بڑی خبر لانگ مارچ نہیں‘ یہ ہے کہ کراچی میں ہجوم نے ایک انجینئر اور اس کے ڈرائیور کو مکے‘ٹھڈے‘ گھونسے اور لاتیں مار مار کر مار ڈالا۔ یہ شوقیہ قتل کی واردات تھی۔ بظاہر رپورٹ یہ ہوئی ہے کہ ہجوم کو مقتولین پر بچے اغوا کرنے کا شک تھا‘ لیکن شک نہیں‘ یہ شوق کی واردات تھی اور یہ شوق رکھنے والے پاکستان کے ہر شہر میں ہیں۔
جہاں کسی کو موقع ملتا ہے‘ وہ شوق پورا کر لیتا ہے اور چونکہ ہمارا ریکارڈ ہے کہ اس شوقیہ قتل پر سزا نہیں ملتی۔ لوگ کچھ دنوں کیلئے گرفتار ضرور ہوتے ہیں‘ پھر چھوڑ دیئے جاتے ہیں۔ بہتوں سال پہلے سیالکوٹ کے دو نوجوان بھائیوں کو شوقین افراد نے لاٹھیاں مار مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ آدھے گھنٹے میں ان کی جان نکلی۔ اس واقعہ کی ویڈیو نے دنیا بھر کو ہلا دیا۔ ملزم پکڑے گئے‘ پھر کچھ ہی عرصے بعد باعزت رہا کر دیئے گئے۔ سیالکوٹ ہی میں ایک سری لنکن کو اسی طرح مارا گیا۔ کتنے ہی واقعات ہوئے ہیں اور شوقین حضرات نے ہر الزام پر طبع آزمائی کرتے ہوئے یہ شوق پورے کئے ہیں۔مقتول ایک ٹیلی کام کمپنی کے ملازم تھے اور کیماڑی کی مچھر کالونی میں موبائل سگنل چیک کرنے آئے تھے۔ کل رات ٹی وی سکرینوں پر چند لمحوں کیلئے اس کے ٹکر چلے اور آج کے اخبارات میں بہت تلاش کرنے کے بعد یہ خبر نظر آئی۔
صفحہ آخر کے نچلے اخیری حصے میں۔ ماضی قریب میں اخبار کے اندر ایک شعبہ ہوتا تھا جو اس بات پر نظر رکھتا تھا کہ کوئی اہم خبر مس تو نہیں ہوئی۔یعنی شائع ہونے سے رہ تو نہیں گئی اور ایسی خبروں کی مسنگ ناقابل قبول سمجھی جاتی تھی اور متعلقہ ایڈیٹر کو جواب طلبی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اب یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ شعبہ اب بھی موجود ہے‘ تب بھی ایسی خبر کے مس ہونے کواس نے قابل اعتنا نہیں سمجھا تھا۔ بہرحال کسی اخبار نے بھی یہ خبر مس نہیں کی‘ لگائی ضرور چاہے اڑھائی سطروں میں نمٹا دی۔برطانیہ یا کسی اور یورپی ملک کے اخبار میں یہ خبر لیڈ ہوتی‘ ہمارے ہاں دو کالم تک لگی تو بھی غنیمت ہے۔ یہاں جو سودا بکتا ہے‘ وہی بیجا جاتا ہے۔ یہاں لانگ مارچ بکتا ہے‘ عمران خان اور شیخ رشید کے بیان بکتے ہیں‘ کوئی ماڈل نیم عریاں لباس پہن کر پارلیمنٹ کی بلڈنگ میں گھس جائے اور دروازے کو ٹھوکر مارکرکھولے تو یہ خبر بکتی ہے.
اس کی تصویر بکتی ہے‘ ویڈیو بکتی ہے اور وائرل بھی ہوتی ہے۔بے گناہوں کا قتل یہاں نہیں بکتا۔ چند روز قبل اوکاڑہ کی دو سالہ بچی علیزہ جھلس گئی۔ اوکاڑہ اور لاہور کے چار ہسپتالوں میں لائی گئی‘ کسی نے علاج نہیں کیا۔ وزیراعلیٰ سے اپیل کی گئی جوکہ نہیں کرنی چاہئے تھی۔ بالآخر یہ دو سالہ بچی مر گئی۔ صرف ایک انگریزی اخبار نے اس کی خبر چھاپی اور علاج کے تباہ ہو چکے نظام پر روشنی ڈالی۔ علاج سے لیکر عدل تک‘ ہر نظام دم توڑ چکا ہے‘ لیکن اوبیچریز (وفات) کے کسی گوشے میںبھی یہ خبر ابھی تک نہیں چھپی ہے۔ (یہ واقعہ 19 اکتوبر کو رپورٹ ہوا تھا) بہرحال‘ لانگ مارچ بھی اس بار خلاف روایت زیادہ فروخت ہونے والا سودا نہیں رہا۔ خیال تھا کہ 2014ءوالی بہار رفتہ واپس آئے گی اور جھلک دکھائے گی‘ لیکن ایسا نہیں ہوا اور اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات ہے کہ یہ سودا اس بار سوشل میڈیا کی منڈی میں بھی بہت زیادہ نہیں بکا۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ عسکری قیادت کی پریس کانفرنس سے بہت سے لوگوں نے اثر قبول کیا۔ لاہور میں خان صاحب کے ہر جلسے میں پندرہ سے بیس ہزار آدمی آجاتے تھے‘ چنانچہ توقع تھی کہ لانگ مارچ میں 20 ہزار لوگ ضرور آئیں گے‘ لیکن اس میں تو گنتی آ دھی بھی نہیں تھی۔ ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں اسد عمر پارٹی کے ایک مقامی رہنما پر برس رہے ہیں کہ لوگ اتنے کم کیوں آئے۔حد تو یہ ہے کہ اعظم سواتی کا وہ سودا بھی نہیں بکا جس میں وہ بتا رہے ہیں کہ میرے جسم پر زخم لگائے گئے‘ پھر رہائی سے قبل ڈاکٹروں نے وہ زخم مٹا ڈالے‘ ان کے نشانات بھی صاف کر دیئے۔حالانکہ یہ سودا اور نہیں تو سائنس فکشن ہی کے طورپر بک سکتا تھا‘ لیکن لگتاہے‘ خریداروں کا ذوق خریداری بدلتا جا رہا ہے۔
عمران خان کی تقریروں کا سودا البتہ بھارتی میڈیا پر بہت بک رہا ہے اور خریدار بغلیں بجا بجا کر یہ سودا خرید رہے ہیں۔ ایک ٹی وی اینکر نے تو یہ کہہ دیا کہ جو مقصد ہم اربوں ڈالر خرچ کرکے حاصل نہیں کر سکے‘ عمران خان نے مفت میں ہمیں حاصل کرکے دیدیا۔
مفت آپ کیلئے ہوگا صاحب‘ ہمارے خان کو تو کروڑوں نہیں‘ اربوں خرچ کرنا پڑے۔ فی جلسہ ڈیڑھ کروڑ‘ کل 60 جلسے‘ لانگ مارچ کا ایک دن پانچ پانچ کروڑ اور ابھی یہ پانچ دن چلنا ہے۔ خان صاحب نے بہت بڑی قربانی دی ہے۔ جانی نہ سہی‘ مالی ہی سہی۔بہرحال بھارتی میڈیا ایک مہینہ اور بغلیں بجا لے۔ پھر جو کچھ ہوگا‘ وہ بغلیں جھانکتا ہی رہ جائے گا۔ مقصد حاصل کرنا بھارتی میڈیا کی خوش فہمی ہے۔ اتنا آسان نہیں ہے مہاشے جی!وزیرداخلہ نے انتباہ کیا ہے کہ علی امین گنڈاپور‘ قاسم سوری اور آفریدی کی قیادت میں مسلح جتھے لانگ مارچ میں داخل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ یہ جتھے پُرتشدد وارداتیں کر سکتے ہیں۔
باقی دوکے بارے میں تو ہم کچھ کہہ نہیں سکتے۔ البتہ علی امین گنڈاپور کی صفائی دینا ضروری سمجھتے ہیں۔ وہ اگر کوئی جتھہ لا رہے ہیں تو کسی اور مقصد کیلئے نہیں‘ بلیک لیبل اسلامی شہد کی مارکیٹنگ کیلئے لائے ہیں۔ ان کا یہ ”دورہ“ کاروباروی نوعیت ہی کا سمجھا جائے تو بہتر ہوگا۔پی ٹی آئی کے رہنما شاہ فرمان نے انکشاف کیا ہے کہ حکومت عمران خان کو فوج سے لڑانا چاہتی ہے۔ اچھا.‘ گویا‘ مسٹر ایکس‘ ڈرٹی ہیری اور اوے فلاں کان کھول کر سن لو والی پٹیاں عمران خان کو حکومت نے ہی پڑھائی ہیں۔ بہت خوب۔
تبصرہ لکھیے