ایک صاحب اسٹیبلشمینٹ کے گملے میں اگتے ہیں اور جب انہیں مقبول ترین لیڈر ہونے کا زعم ہوتا ہے تو وہ کان سے پکڑ کر نکال دیے جاتے ہیں۔ پھر وہ ایک بیانیہ ترتیب دیتے ہیں
”ووٹ کو عزت دو“
اور ایک بڑی تعداد عام لوگوں کی اور کچھ سکہ بند دانشور انہیں وقت کا چی گویرا تصور کرلیتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ نعرہ صرف ذاتی اقتدار کے چھن جانے کے غم اور دوبارہ مل جانے کی بارگینگ پریشر کے طور پر لگایا گیا ۔یہ ایک خود غرض بیانیہ تھا ۔ اور اسے ہی کہتے ہیں عوام کے جذبات کا استحصال کرنا۔
پھر ایک اور صاحب آرڈیننس فیکٹری میں مینو فیکچر ہوتے ہیں اور مختلف دعوے اور نعرے سیٹ کرتے کرتے اقتدار سے ٹانگ سے پکڑ کر نکال دیے جاتے ہیں تو وہ ایک بیانیہ ترتیب دیتے ہیں
”ہم کوی غلام ہیں “
۔ وہ کتنے آزاد تھے اور کتنا آزاد رہنا چاہتے ہیں اس کا حدود اربعہ صرف اقتدار کی کرسی جتنا ہے ۔ مطلب اگر ماہی چھلا پوادے (پہنا دے) تو پھر سب قبول ہے ۔ مختصراً، یہ نعرہ بھی اقتدار چھن جانے کے غم اور دوبارہ مل جانے کی امید پر لگایا گیا ۔ اور یہ بھی چی گویرا دوئم کی طرح جذباتی استحصال کے ایکسپرٹ بن چکے ہیں ۔
یہ سب دراصل خود غرض بیانیے ہیں۔ان سب کے نزدیک سیاست اسی چیز کا نام ہے کہ ابن الوقت اور موقع پرست بن کر رہو ۔ جب فائدہ دکھائی دے ریاست مدینہ کا نعرہ لگا دو جب موقع لگےسامنے والے کو یہودی ایجنٹ بنا دو ۔ جب ہوائیں چلیں امیر المومنین بننے کے لیے قانون بنا لو جب ہوائیں الٹ چلیں تو سرحد لکیر کے سوا کچھ نہیں اور پھر دو قومی نظریہ کو آلو شوربے میں ڈبو دو ۔
یہ سب عوامی جذبات کے استحصال ہیں اور عرف عام میں عوام بھی خوب سمجھتی ہے مگر سمجھنے کے باوجود ان بیانیوں کے پیچھے چل پڑتی ہے ۔
تبصرہ لکھیے