ہوم << بڑوں کی لڑائی اور معصوم بچے - مجاہد حسین میئو

بڑوں کی لڑائی اور معصوم بچے - مجاہد حسین میئو

بنی نوع انسان کی تاریخ کے پنوں کو پلٹ کر دیکھیں تو اس تہذیب جدید سے لے کر پتھروں اور غاروں کے زمانے تک دو بڑوں یا کچھ بڑوں کی جنگ میں کئی چھوٹوں کی قربانی عام سی بات رہی ہے۔ اور وہ چھوٹے ہمیشہ سے ہی پستے اور تڑپتے چلے آتے ہیں ۔

حال ہی میں عمران خان پر حملہ ہوا جو یقیناً کچھ بڑوں کی آپسی لڑائی ہی کا شاخسانہ تھی اور نتیجتاً تین بچوں کے باپ کی جان لینے کا سبب بنی۔ مقتول کسی عرب ملک میں اے سی ریپئرنگ کا کام کرتا تھا۔ یقیناً مہینوں بعد وہ اپنے بچوں سے ملتا ہوگا ۔ یا شاید سالوں بعد بھی۔! وہ تو شاید بچوں کو لے کر شغل میلا دیکھنے آ گیا ہو گا لیکن اسے کیا معلوم تھا کہ جہاں میں جا رہا ہوں وہاں موت پر پھیلائے میرے انتظار میں ہے۔ اتنی بھیڑوں اور بھیڑیوں کے ہجوم میں سہمے ہوئے اپنے مردہ باپ کو اٹھاتے وہ بچے۔ چشم تصور سے ذرا دیکھیے یہ منظر ان بچوں کی آنکھوں سے کبھی اوجھل نہ ہو پائے گا۔

اب ذرا اسی منظر نامے میں کنٹینر پر موجود لوگوں کو دیکھیں۔ گولیاں چلیں ساتھ ہی پتا نہیں کتنے ہی لوگ ایک شخص کو بچانے اس پہ جھک گئے جو بڑے تھے وہ اپنی جان بچانے کیلئے جھکے اور جو چھوٹے تھے وہ بڑوں کی جان بچانے کیلئے جھکے ۔ یہ ہمیشہ سے ایسے ہی ہوتا آیا ہے اس بونی دنیا میں کچھ بڑے قد والے بونے لوگ بھی موجود ہیں بلکہ معذرت کیساتھ بہت سے لوگ موجود ہیں جن کی ذمہ داری بڑوں کی حفاظت کرنا ، بڑوں کیلئے مرنا ، بڑوں کے الزامات اپنے سر لینا اور بڑوں کے پھیلائے ہوئے رائتے کو اپنے خون سے دھو کر صاف کرنا۔

حق اچھا ہے پر اس کیلئے کوئی اور مرے تو اور اچھا اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو اس طرح کے بہت سے واقعات نظر آتے ہیں ۔ ہمارے ہی علاقے کے ایک با اثر آدمی نے کسی بڑے کا قتل کر دیا جوابا کیس چلا ظاہر ہے مرنے والا بڑا تھا لیکن مارنے والا بھی بڑا تھا تو فیصلہ کچھ اس طرح ہوا کہ قاتل بھی کوئی ایک لاش دستیاب کر دے تو کیس میں نرمی ہو سکتی ہے۔ تو جناب اس با اثر شخص نے اپنے ہی گارڈ کو مروا دیا۔ ضمانتیں ہوئیں اور کیس چلتا رہا۔ اس طرح collateral damage موصوف کو کلین چٹ دے گیا۔ اور یہ روایت صرف علاقے اور ملک تک ہی موقوف نہیں ہے بلکہ یہ عالمی منظر نامے پر اسی طرح نمایاں نظر آتا ہے ۔ ترقی یافتہ ممالک اور شپر پاور کی دوڑ میں شامل بڑے ملکوں کی جنگیں تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں لڑی جاتی ہیں۔ چند ڈالروں کے عوض ان کی جانوں پر کھیلا جاتا ہے ۔

انہیں آپس میں لڑا کر ایک بڑا دوسرے بڑے کو اپنی طاقت دکھاتا ہے اور نقصان بس چھوٹوں کا ہوتا ہے۔ اس حالیہ حملے کے بعد ایک مبینہ آڈیو بھی لیک ہوئی ہے جس میں کوئی وفاقی وزیر تین چار لاشیں گرانے کی بات کر رہا ہے ۔ یعنی وہ تین چار لاشیں اس مارچ کو روک سکتی ہیں۔ محترم عمران خان صاحب کئی دنوں سے کہہ رہے ہیں کہ میرے خلاف پلاننگ ہو رہی ہے ۔ مجھے قتل کر دیا جائے گا ۔چار لوگوں نے بند کمرے میں یہ لائحہ عمل تیار کیا ہے ۔ تو جناب اگر آپکو اتنی خبر تھی تو آپ ںے کوئی بہتر راستہ کیوں استعمال نہ کیا ۔

یا پھر یہ لاش آپکے موقف کو تقویت دے گی ،ملک میں مزید عدم استحکام پیدا ہو گا ، ملک مزید انتشار کا شکار ہو گا ۔ اب اس قتل کے بعد صورتحال یہ ہے کہ لوگ اور ٹینک سڑکوں پر ہیں، عمران خان صاحب نے لانگ مارچ ملتوی کر دیا ہے، کیونکہ جو پیغام وہ پہچانا چاہتے تھے وہ ایک گولی چلنے کے بعد بہترین انداز میں پہنچ چکا ہے۔ چند پریس کانفرنسوں اور چند لاکھ روپے کے چیکوں کے بعد یہ معاملہ بھی ساہیوال کیس کی طرح ختم ہو جائے گا اور پھر شاید راوی بڑوں کے گھر میں چین لکھے حالانکہ وہاں تو جنگ کے دن بھی چین ہوتا ہے۔

خدارا سمجھیے اپنی جان کو اتنا ارزاں نہ کیجئے دیکھئے کہ جن کے پیچھے آپ آنکھیں بند کر کے نکل کھڑے ہوئے ہیں کیا ان کے بچے بھی وہاں موجود ہیں۔ کیا ان کا بھی اتنا ہی نقصان ہو گا جتنا آپکا؟ کیا گولی انہیں بھی اتنا ہی نقصان پہنچائے گی جتنا آپکو؟ اگر انکے جواب نہ میں آئیں تو خدارا دوبارا سوچ لیجیے گا ۔ کیوں کچھ لوگوں کی زندگی آپکے زندہ ہونے سے چلتی ہے۔