ہوم << ہماری دو کمزوریاں -طلحہ ادریس

ہماری دو کمزوریاں -طلحہ ادریس

’مطالعہ پاکستان‘ بطورِ مضمون ہمارے ہاں مختلف درجوں میں پڑھایا جاتا ہے۔نہم و دہم جماعت میں پڑھایا جاتا ہے، پھر بارہویں جماعت میں بھی یہ لازمی مضمون ہے۔ خوش گوار حیرت ہوئی گریجوایشن میں بھی اس مضمون کی تدریس ہوتی ہے۔عرفِ عام میں جسے طالبِ علمی کا زمانہ کہا جاتا ہے ، اس میں اپنے ملک کا مطالعہ کرنا یا کروایا جانا اہمیت کا حامل ہے مگر اِس سے استفادہ کم کم ہی کیا جاتا ہے ۔یہ بات اصحابِ دانش و بینش کو سوچنی چاہیے کہ آخر ایسا کیوں ہے …
ستاون سال پہلے، ستمبر ہی کے ماہ میں سیالکوٹ کے قریب چَوِنڈہ کا محاذ ہماری تاریخ کا ایک باب رقم کرگیا۔ بھارتی سورما اپنے زعم ِباطل میں مست بڑھے چلے آتے تھے۔ اسلحے سے لیس تھے۔ ٹینکوں میں سوار تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ناشتہ تو سرحد پار ہی کریں گے۔ دشمنی اپنی حد کو پہنچی ہوئی تھی۔ ایسے میں ایک فیصلہ کیا گیا۔ اُن حالات میں شاید وہی فیصلہ برموقع تھا۔ پاکستانی فوجی جوانوں نے کچھ خاص کردکھایا۔ اُن سے توقع بھی یہی تھی کہ وطنِ عزیز کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت ہی پر انہیں مامور کیا جاتا ہے۔ جوانوں کے جذبات تلاطم خیز موجوں میں ڈھل چکے تھے۔ انہوں نے اپنے جسموں سے بم باندھے اور ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے۔ اندھی طاقت خاک میں مِل گئی۔ جوں ہی ٹینک جوان کو مسلنے بڑھتا ، فضا میں تکبیر کا نعرہ بلند ہوتا اور دشمن ٹینک سمیت آگ اور خون میں نہا جاتا۔
تاریخ دان بتاتے ہیں، وہ جنگ جذبوں اور ولولوں سے لڑی گئی۔ محاذوں سے تو ہم سرخرو نکلے مگر مذاکرات کی میز پر کامیابی دشمن کے حصے آئی۔ عیار دشمن نے سوچا، اسلحے کے زور پر ہم اپنے مخالفین کو زیر نہیں کرسکیں گے۔ طے پایا کہ ایک انتہائی زیرک شخص کو مسلمانوں کے زوال کے اسباب تلاش کرنے بھیجا جائے۔ اُس کے جملہ اخراجات کا انتظام کیا گیا اور وہ بغداد، غرناطہ اور اندلس کے سفر پر روانہ ہوگیا۔ کچھ ماہ و سال بیتے ۔ وہ شخص لوٹ آیا۔ اُس کا استقبال کیا گیا۔ اُس نے کہا ایک برقی نشریاتی ادارہ قائم کیا جائے جس کی نشریات بآسانی لاہور میں دیکھی جاسکیں۔ لوگ حیران ہوئے؛ یہ کیا حل پیش کررہا ہے، اِس سے تو ملکی معیشت پر بوجھ پڑے گا۔ مگر اُس نے اپنا حاصلِ سفربیان کردیا کہ مسلمانوں کی دو ہی کمزوریاں ہیں؛ زن اور زر۔ لہٰذاعورت کا رسیا بنا دو اور پیسہ پانی کی طرح بہا دو۔
دفاعِ پاکستان کو درپیش مسائل میں سرِ فہرست یہی اخلاقی بے راہ روی ہے۔ پاکستان کے باسی بڑی تعداد میں اِس جال میں پھنستے چلے گئے ہیں۔ افسوس تویہ ہے کہ ہم اپنی اقدار تک بھول گئے ہیں۔ جو کچھ ہمیں دکھایا جاتا ہے ہم اسی کی تقلید کرنے لگتے ہیں۔ روزمرہ گفتگو میں وہی الفاظ استعمال کیے جانے لگے ہیں جو’وہ ‘ بولتے ہیں۔ رسوم و رواج میں مہندی ،دیوالی اور نہ جانے کیا کچھ درآیا ہے۔ لباس اور وضع قطع میں رواج وہ قرار پاتا ہے جو ہماری شناخت تو نہیں ہوتا۔ پیسے کی دوڑ میں لوگ دیوانہ وار بھاگتے چلے جارہے ہیں۔ آلو، پیاز اور ٹماٹر بھی وہاں سے آتے ہیں۔ دشمن اپنے مذموم عزائم میں کامیاب ہوگیا ہے۔ اسے شاید دُو بدو لڑنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے گی… ہمیں اپنے حالات کو بدلنا ہوگا۔ سرحدی علاقوں میں دشمن کی جارحیت ہوتی رہتی ہے۔ اسے ہوش کے ناخن لینا ہوں گے۔ ہم اپنا تحفظ کرنا جانتے ہیں۔حکومت کو بھی اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا ہوں گی۔ ان شاء اللہ ہماری نگری سے اسلام اور پاکستانیت کو نہیں نکالا جاسکتا۔