ہوم << رعایا پر حکمران کا اثر - شاہ فیصل ناصر

رعایا پر حکمران کا اثر - شاہ فیصل ناصر

مشھورعربی مقولہ ہے،”اَلنَّاسُ عَلی دِینِ مُلُوکِھِمْ” یعنی لوگ اپنے بادشاھوں کے دین و طریقے پر زندگی گزارتے ہیں۔ حکمرانوں کی طرززندگی اورعادات واطوار براہ راست رعایا پراثرانداز ہوتے ہیں۔

داناوں کاقول ہیں کہ، ”فقیر کی بھوک صرف اس کی جان کھاتی ہے جبکہ سلطان کی بھوک ملک وملت کھاجاتی ہے۔ انسانی تاریخ میں انبیاء کرام علیھم السلام بھترین لیڈرز اور حکمران گذرچکے ہیں، اسلئے ان کی رعایا (صحابہ کرام ) اور زمانہ بھی بہترین رہا۔ جیساکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے کے بارے میں فرمایاتھا، ”خَیرُالقُرُونِ قَرنِی ثُمَّ الّذِینَ یَلُونَھُم، ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَھُم” یعنی سب سے بہتر زمانہ میرا زمانہ ہے، پھراس کے بعدوالوں کا، پھراس کےبعدوالوں کا”۔
یقینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین کا دور بہترین حکمران اور بہترین رعایا کادورتھا، جہاں خوشحالی، امن اور اطمنان تھا۔

مسلم کیا،کافربھی پرسکون زندگی گذارتے۔عمرابن خطاب رضی اللہ عنہ کےخلافت عدل کااثر انسانوں کے علاوہ رعایا میں موجود جانوروں پر بھی ہواتھا،جہاں بکریاں بھیڑیوں کیساتھ بلاخوف اکٹھے چررہےتھے۔خلافت گذرتے ہوئے، زمانے اورحکمرانوں سے بھی خیررخصت ہونے لگی۔ ملوکیت میں لوگ اپنے بادشاھوں کے اور زیادہ زیراثر آگئے۔ دن بھر رعایا کی گفت و شنید کا مرکزومحور بادشاہ سلامت کی پسندوناپسند، خوراک ولباس اور نشست وبرخاست رہتا۔حجاج بن یوسف اپنے مظالم کیلئے مشہور ہے، اس کے زمانے میں جب لوگ صبح بیدار ہوتے اور ایک دوسرے سے ملاقات ہوتی توپوچھتے کہ گذشتہ رات کون قتل کیاگیا؟؟

کس کو پھانسی کے پھندے پر لٹکایا گیا اور کس کی پیٹھ کوڑوں کی بوچھاڑ سے چھلنی ہوئی؟ ولیدبن عبدالملک مال وجائیداد اور عمارتیں بنانے کا خواہاں تھا، چنانچہ اس کے زمانے میں لوگ ایک دوسرے سے مکانات کی تعمیر، نھروں کی کھدائی اور درختوں کی افزائش کے متعلق پوچھا کرتے تھے۔ جب سلیمان ابن عبدالملک نے ولی عہد کی کرسی سنبھالی تو وہ کھانے پینے اور گانے بجانے کا شوقین تھا چنانچہ لوگوں کی موضوع سخن اس کے زمانے میں اچھے کھانے،گانے والیوں اور لونڈیوں کے متعلق ہوتا۔اور جب عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللّٰہ کا دور آیا تو لوگوں کی آپس میں اس قسم کی گفتگو ہوتی کہ، ” آپ نے قرآن کریم کا کتنا حصہ یادکیاہے؟
رات کو کتنی نوافل پڑھتے ہو؟؟ فلان آدمی نے کتنے احادیث یاد کیے ہیں؟؟؟ وغیرہ دورجدید کی حکمرانوں میں ترک صدر رجب طیب اردگان ایک قابل تقلید حکمران کی حیثیت رکھتے ہے۔

کمال اتاترک نے ترکی سے اسلامی خلافت کو ختم کرکے سیکولرزم کی بنیاد رکھا، اسلامی اقدار کو پائے مال کرنے لگا۔ داڑھی اور حجاب پر پابندی لگا دی۔ بچوں کیلئے نماز اور قرآن مجید کی تعلیم کو ممنوع قرار دیا۔ اس کے برعکس اردگان نے ترکی کو دوبارہ اسلام اور خلافت کی راہ پر ڈالنے کی کوشش شروع کیا۔ انھوں نے ہر اس بچے کیلئے ایک سائیکل بطور انعام دینے کا اعلان کیا ہے جو استنبول کی جامع مسجد میں چالیس روز نمازباجماعت ادا کریں۔گذشتہ دنوں ترکی میں بچوں نے قرآن کریم کا ختم کیا تو حکومت نے ان کیلئے قیمتی تاج بناکر پہنائیں، اور دو ہزار حُفَّاظ قرآن کوعمرہ کی ادائیگی کیلئے سعودی عرب بھیج دیئیں۔ عالم اسلام کی تمام مظلوم مسلمانوں کیلئے موثر آواز صرف اردگان کا آواز ہے۔

سچ ہے کہ، ”إذَا صَلَحَ الرّاعِى، صَلَحَتِ الرِّعَايَا” جب راعى اورحكمران ٹھیک ہوجائے تو رعایا خودبخود ٹھیک ہوجائیگی۔ امام ابن تیمیہ رحمہ الله لکھتے ہیں، کہ جب حکمران اپنے رعایا کی دین و دنیا کی اصلاح کیلئے حسب امکان کوشش کرتا ہے وہ اپنے زمانے کی بہترین شخص ھوتا ہے۔امام احمد رحمہ اللہ نے اپنے مسند میں روایت نقل کیا ہے، کہ آپ ﷺ نے فرمایا،” أَحَبُّ الْخَلْقِ إلَى اللَّهِ إمَامٌ عَادِلٌ، وَأَبْغَضُهُمْ إلَيْهِ إمَامٌ جَائِرٌ” اللہ تعالی کو اپنے مخلوق میں محبوب ترین شخص عادل حکمران ہوتا ہے۔ اور مبغوض ترین شخص ظالم حکمران ہوتا ہے۔

یقینًا نیک وعادل حکمران اللہ تعالی کا عظیم نعمت، جبکہ ظالم وفاسق حکمران عذاب الہی کا کوڑا ہوتا ہے۔ لیکن اچھے حکمران کیلئےرعایا کو بھی اچھا ھونا پڑےگا کیونکہ حکمران، ان کے اعمال کا عکّاس ہوتا ہے، ”اعمالکم عمالکم” تمہارے اعمال ہی تمہارے حکمران ہوتے ہیں۔