ہوم << عدالت کا وقار واعتبار (حصہ اول) - مفتی منیب الرحمن

عدالت کا وقار واعتبار (حصہ اول) - مفتی منیب الرحمن

ہم نے قرآن وسنت اور شریعتِ اسلامیہ کی روشنی میں ’’منصبِ قضا‘‘ پربالترتیب 21اور 23جولائی کو دو کالم لکھے ،اس سے یہ بتانا مقصود تھا کہ نظامِ ریاست وحکومت کا توازن اعلیٰ عدالتی معیار کا مرہونِ منّت ہوتا ہے، ورنہ اگر میزانِ عدل کسی ایک جانب جھک جائے تو حق داروں کے حقوق تلف ہوجاتے ہیں اور پھر دادرسی اور شنوائی کا کوئی اور فورم بھی دستیاب نہیں ہوتا، کیونکہ ریاست وحکومت کی ستم رانی پر تو عدالت سے رجوع کیا جاسکتا ہے.

لیکن اگر عدالت سے ہی عدل مفقود ہوجائے تو پھر صرف اللہ تعالیٰ کی عدالت ہی باقی رہ جاتی ہے، دنیا میں محرومی ونامرادی مقدر بن جاتی ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے تحت کسی کو اسی دنیا میں ہی مکافاتِ عمل سے دوچار فرمادے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے شدید عذاب ہے، (یہ)وہ لوگ ہیں کہ جب دوسروں سے ناپ کرلیں تو پورا لیں اور جب انہیں ناپ کر یا تول کردیں تو کم کردیں، (المطففین:1-3)‘‘۔

مشہور مقولہ ہے: ’’عدل ہونا بھی چاہیے اور ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے‘‘، اللہ تعالیٰ تو مالکِ حقیقی ہے ، وہ چاہے تو ایک امرِ کُن سے پورے نظامِ کائنات کو نیست ونابود کردے ، وہ کسی کو جوابدہ نہیں ہے، کیونکہ وہ سب کا خالق ومالک ہے۔ لیکن اس کے باوجود اُس نے آخرت میں جزا وسزا کے لیے نظامِ عدل قائم فرمایا، میزانِ عدل قائم کیا تاکہ عدل ہوتا ہوا نظر بھی آئے، ورنہ وہ تو’’ عالِمُ الغیب وَالشَّھَادَہ‘‘ہے ، اُسے ظاہر ومستور ہرچیز کا علم ہے ، وہ اپنے علم کی بنیاد پر جنتیوں کو جنت میں اور جہنمیوں کو جہنم میں بھیج سکتا تھا، ماضی کے عقل پرستوں یعنی مُعتزِلہ کا یہی عقیدہ تھا۔

لیکن اُس نے ’’میزانِ عدل ‘‘قائم کرنے کی بابت فرمایا: ’’آج (قیامت )کے دن (اعمال کا ) وزن حق ہے ، (الاعراف:8)‘‘، نیز فرمایا: ’’اور ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو قائم فرمائیں گے، (الانبیاء:47)‘‘۔ اسی طرح قرآنِ کریم کی متعدد آیات میں اعمال کے بھاری ہونے اور ہلکا ہونے اور دونوں کے انجام کابھی ذکر ہے، اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا: ’’اور بیشک تم پر نگہبان (فرشتے) مقرر ہیں ،(وہ )معزز لکھنے والے ہیںاور جوکچھ تم کرتے ہو، وہ سب جانتے ہیں، (الانفطار: 9-11)‘‘، نیز فرمایا: ’’وہ جو بات بھی کہتا ہے،اس کے پاس ( لکھنے کے لیے) محافظ (فرشتہ)تیار رہتا ہے،(ق:18)‘‘۔

اسی طرح قرآنِ کریم نے بتایا ہے کہ انسان کے اعمال کا باقاعدہ ریکارڈ مرتب ہورہا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’سو جس کو اُس کانامۂ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا، وہ کہے گا: لو! میرا نامۂ اعمال پڑھو، مجھے یقین تھا کہ مجھے اپنا حساب ملنا ہے ، پس وہ بلند باغات میں پسندیدہ زندگی میں ہوگا ، جن کے پھلوں کے خوشے جھکے ہوئے ہوں گے، (اُس سے کہا جائے گا:)گزشتہ ایام میں تم نے جو نیک اعمال کیے، اُن کے عوض خوب مزے سے کھائو اور پیواور رہا وہ جس کو اُس کا صحیفۂ اعمال اُس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا، پس وہ (حسرت زدہ ہوکر) کہے گا: کاش! مجھے میرا اعمال نامہ دیا ہی نہ جاتااور مجھے معلوم ہی نہ ہوتا کہ میرا حساب کیا ہے، کاش! (موت کے ساتھ ہی ) قصہ تمام ہوچکا ہوتا، (الحاقہ:19-27)‘‘، دوسرے مقام پر فرمایا: ’’سو جس شخص کا نامۂ اعمال اُس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گاتو عنقریب اس سے بہت آسان حساب لیا جائے گااور وہ خوشی خوشی اپنے گھروالوں کی طرف لوٹے گااور جس کا نامۂ اعمال اسے پیٹھ پیچھے سے دیا جائے گاتو وہ عنقریب اپنی موت طلب کرے گااوراُسے بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونک دیا جائے گا، (الانشقاق:7-12)‘‘۔

ہمارے ہاں عالی مرتبت جج صاحبان بعض اوقات ریمارکس دیتے ہیں:’’ہمیں لوگوں کی باتوں کی پروانہیں ہے‘‘،انھیں یقینا اُن لوگوں کی پروا نہیں ہونی چاہیے جوواہی تباہی بکتے ہیں ،جنھیں حقیقی عدل سے چِڑ ہے اوروہ ذاتی نفرت وعناد میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ لیکن جن کی حق تلفی ہوئی ہے اور جو کسی غیر منصفانہ فیصلے کی زَد میں آئے ہیں ، اُن کی ضرور پروا ہونی چاہیے، حدیث پاک میں ہے:

’’حضرت عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں: نبی ﷺ نے معاذ بن جبل کو یمن کی طرف (قاضی بناکر)بھیجتے ہوئے تاکید فرمائی: مظلوم کی پکار سے ڈرو، کیونکہ اُس کے اور اللہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہے، (بخاری: 2448) ‘‘، نیز حضرت عمر نے اپنے آزاد کردہ غلام ’’ھُنَیّ‘‘کو ایک (سرکاری) چراگاہ کا نگران بنایااور فرمایا: ’’ھُنَیّ! اپنے بازو کو مسلمانوں سے ملاکر رکھنا اور مظلوم کی دعا سے ڈرتے رہنا ،کیونکہ مظلوم کی دعا قبول ہوتی ہے ،(بخاری:3059)‘‘، نیزفرمایا: ’’تین قسم کے افراد ایسے ہیں کہ اُن کی دعا ردّ نہیں ہوتی: عادل حکمران، افطار کے وقت روزے دار کی دعا اور مظلوم کی دعا بادلوں سے اوپر جاتی ہے اور اُس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ربّ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے: میری عزت کی قسم! میں ضرور تمہاری مدد کروں گا،خواہ کچھ وقت گزرنے کے بعد ہو،(ترمذی: 2526)‘‘،اسی لیے کہا جاتا ہے:’’اللہ کے ہاں دیر ہے، اندھیر نہیں ہے‘‘۔

4اکتوبر کو عالی مرتبت چیف جسٹس آف پاکستان نے آئین پاکستان کے آرٹیکل 62ون ایف کے تحت پارلیمنٹیرین کو تاحیات نا اہل قرار دینے کو ’’ڈریکونین لا‘‘کہا ہے،اسے اردو میں ’’کالا قانون‘‘کہاجاتا ہے۔نہایت ادب کے ساتھ گزارش ہے:’’اسے کالا قانون قرار دینا تب درست ہوتا ،جب تاحیات نا اہلی آئین میں درج ہوتی یا ایکٹ کی صورت میں پارلیمنٹ سے پاس ہوتی۔ 62ون ایف کے تحت تاحیات نا اہلی کی تعبیر سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے فیصلے میں کی ہے، سو اِسے ’’ڈریکونین لا ‘‘ کے بجائے ’’سیاہ فیصلہ ‘‘ قرار دینا چاہیے‘‘۔ یہ فیصلہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میںپانچ رکنی لارجربنچ نے سنایا اور اس بنچ کے دیگر ارکان یہ تھے: جسٹس شیخ عظمت سعید ،جسٹس اعجاز افضل خان،جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس گلزار احمد ۔

آج سپریم کورٹ آف پاکستان کو اپنے ہی فیصلے کو ’’ڈریکونین لا‘‘ کہنا پڑ رہاہے،مزید یہ کہ آئین وقانون اور عدالتی نظائر پر مبنی فیصلے کرنے کے بجائے ’’بلیک لا ڈکشنری‘‘ سے فیصلے کرنے کی روایت ہماری سپریم کورٹ نے ڈالی،جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے فیصلوں میں خلیل جبران کے اقوال اور افسانوں کے کرداروں گاڈ فادر اور سیسلین مافیا کی اصطلاحات بھی استعمال کیں۔ جج تو آئین وقانون کے سانچے میں ڈھلی ہوئی شخصیت کا نام ہوتا ہے، اس کے فیصلے صرف اور صرف آئین وقانون اور عدالتی نظائر کے حوالہ جات سے مزیّن ہونے چاہییں، اسی لیے تو ربِ کائنات نے فرمایا تھا: ’’اے ایمان والو! انصاف کے ساتھ گواہی دیتے ہوئے اللہ کے حکم پر مضبوطی سے قائم رہواور کسی قوم کی عداوت تمھیں نا انصافی پر نہ ابھارے، تم عدل کرتے رہو،یہی شعارتقوے کے زیادہ قریب ہے ،(المائدہ:8)‘‘۔

اگر موجودہ سپریم کورٹ فل بنچ قائم کر کے اپنے تمام متنازعہ فیہ فیصلوں پر نظرِ ثانی کر ے اور آئین وقانون کے خلاف سب فیصلوں کو منسوخ کرکے انھیں آئین وقانون کے مطابق ڈھالے تو یہ اچھی روایت ہوگی۔ کوئی ادارہ ہو یا صاحبِ جاہ ومنصب فرد ، غلطی سے کوئی مبرّا نہیں اور آدم علیہ السلام کی سنّت یہ ہے کہ اپنی لغزش کو تسلیم کر کے اس پر اللہ سے غیر مشروط معافی مانگی جائے اور جہاں تلافی ممکن ہے، اُس کی تلافی کی جائے۔

گزشتہ کئی برسوں سے ہمارے مشاہدے میں آرہاہے کہ اہم آئینی اور قانونی مقدّمات کو فیصَل کرنے کے لیے مخصوص جج صاحبان پر مشتمل بنچ بنائے جاتے ہیں اور ایسے مقدمات کی شنوائی کے لیے بعض سینیر جج صاحبان نظر انداز کردیے جاتے ہیں ،پس بنچ کی ساخت ہی سے لوگ اندازہ لگالیتے ہیں کہ کس طرح کا فیصلہ آئے گا۔چنانچہ ایسا بھی ہوا کہ ایک ہی جیسے مقدمے میں ایک وقت میں ایک فیصلہ اور دوسرے وقت میں اس کے متضاد فیصلہ آیا اور یہ عجب اتفاق ہے کہ دونوں صورتوں میں فائدہ ایک ہی پارٹی کو پہنچا ۔

اسلام آباد ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کا تحریکِ عدم اعتماد کے موقع پر رات کو کھلنا قابلِ فہم تھا، کیونکہ آئین شکنی کا مسئلہ درپیش تھا اور اُس کے سدِّباب میں کوئی بھی کوتاہی ملک کے لیے نقصان کا باعث بن سکتی تھی، لیکن کسی فرد ،خواہ وہ کتنا ہی مقبولِ عام ہو، کے لیے راتوں کو یا چھٹی کے دن ضمانت کے لیے عدالت کا کھلنا ایک امتیازی اور خصوصی رعایت ہے ، یہ کسی بھی صورت میں مساوات پر مبنی عدل کی مثال نہیں ہے اور اس پر لوگوں کا انگشت زنی کرنا درست ہے یا اگر ہم عدل کے ایسے ہی اعلیٰ معیار قائم کرنا چاہتے ہیں تو ایسا قانون بننا چاہیے جس سے پاکستان کا ہر شہری یکساں طور پر مستفید ہوسکے۔

ہماری اعلیٰ عدلیہ کی ایک قابلِ تقلید روایت رہی ہے کہ سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے بنچ کے کسی جج پر کسی فریقِ مقدمہ نے عدمِ اعتماد کا اظہار کیا ہو تو وہ اپنے آپ کو اس بنچ سے الگ کردیتے ہیں،حالانکہ اُن پر قانون کی رُو سے ایسی کوئی پابندی عائدنہیں ہوتی ، لیکن وہ اعلیٰ عدالتی اَقدار کی پاس داری کرتے ہوئے رضاکارانہ طور پر ایسا کرتے رہے ہیں، عدلیہ کی تاریخ میں اس کی درجنوں مثالیں مل جائیں گی۔ لیکن ہمارے ہاں گزشتہ دنوں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ سپریم کورٹ کے ایک پورے بنچ پر ایک فریق نے عدمِ اعتماد کا اظہار کیا ، لیکن بنچ نے اُسے قابلِ توجہ نہ سمجھا ، پرِکاہ کے برابر بھی اہمیت نہ دی اوراسی بنچ کو قائم رکھنے پر اصرار کیا،قانون میں تو اس کی گنجائش ہے ، لیکن عدالتی روایات اس کے برعکس ہیں ۔

عالی مرتبت چیف جسٹس آف پاکستان ایسا کرسکتے ہیں، لیکن اگر وہ اعلیٰ عدالتی روایات کی پاس داری فرمائیں تو شاید اُن کا نام پاکستان کی عدالتی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائے۔ وقت گزر جاتا ہے ، فیصلے نافذ بھی ہوجاتے ہیں، لیکن جسٹس محمد منیر،جسٹس مولوی مشتاق احمد ،جسٹس انوارالحق اور ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو سزائے موت دینے والے اُن کے رفقاء ، جسٹس ارشاد حسن خاں ،جسٹس ثاقب نثار،جسٹس اعجاز افضل خان ، جسٹس آصف سعید کھوسہ اورجسٹس گلزار احمدکے نام وقار کے ساتھ نہیں لیے جاتے، اس کے برعکس جسٹس عبدالرشید ،جسٹس حمود الرحمن ،جسٹس اے آر کارنیلیس،جسٹس دراب پٹیل، جسٹس ایم آر کیانی اور جسٹس فخرالدین جی ابراہیم وبعض دیگر جج صاحبان کے نام احترام کے ساتھ لیے جاتے ہیں۔ (جاری ہے۔۔۔)

Comments

Click here to post a comment