ہوم << خزاں کا جال اور سچے عاشق - محمد عرفان ندیم

خزاں کا جال اور سچے عاشق - محمد عرفان ندیم

پروفیسر عنایت علی پاکستان کا خوبصورت چہرہ تھے ۔ 10 مئی 1935ء میں ریاست ٹونک میں پیدا ہوئے اور نومبر 1948ء میں ہجرت کرکے پاکستان آگئے گورنمنٹ اسکول حیدرآباد سے میٹرک اور سٹی کالج حیدرآباد سے بی اے کا امتحان پاس کیا۔

1962ء میں سندھ یونیورسٹی سے ایم اے اردو کا امتحان دیا اور یونیورسٹی میں اول آئے۔ بی ایڈ کیا اور 1963میں سرکاری جاب میں آگئے ۔ ان کی پہلی پوسٹنگ خیر پور سندھ میں ہوئی ، کچھ عرصہ بعد ٹرانسفر کروا کر حیدر آباد منتقل ہو گئے ۔اسی دوران کچھ عرصہ کے لیے پنجاب کے شہر گجر خان میں بھی خدمات سرانجام دیں ۔ 1966 میں کیڈٹ کالج پٹارو میں تدریسی خدمات سرانجام دینا شروع کر دیں ۔کرکٹ کے دلداہ تھے ، طلبہ کو تدریس کے ساتھ کرکٹ کی کوچنگ بھی دینے لگے ۔ 1992 کے ورلڈ کپ میں ان کی ایک نظم بہت مشہورہوئی۔جماعت اسلامی سے وابستگی تھی، جماعت کے اصرار پر1969کیڈٹ کالج پٹارو کو خیر باد کہہ کر سکھر میں جماعت کے ’’تعمیر نو‘‘ اسکول میں بطور مدرس شامل ہوئے۔

1970 کے انتخابات میں جماعت کے ٹکٹ پر الیکشن بھی لڑا مگرکامیاب نہ ہوسکے۔1971 میں غزالی کالج حیدر آباد میں پرنسپل کی حیثیت سے کام شروع کیا ،ذوالفقار علی بھٹو کی قومیانے کی پالیسی کے تحت اپنے عہدے سے دستبردار ہوگئے۔بعد میں مسلم کالج حیدرآباد سے وابستگی اختیار کر لی۔ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے رکن بھی رہے اور کئی درسی کتب تحریر کیں۔ ان کی اصل وجہ شہرت ان کی شاعری تھی ، وہ صرف اچھے شاعر نہیں تھے بلکہ خوبصورت الفاظ اور لب و لہجہ کے بھی مالک تھے۔مشاعروں میں اپنی شاعری اپنی ہی آواز میں سنا کر مجمع لوٹ لیتے تھے ۔ خوبصورت اور نستعلیق اردو بولتے تھے، بڑھاپے میں زبان میں لڑکھڑاہت اور بھی زیادہ باعث کشش بن گئی تھی ۔ان کی شاعری طنز و مزاح سے بھرپور ہوتی تھی ،اپنے اچھوتے اسلوب کی وجہ سے اکبر ثانی کہلاتے تھے کہ ان کی شاعری کے موضوعات اور انداز اکبر الہ آبادی سے ملتے جلتے تھے ۔

میں پچھلے دنوں لاہور میں ڈاکٹر شاہد اویس نقشبندی کی مجلس ذکر میں شریک تھا ،ڈاکٹر صاحب کی یہ مجلس ہر جمعے کو عصر کے بعد ان کی خانقاہ میں ہوتی ہے ۔دوران مجلس ڈاکٹر صاحب نے پروفیسر عنایت علی کا ایک شعر پڑھا اورسامعین پر رقت طار ی ہو گئی ۔ میں شعرسے پہلے ڈاکٹر صاحب کا مختصر تعارف کروانا چاہتا ہوں ۔ ڈاکٹر شاہد اویس میڈیکل ڈاکٹر ہیں ، جوانی کی عمر میں ہی علماء اور صوفیاکی صحبت میسر رہی ،پریکٹس کے ساتھ دینی کاموں اور علماء کے ساتھ جڑے رہے۔دینی تعلیم کا شوق پیدا ہوا اور ریٹائرمنٹ کے بعد باقاعدہ درس نظامی کی تعلیم حاصل کی ۔

پچھلے دس پندرہ سال سے لاہور رائیونڈ روڈ پر ایک بہترین ادارہ آس اکیڈمی کے نام سے چلا رہے ہیں ۔ تقریبا ایک ہزار سے زائد طلبہ مختلف شعبوں میں زیر تعلیم ہیں ، یہ ادارہ دینی و دنیاوی تعلیم کا حسین امتزاج ہے اور اس کی اہم خوبی یہ ہے کہ تعلیم کے ساتھ تذکیہ کا بھی خاص اہتمام کیا جاتا ہے ۔ڈاکٹر صاحب چونکہ خود یونیورسٹیوں کے پروردہ ہیں اس لیے نسل نو کے حالات سے آگاہ ہیں ۔ یونیورسٹیوں میں پھیلنے والی بے دینی اور الحاد سے باخبر اوراس کے بارے متفکر رہتے ہیں ۔ یونیورسٹی اسٹوڈنٹس کے لیے روحانی مجالس کا بھی اہتمام کرتے ہیں ۔ان کی باقاعدہ مجلس جمعے کو عصر کے بعد اور ہفتے کو عشاء کے بعد ڈیفنس میں ان کی خانقاہ میں ہوتی ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں مادیت اور گناہوں سے معمور ماحول اس طرح کی مجالس کا مل جانا اللہ کی خاص نعمت ہے ۔ یہی مجالس ہیں جہاں جا کر ہم جیسے گناہگار اور نفس پرست کچھ وقت کے لیے ہی سہی دل کی غلاظت اور قساوت کا کچھ علاج کر لیتے ہیں ۔

ہم واپس آتے ہیں ، ڈاکٹر صاحب نے پروفیسر عنایت علی خان کا شعر پڑھا اور ان کی آواز میں آنسوؤں کی تاثیر شامل ہو گئی ۔ حاضرین بھی ضبط نہ کر سکے ۔ یہ شعر عنایت علی خان کی کہی گئی نعت کا حصہ تھا جو کچھ اس طرح تھا: میں تیرے مزار کی جالیوں ہی کی مدحتوں میں مگن رہا۔تیرے دشمنوں نے تیرے چمن میں خزاں کا جال بچھا دیا۔مجھے مجلس میں بیٹھے اندازہ نہیں ہو سکا کہ یہ کس کا شعرہے ، بعد میں گوگل کرنے سے معلوم ہوا یہ پروفیسر عنایت علی خان کی کہی گئی نعت کا حصہ ہے ۔ڈاکٹر صاحب نے شعر کے پس منظر میں امت مسلمہ کے حالات پر روشنی ڈالی کہ اس وقت پوری امت مسائل و مشکلات کا شکار ہے ۔ پاکستان حال ہی میں خوفناک سیلاب سے دو چار ہوا ہے ۔ لاکھوں کروڑوں انسان کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔افغانستان پچھلے بیس سال سے لاشیں اٹھا اٹھا کر تھک چکا ہے ۔ کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی جیل بنا دیا گیا ہے ۔

میانمار کے مسلمان جس اذیت اور کرب سے گزرے انہیں دیکھ کر روح تک کانپ جاتی ہے ۔اکثر مسلم ممالک خانہ جنگی ، داخلی عدم استحکام اور بیرونی جارحیت کا شکار ہیں ۔سعودی عرب اوردیگر عرب ریاستیں جس طرح بے دینی کو فروغ دے رہی ہیں ایک صاحب ایمان کے لیے یہ منظرنامہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔اس کے ساتھ جدید تعلیمی مراکز میں بے دینی اور الحاد کے جوجال بچھائے جا رہے ہیں ، سوشل میڈیا، فلم اور ڈرامہ انڈسٹری کے ذریعے جو معرکے سر کیے جا رہے ہیں وہ بھی امت کے سر سبز چمن میں خزاں کا باعث بن رہے ہیں ۔ اس سارے منظرنامے میں پروفیسر عنایت علی خان کا یہ شعرامت کا درد رکھنے والے ہر انسان کو ہلا کر رکھ دیتا ہے ۔ ہمارے ہاں ہر سال سرکاری و نجی سطح پربارہ ربیع الاول کا دن منایا جاتا ہے ،بڑی بڑی کانفرنسیں منعقد ہوتی ہیں ، ٹی وی اور سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلائے جاتے ہیں اورہر گلی محلے میں میلاد منایا جاتا ہے۔

سرکاری سطح پر چھٹی کا اہتمام کیا جاتا ہے ، تعلیمی اداروں میں محفلیں منعقد کی جاتی ہیں ، یونیورسٹیز میں سیرت چیئر کے عنوان سے چیئرز قائم کی جاتی ہیں مگرامت کے چمن میں خزاں کے جال بچھانے والوں کے بارے میں کوئی نہیں سوچتا ۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ اس چمن میں خزاں کہاں سے اور کیوں آ رہی ہے۔ جدید ادارے ، میڈیا اور فلم و ڈرامہ انڈسٹری خزاں کو پھیلانے میں کیا کردار ادا کر رہے ہیںاوراس خزاں کو کیسے روکا جا سکتا ہے۔ ہم صرف روضے کی جالیوں کی مدحتوں میں مگن ہیں ، ہم صرف جلسے جلوسوں کے ذریعے اظہار محبت کو کافی سمجھ رہے ہیں،ہم امت کے زخمی وجود کو نہیں دیکھ رہے ،ہم دنیا کے مختلف کونوں میں اس چمن میں آنے والی خزاؤں پر غور نہیں کرر ہے ۔ ہم داخلی طور پر بھی رسول اللہ کے نام پر بننے والے ملک کو تباہی کی طرف دھکیل رہے ہیں ، ہم نماز ، روزے ، حج اور زکوۃ جیسی بنیادی عبادات کو بھی نظر انداز کر رہے ہیں اور ہم رسول اللہ کی سنتوں کو روند نے سے بھی باز نہیں آ رہے ۔

عنایت علی خان اسی نعت کے ایک شعر میں کہتے ہیں کہ رسول اللہ کے حسن خلق کی ایک رمق بھی ہماری زندگی میں نہیں ملتی لیکن ہم اس میں خوش ہیں کہ ہم نے میلاد کے دن دروبام کو سجا دیا ہے ۔ ابھی پچھلا مہینا ہی گزرا ہے جب ہم نے ملک کے ہر گلی کوچے کو سجایا تھا ، ہر مسجد میں ساری ساری رات لاؤڈ اسپیکر پر نعتیں گونجی تھیں مگر اگلے ہی دن ہم نے یہ سارے جذبات اور رسول اللہ کی تعلیمات کو سال بھر کے لیے دفن کر دیا تھا ۔ رسول اللہ کے روضے کی جالیوں کی مدحتیں ضرور ہونی چاہییں.

مگر اس کے ساتھ ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے ہے کہ امت کے چمن میں خزاں کہاں سے اور کیوں آ رہی ہے اوراس خزاں کو کیسے روکا جا سکتا ہے ۔عصر حاضر کے اصل ہیرو اور سچے عاشق وہ ہیں جو خالی مدحتوں کی بجائے عملا امت کے چمن کو سر سبز وشاداب بنانے کی کوششوں میں مگن ہیں ۔

Comments

Click here to post a comment