کل ، یکم نومبر کو وزیر اعظم جناب شہباز شریف چین کے دَورے پر جا رہے ہیں اور چار دن بعد سابق وزیر اعظم جناب عمران خان کا لانگ مارچ اپنے علانیہ پروگرام کے مطابق منزلیں مارتا اسلام آباد میں داخل ہونے کا خواہاں ہے۔ وفاقی دارالحکومت کے حکمرانوں اور عوام پر ہیجانی اور بے یقینی کے بادل چھائے ہُوئے ہیں۔
اسلام آباد پھر رنگ برنگے کنٹینروں اور10ہزار سے زائد پولیس اہلکاروں کے حصار میں ہے ۔ایسے میں وزیر اعظم جناب شہباز شریف اِس اُمید کے ساتھ چین جا رہے ہیں کہ پاکستانی کی ڈانواڈول اور شدید ہچکولے کھاتی معیشت کو، شاید، مناسب سا سہارا مل جائے۔ اِسی آس اُمید پر شہباز شریف نے چند دن پہلے سعودی عرب کا دَورہ بھی کیا تھا، مگر وہاں سے بھی فی الحال کوئی قابلِ ذکر دلاسہ اور حوصلہ نہیں ملا۔ اب اُمیدیں باندھی جا رہی ہیں کہ اگلے ماہ جب مبینہ طور پر سعودی ولی عہد،شہزادہ محمد بن سلمان،پاکستان کے دَورے پر تشریف لائیں گے تو شاید ہماری کوئی دستگیری کر سکیں۔ ہماری قومی معاشی بد حالی کا اندازہ اِسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہم نے اپنی معاشی بقا کی اُمیدیں غیروں سے وابستہ کر رکھی ہیں ۔ شاعر امجد عطا نے کہا تھا:
بے بسی ایسی بھی ہوتی ہے بھلا؟
زندگی ایسی بھی ہوتی ہے بھلا؟
ایک طرف تو قومی معاشی بقا کے لیے ہمیں جان کے لالے پڑے ہیں اور ہم کشکول تھامے دربدر غیروں کے آگے جھک رہے ہیں اور دوسری جانب ہمارا حال یہ ہے کہ وطنِ عزیز کی ایک سیاسی جماعت لانگ مارچ پر کروڑوں، اربوں روپے خرچ کررہی ہے۔اِس سے قبل یہی سیاسی جماعت، پچھلے 6ماہ کے دوران، درجن سے زائد اپنے سیاسی جلسوں پر بھی کروڑوں، اربوں روپے صَرف کر چکی ہے ۔ جناب عمران خان نے انتھک توانائی کا مظاہرہ کرتے ہُوئے ان جلسوں سے مسلسل خطاب کیا ، اپنے چاہنے والوں کا خون گرمایا اور انھیں اِس دن کے لیے تیار کیا جو آج ہم سب لانگ مارچ کی شکل میں دیکھ رہے ہیں ۔ ہمارے ساتھ ساتھ غیر بھی خان صاحب کے جلسوں اور لانگ مارچ پر کڑی نگاہیں جمائے ہُوئے ہیں۔اِ ن غیروں کو حیرانی اِس بات پر بھی ہے کہ آیا یہ مہنگے ترین جلسے اور لانگ مارچ اُسی ملک میں ہو رہے ہیں جو ڈیفالٹ رِسک کے کنارے کھڑا ہے؟ لانگ مارچ شروع ہونے کے دوسرے دن ہی ہماری معیشت کا یہ حال ہو گیا ہے کہ ڈالر سوا دو روپے پھر مہنگا ہو گیا، سونے کے بھاؤ میں فی تولہ 1400روپے اضافہ ہُوا، اسٹاک مارکیٹ میں پانچ حدیں گر گئیںاور قومی مہنگائی میں 5فیصد اضافہ ہو کر یہ 32فیصد پر پہنچ گئی ۔
بے تحاشہ مہنگائی کی یلغار سے قطعی لاپروا، لانگ مارچ یلغار کے قائد عمران خان کی سیاسی زنبیل میں کیا ہے، کوئی نہیں جانتا۔ بظاہر وہ اپنی ضد نبھا رہے ہیں ، خواہ اِس کا نتیجہ کچھ ہی نکلے۔مقابلے پر کھڑے وزیر داخلہ، رانا ثناء اللہ، کہہ رہے ہیں : ’’اسلام آباد پر چڑھائی کرنے والوں کا انجام ایسا ہوگا کہ کوئی دوبارہ اسلام آباد پر جتھہ چڑھائی کا سوچے گا بھی نہیں۔‘‘ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ رانا صاحب کا یہ لہجہ بے اثر ہے تو وہ کم فہمی کا شکار ہے ۔ لاہور سے لانگ مارچ کا آغاز ہُوا تو اِس میں شرکت کنند گان کی وہ تعداد نظر نہیں آئی جس کی توقع کی جارہی تھی۔ اِس ضمن میں اخبارات ایسی خبریں شایع کر رہے ہیں جو بتاتی ہیں کہ لانگ مارچ کے آغاز میں پی ٹی آئی کے کارکنان کی مطلوبہ و متوقع تعداد نہ آنے سے پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل، اسد عمر، اپنے ہی کئی ارکانِ اسمبلی پر برس پڑے ۔تو کیا رانا صاحب کا اینٹی لانگ مارچ لہجہ اپنا کام دکھا رہا ہے ؟
خان صاحب بھی بباطن اپنے اِس لانگ مارچ کی ہیئت، حجم اور تعداد سے مطمئن نہیں ہیں ۔ وہ لانگ مارچ سے قبل ’’کسی طرف‘‘ سے حوصلہ افزائی کی کوئی چٹھی آنے کے منتظر تھے لیکن بسیار انتظار کے باوجود چٹھی نہ آسکی۔ حالات ایسی نہج پر آ چکے ہیں کہ مطلوبہ چٹھی آ بھی جاتی تو شایدکوئی افاقہ نہ ہوتا ۔ بقول میرزا رفیع سودا: ’’ترا خط آنے سے دل کو میرے آرام کیا ہوگا؟/ خدا جانے کہ اِس آغاز کا انجام کیا ہوگا؟‘‘۔ نااُمیدی بڑھنے سے خان صاحب کے ہیجان اور طیش میں اضافہ ہُوا ہے ۔ لانگ مارچ سے دو دن قبل اُن کے ایک قابلِ اعتماد ساتھی، فیصل واوڈا، نے اسلام آباد میں جو پریس کانفرنس کی، اِس نے بھی خان صاحب کا دل یقیناً کھٹا کیا ہے اور لانگ مارچ پر منفی اثرات ڈالے ہیں۔
ابھی یہ ترشی اور تلخی کم بھی نہ ہونے پائی تھی کہ راولپنڈی میں ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی نے مشترکہ طور پر ڈیڑھ گھنٹہ پر مشتمل جو انکشاف خیز اور تاریخ ساز پریس کانفرنس کی، اِس نے بھی خان صاحب کی رہی سہی اُمیدوں پر پانی پھیر دیا۔ اس مشترکہ پریس کانفرنس نے عمران خان کا ایک خفی چہرہ بھی قوم کے سامنے عیاں کیا ہے۔ خان صاحب کی بے بسی قابلِ دید ہے اور وہ اِنہی بیکسی اور بے بسی کے احساسات تلے کہنے پر مجبور ہیں :’’اِس( مشترکہ) پریس کانفرنس کا جواب دے سکتا ہُوں لیکن ملک کے لیے چپ ہُوں ۔‘‘ قوم حیران ہے کہ خان صاحب اِس ’’چپ‘‘ سے قبل اپنی تقریروں، بیانات اورانٹرویوز میں جن کے خلاف نازیبا القابات استعمال کر چکے ہیں۔
اب ’’چپ‘‘ کا روزہ رکھنے کا فائدہ؟ اِس معروف مشترکہ پریس کانفرنس کے فوری بعد خان صاحب نے ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہُوئے زیر لب کچھ جواب دینے کی کوشش تو کی لیکن بات بن نہ سکی ۔ وہ شدید ذہنی دباؤ میں نظر آتے رہے۔ دوسری طرف حکومت اور اسٹیبلشمنٹ بھی دباؤ میں ہیں۔وی لاگرز سے ملاقات میں شہباز شریف نے عمران خان کے بارے میں جو نیا انکشاف کیا ہے، اِس نے بھی خان صاحب کی پریشانیوں میں اضافہ کیا ہے ۔بڑی پریشانی یہ بھی ہے کہ آٹھ سال پہلے( نواز شریف حکومت کے خلاف) اسلام آباد پر اُن کے اولین ’’حملے‘‘ کے دوران انھیں جن قوتوں اور طاقتور شخصیات کی امداد و اعانت حاصل تھی، آج وہ ایسی خفیہ اعانتوں اور سہاروں سے محروم ہیں۔وہ غصے اور طیش میں آ کر چند طاقتوروں کے خلاف محض مزید الزام تراشیاں کرکے اور انھیں ’’للکار‘‘ کر اپنا اور اپنے پیروکاروں کا دل پشوری کررہے ہیں۔
پی ٹی آئی کے سینیٹر اعظم خان سواتی نے بھی خان صاحب کے تتبع میں ایک حساس ادارے کے دو سینئر افسران کے نام لے کر پریس کانفرنس میں الزامات عائد کیے ہیں لیکن بات پھر بھی نہیں بن سکی۔خان صاحب اور سواتی وغیرہ کے الزامات کی یہ نوبت اس لیے آئی ہے کہ اداروں نے خان صاحب کو بے جا لاڈ پیار سے برسوں نوازے رکھا۔ اُدھر ، بقول وزیر دفاع و وزیر اطلاعات،بھارتی میڈیا خان صاحب اور سواتی صاحب کے ہمارے اداروں کے خلاف عائد کیے گئے متنوع الزامات کی بنیاد پر جشن منا رہا ہے۔
ادارے پھر بھی صبر سے کہہ رہے ہیں کہ خان صاحب کو لانگ مارچ کا حق حاصل ہے، بشرطیکہ کوئی فساد برپا نہ ہو ۔ پسِ پردہ نئے مذاکرات کی گونج میں اُمید یہی ہے کہ کسی مبینہ ممکنہ خونی فساد( بحوالہ فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس اور علی امین گنڈا پور کی مبینہ آڈیولیک) سے قبل ہی لانگ مارچ پُر امن اسلوب میں اپنے انجام کو پہنچ جائے۔ بقول ساحر لدھیانوی: وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن / اُسے اِک خوبصورت موڑ دے کے چھوڑنا اچھا!!
تبصرہ لکھیے