ہوم << لاہوری کھابے - سید عارف مصطفیٰ

لاہوری کھابے - سید عارف مصطفیٰ

کہتے ہیں کہ لہور لہور اے ۔ لیکن یہ آج تک سمجھ نہیں آیا کہ اس وضاحت کے بغیر کیا کوئی لاہور کو پنڈی یا سیالکوٹ بھی سمجھ سکتا ہے۔ شاید یہ بات کہنے والا جب خود اپنے اس بیان کی صحت سے مطمئن نہیں ہوا تو اس نے یہ کہ کے مزید زور ڈال دیا کہ" جس نے لاہور کو نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا "۔ کراچی کی مردم شماری میں ‌شاید اسی مقولے کو مدنظر رکھا گیا ہے ۔

کچھ لوگوں‌ کے نزدیک دراصل اس مقولے میں خطہء لاہور کی اوٹ میں زندہ دل و خوش خوراک لاہوریوں کا حوالہ دیا گیا ہے جنکی اکثریت کے بارے میں یہ بات صادق آتی ہے " دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ " ۔ خاص طور پہ انہیں کھاتے ہوئے دیکھ ۔ کیونکہ لاہور میں انہماک اور خشوع و خضوع جیسے الفاظ‌کو محض اسی وقت سمجھا جاسکتا ہے کہ جب کوئی لاہوری کھانے سے کم سے کم فاصلے پہ ہو ۔ ایسے میں توان پھرتیوں کے لئے اس کے دونوں‌ہاتھ بھی کم پڑتے محسوس ہوتے ہیں اور عین اس وقت کسی سچے لاہوری سے کوئی اہم بات کرنا بھی ممکن نہیں کیونکہ خودکار نظام کے تحت لاہوری کا منہ کھلتے ہی کان بند ہوجاتے ہیں ، دوسرے یہ کہ اس کے لئے کھانے سے اہم بات اور کوئی ہو ہی نہیں سکتی ۔ ویسے بھی جتنی دیر میں لاہوری کسی بات کو سنے گا اتنی دیر میں میں وہ چند نوالے اور نہ نگل لے گا- باتیں سننے اور سمجھنے کے لئے تو ساری عمر پڑی ہے.

لاہوریوں کے بارے میں یہ بات بڑی مشہور کردی گئی ہے کہ وہ بہت کھانا کھاتے ہیں حالانکہ بات صرف اتنی سی ہے کہ وہ تو صرف کھانے کے لئے زندہ رہتے ہیں ۔ یہ سمجھنا بالکل غلط ہے کہ زندہ دلوں کے شہر لاہور کا نام دراصل لا ہور یعنی اور دے ہے ،،، دراصل لاہوری غذا کو اک دائمی حریف کا درجہ دیتے ہیں اور یوں‌اس سے روبرو ہونے پہ نہیں دوبدو ہونے پہ یقین رکھتے ہیں . درحقیقت انکا غذا کو نبیڑنے کا عمل کمالات میں شمار کیا جانا چاہیئے متواتر ٹھونسنا اور پیہم انڈیلنا اس کے ابتدائی مراحل ہیں اور آخری و عظیم ترین مرحلہ سب کچھ ہڑپ کرجانے پہ مبنی ہے - ظاہر ہے کہ اس ساری گھمسان کی خوراکی جنگ کے لیئے غذا کا کثیر ہونا ضروری ہے ۔

لیکن ایسا بھی نہیں‌کہ سبھی لاہوری ایسے ہی ہیں کیونکہ ایک ڈیڑھ فیصد ان سے مختلف بھی ہیں .وہ یوں‌تو ہر کھانے کی چیز جھٹ پٹ کھا مرنے پہ یقین رکھتے ہیں مگر شب دیگ اورحریسہ کھانے کے لئے انکی حرص اوربٹ کڑاہی اور سری پاوے سے انکی رغبت سمجھنے سے زیادہ دیکھنے کی چیز ہے.ان مذکورہ بالا غذائی نعمتوں‌سے دوچار ہونے کے سمے کسی لاہوری سے رابطہ اورعین شکار کے وقت بھوکے شیر سے الجھنا خطرے سے خالی ہرگز نہیں.اس میں کوئی شک نہیں کہ لاہوری کھانوں‌ کو کھاپے کا لقب دے کر دھڑا دھڑ نگلنےکا عمل یقینی بنالیا گیا ہے تاہم ان کی بابت اب یہ شکایت عام ہے کہ کھاچکنے کے بعد بھی نہیں پہچانے جاتے ۔ اسی ضمن میں یار من عباس ثاقب شکوہ سنج ہیں کہ "باقی سب تو ٹھیک ہے مگر بریانی کے نام پر مرغ کی ران سفید چاولوں میں دباکر پیش کرنا الگ سے قابل مذمت ہے ۔

" ہمارے خیال کے مطابق یہ دراصل اک قسم کا آرٹ ہے جو کے صرف لاہور کے فنی و غذائی افق پہ جلوہ گر ہے اور رفتہ رفتہ کئی دیکھی بھالی ڈشیں‌ بھی اس قسم کے فنون لطیفہ کا شکار ہوکے اجنبی سی لگنے لگی ہیں. اس کے علاوہ اک معاملہ اجزائے ترکیبی کو نمایاں کرنے والے ناموں کا ہے جیسے ولایتی ادویات کے جینرک نام ہوا کرتے ہیں عین اسی طرح لاہور میں کئی جگہوں پہ کڑھی کا نام پکوڑے والا سالن ہے ۔لیکن پھر وہ اسے عملی طور پہ ثابت بھی کردیتے ہیں ۔یہ الگ بات کے انکے ان سالنوں کے پکوڑے تعمیراتی کام میں پتھروں کی جگہ بھی زیر استعمال لائے جاسکتے ہیں ۔

لاہور کے باسی ،تازہ مرغ چھولے بڑے شوق سے کھاتے ہیں‌ جنکی تازگی کئی کئی دن تک برقرار رکھنا اک خاص قسم کا ہنر ہے۔ یہ ڈش کمال ضبط کو مسلسل آزماتی ہے کیونکہ لاہوری ہمیشہ بڑی یکسوئی سے تادیر اپنی پلیٹ میں موجود چھولوں کی دلدل میں مرغ کی باقیات ڈھونڈتے اور پیٹ کی قبر میں اتارتے پائے جاتے ہیں . لاہور واسیوں کی ایک اور پسندیدہ شے پایا ہے جو عام طور پہ ایسے بکرے کا ہوتا ہے کہ جسکی ساری صحت اسکے پیروں میں ہی ٹہر جاتی ہے۔ لیکن ہم اہل کراچی کا پایا بھی صرف اسی لئے بلند پایہ نہیں کہ بکرے سے مزید 3 فٹ اونچی بھینس کا ہوتا ہے بلکہ اس لیئے بھی ہے کیونکہ اس میں کھانے کا مواد بغیر ڈھونڈے ہی آسانی سے مل جاتا ہے اور اس کا سریشی شوربہ توچپکتی انگلیوں کو باہم جوڑ کے گویا امت واحدہ بنادیتا ہے اور پھر ایک طولانی یا طوفانی ڈکار کی صورت اس بڑے مقصد کی داد پاتا ہے۔

یہ مضمون ختم کرتے کرتے یاد آیا کہ آپکو بتانے کی سب سے اہم بات تو رہ ہی گئی ۔۔۔ لاہور کے ہوٹلوں میں کھانے بڑی احتیاط سے پکائے جاتے ہیں اور حتی المقدور پوری پوری کوشش کی جاتی ہے کہ خدانخواستہ کہیں ذائقہ دیگچی کے اندر نہ گھس جائے۔ اور اس کے چکر میں گاہک کہیں تادیر نہ بیٹھا رہ پائے۔اس بات کو ہر طرح ممکن بنایا جاتا ہے کہ وہ بس آخری نوالے سے پلیٹ پونچھے ، اپنے پیٹ کی جھول میں بھرے پایوں کے ابھار پہ ہاتھ پھیرے اور دام بھرتے ہی فٹافٹ روانہ ہوجائے ایسا ہرگز نا ہو کہ چٹپٹےکھانے کے خمار سے لاچار ہوکے کہیں وہ کرسی پہ ہی پڑا پڑا ہونٹوں پہ زبان پھیرتا رہے اور خواہ مخواہ چٹخارے کے سرور میں مبتلاء رہ کر ہوٹل والے اور دوسرے گاہکوں‌ کے صبر کا امتحان لیتا رہے۔