مارشل لاؤں سے بہت مختلف تھا۔ اگر آئینی لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ کسی بھی سویلین حکومت اور آئینِ پاکستان کے خلاف اعلانِ بغاوت جیسا تھا اس لئے کہ یہ قدم ان اتھارٹیز اور آئین کے خلاف تھا جو کسی بھی جنرل یہ عہدہ دے سکتیں ہیں تو اسے سبکدوش کرنے کا اختیار بھی آئین و قانون کے مطابق رکھتی ہیں۔

یہ بات اپنی جگہ تسلیم کی جاسکتی ہے کہ حکومت کی جانب سے جو طریقہ اختیار کیا گیا تھا وہ مناسب نہیں تھا لیکن یہ بات بھی ماننا پڑے گی کہ اس وقت کی حکومت نے بہر حال یہ قدم آئین و قانون کے خلاف نہیں اٹھایا تھا۔ افواجِ پاکستان کی جانب سے اٹھایا جانا والا یہ قدم اس بات کی دلیل کیلئے کافی ہے کہ وہ فیصلہ تو آئینی حکومتوں کے کندھوں پر رکھ کر کرواتے ہیں لیکن پسِ پردہ رضا مندیاں ان کی نہیں ہوا کرتیں اور اگر کوئی حکومت فیصلہ کرنے میں کسی قسم کے شش و پنج کا شکار ہوجائے تو پھر معاملات بہت زیادہ الجھ جایا کرتے ہیں۔ یہی سب کچھ موجودہ صورت حال میں بھی دیکھنے میں آ رہا ہے۔

آج کل سیاسی جماعتیں اپنی اپنی بقا کی جنگ لڑتی نظر آ رہی ہیں۔ اس میں پی ڈی ایم کی جماعتیں ہوں، ان کے ساتھ اتحاد کرکے چلنے والی جماعتیں ہوں یا پھر عمران خان پی ٹی آئی کی صورت میں قوم کے سامنے ہوں، اگر ان سب کے نظریات کا نچوڑ نکالا جائے تو یہ سب کی سب جماعتیں اس بات کی خواہش رکھتی ہیں کہ ایک جانب تو افواجِ پاکستان کا سیاسی کردار مکمل طریقے سے ختم ہو جائے تو دوسری جانب فوج حقیقتاً ایک ماتحت ادارے کی طرح اس کے ساتھ کھڑی ہوئی نظر آئے نہ کہ اس انداز میں کہ وہ دیکھ رہی ہوں کہ سول حکومتوں کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

میں نہ سول حکومتوں کا حامی ہوں نہ مارشل لا کے خلاف لیکن اتنا خواہش مند ضرور ہوں کہ جس کو جو کچھ بھی کرنا ہے وہ مکمل طریقے سے سامنے آ کر کرے۔ جب تک پاکستان میں "پسِ آئینہ و سرِ آئینہ" دونوں ایک تھے پاکستان آگے کی جانب بڑھ رہا تھا لیکن جب سے سامنے کٹھ پتلیاں آنا شروع ہوئیں، پاکستان مسلسل تنزلی کا شکار ہے۔ سرِ آئینہ و پسِ آئینہ والی بات ایسی نہیں رہی جو کسی کو نظر نہ آ رہی ہو اور نہ دنیا اندھی، بہری، لنگڑی اور لولی ہے۔ لہٰذا سمجھداری کا تقاضا یہ ہے کہ بقول عمران خان "نیوٹرل" کوئی چیز نہیں ہوتی اس لئے ضروری ہے کہ پاکستان کی ترقی و خوش حالی کیلئے پاکستان کا ہر ادارہ آئین پاکستان کا ماتحت بن کر اپنے فرائض ادا کرے یا پھر تباہی و بربادی کیلئے تیار ہو جائے۔