عصر حاضر میں علم اور اس کے اطلاقات کے بڑے مظاہر سائنسی اور ’اکیڈیمک‘ ہیں۔ اگرچہ سماجی، ثقافتی، ادبی اور فلسفیانہ علوم میں بھی نظری سرگرمی جاری رہتی ہے اور ’پیش رفتیں‘ بھی بہت ہیں لیکن ان کی حیثیت شامل باجا سے زیادہ نہیں ہے۔ سماجی علوم ہر لحظہ ’سائنس‘ بننے کی ناکام کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ ’اکیڈیمک‘ سے عموماً جامعات اور ان کے شعبہ جات مراد لیے جاتے ہیں جہاں مختلف نظریات، تصورات اور تجربات مسلسل زیر بحث و عمل رہتے ہیں۔ جدید جامعات مغرب کے اساسی تہذیبی تصور کے تحت علم کی پیداوار کے بڑے مراکز ہیں اور ان کے قیام، تسلسل اور بقا پر غیرمعمولی معاشی اور انتظامی وسائل صرف کیے گئے ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں قائم جامعات، ان میں کام کرنے والے افراد، اور اس طرح پیدا ہونے والی مجموعی ثقافتی فضا اور علمی ماحول کو academia کہا جاتا ہے۔ اکیڈیمیا پہلے سے پیدا شدہ علم کے اصولوں کو بنیاد بناتے ہوئے اور ان کے ثمرات کو پائیدان بنا کر مزید علم پیدا کرتی ہے۔
اگر پیداوارِ علم میں مرکزیت عقل کو حاصل ہو تو علم تشبیہی اقلیم سے آگے سفر نہیں کر سکتا، کیونکہ جدید عقلِ محض کو میسر وسائل اور ذرائع صرف تشبیہی ہیں، اور وہ ارادتاً انہی تک محدود رہنا چاہتی ہے۔ اگر علمی سرگرمی کا مرکز وجود ہو تو یہ امکان باقی رہتا ہے علم بھی تنزیہ پر فائز المرام ہو جائے۔ مابعدالطبیعیات کی طرف عقل کی توہماتی جست علم کو کوئی تنزیہ عطا نہیں کرتی۔ عقلِ محض کی بنیاد پر کوئی مابعدالطبعیات جیسے کہ کانٹ کا موقف ہے ممکن ہی نہیں اور خیالی عقل (speculative reason) کی بنائی ہوئی مابعدالطبعیات مذہب اور عقل دونوں معیارات پر محض افسانہ سازی ہے اور علم کو تشبیہ تک محدود رکھنے کی عقلی تزویرات میں شامل ہے۔ تنزیہ اور تشبیہ میں فرق نوعی ہے درجے کا نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ انسانی شعور تشبیہی علم میں سفر کرتے کرتے تنزیہ پر جا نکلے۔
تنویری عقل نے پیداوار علم کے لیے جو شرائط خود متعین کی تھیں وہ آغازِ سفر میں ہی اسے ترک کرنا پڑیں۔ شہود، مجردات اور طبائع یعنی مادیات سے عبارت ہے۔ عقلِ محض مجردات کی ریاضیاتی تشکیلات اور ان کی ادھیڑ بن میں آزاد ہے اور اپنے سے خارج میں طبعی معروض سے متعلق اور محدّد ہے، کیونکہ مجردات اور مادیات توامی متعلقات ہیں۔ جدید علم صرف مجردات تک محدود نہیں رہتا بلکہ ایک خاص طریقے جسے سائنسی طریق کار (scientific method) کہا جاتا ہے عقل اپنے مجردات کو معروض میں موجود طبائع پر وارد کرتی ہے، اور اس عمل کا آغاز ہوتے ہی جدید عقل کو اپنی مطلق آزادی سے دست بردار ہونا پڑتا ہے۔ مجردات سے گزر کر عقل جس مادیت (materiality) سے تعرض کرتی ہے وہ خارج میں ٹھوس (concrete) کے طور پر حسی ہے۔ ٹھوس (concrete) سے تعرض کرنے اور ان میں اپنے ریاضیاتی مجردات کے اجرا کے لیے عقل سیاسی طاقت اور اس کے معاشی وسائل کی محتاج ہو جاتی ہے۔ لیوٹار کے مطابق برلن یونیورسٹی دنیا کی پہلی جدید یونیورسٹی تھی جس میں علم کی جدید شعبہ بندی کا آغاز ہوا۔ فاعلِ علمی ریاضیاتی مجردات کی تشکیلات سے جب ٹھوس یعنی کنکریٹ کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو لیبارٹری کے قیام، آلاتِ تجربہ اور دیگر مادی وسائل کے لیے اُسے ’سرپرستی‘ کی ضرورت پڑتی ہے۔ فاعلِ علمی ان وسائل کو خود سے فراہم کرنے میں معذور اور سیاسی طاقت یا سرمائے کے سامنے مطلق دست نگر ہے۔ اس صورت حال سے ظاہر ہے کہ جدید علمی ذہن اپنے آغازِ سفر ہی میں مطلق آزادی سے محروم ہو کر خود سیاسی طاقت اور سرمائے کا محض ایک آلۂ کار بن جاتا ہے، اور یہیں سے ”اکیڈیمک“ علم کی بنیاد پڑتی ہے۔ لہٰذا اکیڈیمک علم کی تعریف یوں کی جا سکتی ہے کہ وہ صرف مجردات اور مادیات میں کارفرما اور سرمائے اور طاقت کی ترجیحات اور مطالبات سے صرف انہیں تک ارادتاً اور حکماً محدود ہے۔ جدید عقل مطلق آزادی کے جس تصور سے اپنے کام کا آغاز کرتی ہے مادی دنیا میں اس کے تحقق کی طرف پہلے قدم پر ہی وہ ختم جاتا ہے۔ سیاسی طاقت اور سرمائے نے مطلق آزادی کے تصور کو ’بالجبر‘ قائم رکھا ہوا ہے تاکہ انسانی ذہن اور جدید عقل کو بھاڑے کے طور پر استعمال کرنے کا جواز فراہم ہوتا رہے، اور جس کی سب سے بڑی مثال جدید یونیورسٹی ہے جہاں کسی انسانی قدر کا کوئی گزر نہیں ہے اور جو مکمل طور پر سرمائے اور طاقت کی ترجیحات کے تحت قائم ہوتی ہے اور کام کرتی ہے۔
یونیورسٹی میں ”اکیڈیمک“ علم کی تشکیل کے بالعموم تین مرحلے ہوتے ہیں: اصول، منہج اور پراجیکٹ، اور جو گریجوایٹ پروگراموں کی اساس ہے۔ اصول اور منہج سکھانے کا اصل مقصد پراجیکٹ بنانے کی صلاحیت اور اہلیت حاصل کرنا ہے۔ پراجیکٹ میں علم، اطلاقات، تنظیم، سرمایہ اور قانون شامل ہوتے ہیں۔ ریاست اور سرمایہ داری نظام یونیورسٹی پر جتنے وسائل صرف کرتے ہیں، ان سب کا حاصل پراجیکٹ کی صورت میں انہیں واپس مل جاتا ہے۔ پراجیکٹ کا مقصد ریاست کی طاقت میں اضافے اور سرمائے میں بڑھوتری ہوتا ہے۔ سرمایہ داری نطامِ معیشت میں تیز تر تبدیلی کا سبب یہی پراجیکٹ ہیں۔
علم کے اکیڈیمک ہو جانے کا بنیادی سبب اس پر ریاست اور سرمائے کا مطلق کنٹرول ہے۔ اس کنٹرول کا مقصد یہ ہے کہ کسی چیز کے علم ہونے یا نہ ہونے کا حتمی اختیار ریاست اور سرمائے سے مختص ہو جائے۔ علم کے اکیڈیمک ہو جانےکی دوسری بڑی وجہ جدید علم کا اپنے سرِ آغاز میں مادی ہونا ہے۔ تاریخی مؤثرات کے ذریعے علم کے تمام پہلوؤں پر مکمل کنٹرول اسی صورت میں ممکن تھا جب کہ یہ مادی سے فزوں تر کچھ نہ ہو۔ علم کے اکیڈیمک ہونے کا ایک بڑا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اقدار اور علم کی نسبتیں مکمل طور پر ختم ہو گئی ہیں، اور فرد اور معاشرے کی اقدار پر تشکیل کے امکان کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ اب صرف تنظیمی اقدار (organization ethics and values) ہی باقی رہ گئی ہیں جو ٹریفک کے قوانین اور قطار بنانے اور دیگر تنظیماتی وجودوں میں ظاہر ہوتی ہیں، اور ان کا مقصد طاقت اور سرمائے کی تضعیف (multiplication) ہے، انسان کی تہذیب نہیں ہے۔ تنظیمی اقدار کا فروغ کنٹرول کا اشاریہ ہے، اخلاقی بہتری کا پیمانہ نہیں ہے۔ تنظیمی اقدار کا سب سے بڑا مظہر work ethics ہے، اور جس کا مقصد اچھا انسان بننا بنانا نہیں ہے، بلکہ مستعد کارکن بننا ہے جو حرکاتِ جوارح اور نفسِ انسانی پر خارج سے مکمل کنٹرول کے بغیر ممکن نہیں۔
اس وقت ہمارے دینی علوم اور افکار بھی ایک ریڈیکل اکیڈیمک تشکیل سے گزر رہے ہیں جس میں مغربی جامعات ہراول کا کام کر رہی ہیں۔ اسلام کی جدید تعبیر اور نئی فکری تشکیل کے ذرائع بڑی حد تک ہمارے ہاتھ سے نکل چکے ہیں۔ یہ صورت حال مسلم اہل علم کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے اور اس سے براہِ راست نبردآزما ہونا ہی ان کی اصل ذمہ داری ہے۔
تبصرہ لکھیے