ہوم << کوٹ قاسم- گل نوخیز اختر

کوٹ قاسم- گل نوخیز اختر

Gull Nokhiz aKhter
یہ میرے ایک بہت پیارے دوست ہیں ، نام کا آدھا حصہ یہی ہے لیکن دوسرا میں جان بوجھ کر بیان نہیں کر رہا کیونکہ سب انہیں اسی نام سے ہی پکارتے ہیں۔۔۔ میں انہیں’جانی دوست‘ کہتا ہوں، تاہم ایک طویل عرصہ گذرجانے کے باوجود مجھے ان کی آج تک سمجھ نہیں آسکی کہ یہ کیسے اور کیوں میرے دوست ہیں؟ کافی دنوں سے میرے ذہن میں ایک خیال کلبلا رہا تھا کہ میں کوٹ قاسم کا خاکہ لکھوں، ان سے بات ہوئی تو انتہائی ناراضی کا اظہار کیا کہ ابھی تک لکھا کیوں نہیں۔ میں نے ان سے اجازت طلب کی کہ اگر میں آپ کے بارے میں کچھ جھوٹ لکھ دوں تو آپ برا تو نہیں منائیں گے؟ کہنے لگے ، برا میں اُس وقت مناؤں گا جب تم میرے بارے میں سچ لکھو گے۔ یہ جملہ سنتے ہی مجھے یقین ہوگیا کہ کوٹ قاسم کا خاکہ اب مجھ پر فرض ہوچکا ہے۔۔۔اس خاکے میں آپ جو کچھ پڑھیں گے وہ یقیناًسچ جیسا ہی ہوگا لیکن آپ چاہیں تو اسے صرف تفریح طبع کے لیے پڑھ سکتے ہیں۔ میں دعا گو ہوں کہ یہ خاکہ جب خود کوٹ قاسم صاحب پڑھیں تو اسے زیادہ سیرئیس نہ لیں ورنہ ان کی ناراضی میں افورڈ نہیں کر سکتا۔۔۔!!!آئیے اب کوٹ قاسم کے بارے میں کچھ جانتے ہیں!
کوٹ قاسم کسی بندرگاہ کا نہیں ایک جیتی جاگتی شخصیت کا نام ہے۔ آپ چونکہ بہت اچھے ویٹر ہیں اس لیے اپنے آپ کو صحافی کہلواتے ہیں ، اکثر نابلد لوگ آپ کو معمولی انسان سمجھتے ہیں، حالانکہ تاریخ گواہ ہے کہ آپ معمولی نہیں بلکہ بہت معمولی انسان ہیں….. آپ کے مکمل تعارف سے پہلے ضروری ہے کہ آپ کا حلیہ مفصل بیان کر دیا جائے۔ آپ کا رنگ آف براؤن ….. قد پانچ فٹ دو مہینے ….. آنکھیں کھلی ہوئی ….. چھاتی 35 ملی میٹر گہری ….. گردن گملے دار ….. وزن 20 ماشے ….۔ آپ بہت منکسر المزاج ہیں، ہر ایک سے جھک کر ملتے ہیں، تاہم آپ کے دشمنوں کا کہنا ہے کہ ایسا صرف آپ شوق کی وجہ سے کرتے ہیں۔ آپ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ایک منٹ میں بتا دیتے ہیں کہ اخبار الٹا پڑا ہوا ہے یا سیدھا۔ آپ کو بہت سے شوق ہیں، تاہم آپ کے کچھ شوق وقت کی کمی کے باعث پورے نہیں ہو سکے اور کچھ جگہ کی کمی کے باعث۔
آپ کا پسندیدہ لباس کوٹ پینٹ ہے، اسی لئے حلقہ احباب میں کوٹ قاسم کے نام سے مشہور ہیں۔ یہ کوٹ آپ کو آپ کے سب سے چھوٹے بیٹے نے آپ کی پہلی شادی پر گفٹ کیا تھا، آپ یہ کوٹ پہن کر زور زور سے گانے گایا کرتے تھے اور شور کیا کرتے تھے لہذا اہل علاقہ نے آپ کے اس کوٹ کا نام شور کوٹ رکھ دیا، تاہم آج کل آپ کی ایک بیماری کی مناسبت سے اس کوٹ کا نام سیال کوٹ پڑ چکا ہے۔ آپ نے شادی بھی اسی کوٹ میں کی تھی جو بعد ازاں کوٹ میرج کے نام سے مشہور ہوئی۔ آپ کا کہنا ہے کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا….. جس نے کراچی نہیں دیکھا اس نے انتقال ہی نہیں کیا….. جس نے گوجرانوالہ نہیں دیکھا اُس نے کبھی کھانا ہی نہیں کھایا ….. جس نے راولپنڈی نہیں دیکھا اس نے کچھ بھی نہیں دیکھا ….. اور ….. جس نے پشاور نہیں دیکھا ….. اس نے اچھا ہی کیا۔
خواتین سے دوستی نبھانا بھی آپ پر ہی ختم ہے، ہر معاملے میں انہیں شریک رکھتے ہیں، ایک لڑکی کو تو اپنے معاملات میں اتنا شریک کر لیا کہ اب وہ آپ کی شریک حیات ہے۔ آپ بہت مذہبی ہیں، چونکہ نماز سے پرہیز کرتے ہیں اس لئے سب آپ کو نمازی پرہیزی کہتے ہیں۔ آپ کے مذہبی ہونے کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اپنی اہلیہ کو بھی اہلیہ ماجدہ کہہ کر بلاتے ہیں۔
جب سے آپ کی شادی ہوئی ہے آپ نے گھر جانا ہی چھوڑ دیا ہے، بقول آپ کے قدر کھو دیتا ہے روز کا آنا جانا…..!!! تاہم آپ چڑیا گھر باقاعدگی سے جاتے ہیں، آپ کا کہنا ہے کہ انسان کو اپنا اصل نہیں بھولنا چاہئیے۔ کوٹ قاسم عوام سے بہت پیار کرتے ہیں، اتنا زیادہ کہ باقاعدہ دفتر کا قیام عمل میں لا رکھا ہے ، اس دفتر میں وہ اکثر عوام کی فلاح و بہبود کے لئے مانگ پتہ کھیلنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ چونکہ دفتر کے اخراجات روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں اس لیے آپ کا بال بال قرضے میں جکڑا جا رہا ہے ، تاہم معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ آپ اپنا بال بال قرضے سے چھڑوانے کی غرض سے اگلے ہفتے موقع پا کر ٹنڈ کروانے کا سوچ رہے ہیں۔
کوٹ قاسم چونکہ ایک رسالے کے ایڈیٹر بھی ہیں اس لئے کوٹ کی سامنے والی جیب پر جلی حروف میں پریس لکھوا رکھا ہے، تاہم چند حاسدین کا کہنا ہے کہ یہ اصل میں ڈپریس لکھا ہوا تھا جس کا ڈ بار بار دھلائی سے مٹ گیا ہے۔ میں خوش نصیب ہوں کہ مجھے کوٹ قاسم جیسی جلیل القدر ہستی کے بارے میں ان صفحات پر کچھ لکھنے کا موقع مل رہا ہے، یہ مضمون تو ایک ابتدا ہے، انشاء اللہ زندگی رہی تو میں انہیں ایسی ایسی جگہ پر لکھوں گا جہاں انہوں نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا۔ ہاں تو اب ذرا ذکر ہو جائے کوٹ قاسم کی شب و روز کی مصروفیات کا…..!!!
آپ علی الصبح ساڑھے گیارہ بجے اٹھتے ہیں، ناشتہ لان میں کرتے ہیں حالانکہ مخالفین بضد ہیں کہ انسانی ناشتہ لان میں نہیں کچن میں ہونا چاہیے۔ ناشتے میں آپ دو ابلے ہوئے انڈوں کا آملیٹ ہاف فرائی کرکے نوش فرماتے ہیں، چونکہ ہر وقت ریوالور پاس رکھتے ہیں اس لیے چائے پسند نہیں فرماتے، آپ کا موقف ہے کہ زیادہ چائے پینے سے انسان ہتھیار اٹھانے کے قابل نہیں رہتا۔
ناشتے کے بعد آپ انگریزی اخبار سے ہاتھ صاف کرتے ہیں اور منہ سے ڈکار مارتے ہیں، آپ بہت صفائی پسند ہیں لہذا روزانہ تیمم کرتے ہیں اور آفس آنے کے لیے اپنا تاریخی کوٹ زیب تن کرتے ہیں، کوٹ کو زمانے کے گردوغبار سے بچانے کے لیے آپ احتیاطاً اس کے اوپر لمبا سا شاپنگ بیگ چڑھاتے ہیں اور اپنے سہراب ڈیزل کی قینچی چلاتے ہوئے آفس پہنچ جاتے ہیں۔ چونکہ آفس تہہ خانے میں ہے اور زمانہ بہت خراب ہے اس لیے آپ مجبوراً اپنی سواری اٹھا کر ساتھ ہی دفتر لے جاتے ہیں اور اپنی کرسی کے ساتھ کس کے باندھ دیتے ہیں۔ شام پانچ بجے تک ڈیڑھ ہزار فون کرتے ہیں اور مستحق بن کر اپنے رسالے کے لیے پانچ ہزار کا ریونیو اکٹھا کر لیتے ہیں۔ چونکہ غصے کے بہت تیز ہیں اس لیے چھ بجے سیکرٹری پر گرم ہوتے ہیں اور سات بجے ٹھنڈے ہو کر گھر چلے جاتے ہیں۔
گھر جاتے ہی بیگم پر بھی گرم ہونے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بیگم غصے میں ان سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں چنانچہ آپ غصے سے اپنے ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچتے ہیں اور ایک میڈیم سائز ٹکر دیوار میں رسید کرتے ہیں، یہ عمل کرتے ہی آپ کے منہ سے کچھ ایسی لا یعنی آوازیں نکلتی ہیں جو عام طور پر عیدالاضحی کے دنوں میں سننے کو ملتی ہیں۔ رات 8 بجے آپ بیڈ روم میں تشریف لے جاتے ہیں اور ٹھیک 8 بجکر دو منٹ پر باہر برآمدے میں آکر سو جاتے ہیں۔
کوٹ قاسم جیسی شخصیات روز روز پیدا نہیں ہوتیں، یہ وقوعہ کئی ’’سردیوں‘‘
بعد رونما ہوتا ہے۔ میں کوٹ قاسم سے بہت پیار کرتا ہوں کیونکہ بے زبانوں سے بھی محبت کرنی چاہیے۔