ہوم << تین مائیں -طلحہ ادریس

تین مائیں -طلحہ ادریس

ایک بڑھیا پانی کا گھڑا سر پرا ٹھائے کنویں کی طرف چلی جارہی تھیں۔ اُس روز ذرا تاخیر ہوگئی تھی۔ گھر سے نکلتے ہی تین خواتین اور بھی اُن کے ہمراہ ہوگئیں۔ بڑھیا کو سب بڑے چھوٹے خالہ کہا کرتے تھے۔ گاؤں میں چونکہ پانی دستیاب نہ تھا، اِسی لیے خواتین دیگر بہت سے کاموں کے ساتھ ساتھ پانی بھی بھر کر لاتیں۔ خالہ اکثر صبح سویرے اُٹھ جاتیں۔ نماز اور اذکار سے فارغ ہوکر ناشتہ کرتیں۔ صفائی ستھرائی کا وہ خاص خیال رکھتیں۔ گھر کے دیگر کاموں سے فارغ ہوتے ہی وہ گھڑا لیتیں اور کنویں کی جانب چل پڑتیں۔ ڈھلتی بہار کا وہ دن تھا جب خالہ کے ساتھ گاؤں کی تین عورتیں آپس میں مختلف موضوعات پر باتیں کرتے ایک کچی پگڈنڈی پر چلی جارہی تھیں۔ خالہ آگے آگے چل رہی تھیں۔ سفر طویل ہو یا مختصر ساتھ چلنے والا مل جائے تو خوب کٹتا ہے۔ تنہائی سے اللہ ہی بچائے۔ خالہ کے خاوند وفات پاچکے تھے۔ اللہ نے اُنہیں اولاد سے نوازا مگرچھوٹی عمرہی میں دونوں بیٹیوں کو واپس لے لیا۔ خالہ کنویں کے قریب ٹاہلی کے درخت کے نیچے دن کا کافی حصہ گزارتیں۔ وقفے وقفے سے خواتین پانی بھرنے آتیں تو مختصر وقت کے لیے وہاں بیٹھتیں۔جب ذرا دیر گزرتی ، خالہ خود ہی اُنہیں واپس گھر جانے کا حکم دیتیں۔ گھر کے کام بھی تو کرنا ہوتا تھا اُن محنتی خواتین کو....
اُس روز تینوں خواتین نے پہلے اپنے اپنے گھڑے بھرے پھر خالہ کا چھوٹا سا گھڑا بھی بھرا۔ اتنی دیر میں سکول سے چھٹی کی گھنٹی بجی۔ تینوں خواتین کے بچے اتفاق سے اکھٹے چلے آرہے تھے۔ وہ ہم جماعت بھی تھے اور دوست بھی۔ ماؤں نے اپنی جان سے پیارے بچوں کو دور سے آتے دیکھا۔ ایک بولی: میرا لعل اِس سال بھی اپنی جماعت میں اوّل آیا ہے۔ دوسری کہنے لگی: آج تقریروں کا مقابلہ تھا۔ مجھے پوری اُمید ہے کہ میرا چاند ہی جیتا ہوگا۔ تیسری خاتون خاموش رہی۔ خالہ نے اُس کی جانب دیکھا مگر وہ خاموش بیٹھی رہی۔ اتنی دیر میں بچے کنویں کے قریب پہنچ چکے تھے۔ تینوں نے سب سے پہلے خالہ کو جھک کر سلام کیا۔ خالہ نے پیار سے سر پر ہاتھ پھیرا۔ ہر بچہ اپنی ماں کی طرف لپکا۔ جماعت میں اوّل آنے والا بچہ ماں کو بتا رہا تھا کہ آج اسمبلی میں ہیڈ ماسٹر صاحب نے اُسے سٹیج پر بلا کر شاباش دی ہے۔ تقریری مقابلہ ہوا تو وہی بچہ جیتا جس کی ماں کچھ دیر پہلے اپنی امید کا اظہار کرچکی تھی۔ خالہ سے پوچھا گیا کہ کون سا بچہ سب سے اچھا ہے.... خالہ نے بے اختیا ر اُس تیسری خاتون کے بچے کی طرف اشارہ کیا جو اُس وقت تک اپنی ماں کا گھڑا سر پر اٹھا چکا تھا اور تیار تھا کہ ماں حکم دیں تو چل پڑے۔