ہوم << بچے اور ہم نا سمجھ بڑے- سعدیہ قریشی

بچے اور ہم نا سمجھ بڑے- سعدیہ قریشی

ہم بڑے بچوں کو سنجیدہ نہیں لیتے بلکہ بچوں کو اپنا دل بہلانے کا کھلونا سمجھتے ہیں۔ اب یہ ہمارے دل کی مرضی کی وہ کیسے بہلنا چاہے ،کبھی آپ نے یہ مشاہدہ کیا ہے کہ کچھ لوگ بچوں کی پھولی ہوئی گالوں کو کھینچ کھینچ کر خوش ہوتے ہیں.

بچے ان کے اس عمل پر احتجاج کرتے ہوئے بھلے رونا شروع کر دیں مجال ہے کہ وہ باز آئیں۔ آس پاس کے کچھ نا سمجھ بڑے بھی یہی خیال کر رہے ہوتے ہیں کہ چچا ماموں خالہ پھوپھی کا یہ بچے سے لاڈ کا طریقہ ہے مگر ہم ایسے لاڈ معصوم بچوں پر " تشدد" کے زمرے میں ڈالتے ہیں بڑے پیار پیار میں بچوں سے بہت سخت باتیں کر جاتے ہیں جبکہ وہی بات کسی اپنے جیسے بڑے سے کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ کچھ عرصہ ہوا ہم لوگ ایک ہوٹل میں کھانا سرو ہونے کا انتظار کررہے تھے ،دانیال چھوٹا تھا بہت خوش تھا کہ اس نے اپنا فیورٹ کھانا آڈر کیا ہے ، ہوٹل کا ویٹر پلیٹیں رکھنے آیا تو اس نے اپنی طرف سے بچے کے ساتھ پیار کا اظہار یوں کیا کہ بڑی بد تہذیبی سے بچے سے کہا کہ ہم بچوں کو کھانا نہیں دیتے۔

دانیال نے یہ بات سنی اور رونا شروع کر دیا کہ مجھے کھانا نہیں ملے گا یہ بات مجھے بہت بری لگی، میں نے ویٹر سے کہا کہ ہمارا آڈر کینسل کر دو ہم یہاں کھانا نہیں کھاتے۔ ویٹر شرمندہ ہوکے بولا میں تو پیار سے مذاق کیا تھا ۔ بات ہوٹل منیجر تک پہنچی وہ معذرت کرنے آیا پھر بطور معذرت دانیال کے لیے خاص طور پر اپنی طرف سے میٹھا بھی سرو کیا لیکن بچے کا موڈ تو خراب ہو چکا تھا۔ اسی طرح ہم تین چار خاندان ایک ہوٹل میں کھانا آرڈر کر کے انتظار کر رہے تھے۔ ایک عزیزہ نے ہماری پانچ سالہ بھتیجی سے کہا کہ آپ کو تو کھانا نہیں ملے گا باقی سب کو مل جائے گا کیوں کیوں بچی احتجاجاً چیخی۔ میں نے نرم لہجے میں فورا کہا پلیز بچی کو ایسے مت کہیں کبھی بچوں کے ساتھ ایسے سخت الفاظ نہیں بولتے۔

ہمارے ہاں ایک اور بد تہذیبی کا مظاہرہ ہمارے بڑے بچوں کے ساتھ یہ کرتے ہیں کہ کسی بھی چھوٹے بچے کو جس کے دانت ٹوٹے ہوں گے اشارہ مذاق کہیں گے اوئے تمہارا دانت کہاں چلا گیا ؟ یہ تو چوہا لے گیا تمہیں پتا نہیں چلا بچہ حیران پریشان کھڑا دیکھ رہا ہوتا اور وہ اپنے اس بھونڈے مذاق کا لطف لے کے ہنستے رہتے ہیں ۔ اس موضوع کا چناؤ کی وجہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی کچھ ویڈیوز ہیں جس میں خود والدین اپنے بچوں کے ساتھ بھونڈے مذاق کر کے اپنے بچوں کو ذہنی اذیت دے رہے ہیں اور اس صورتحال سے خود لطف لے رہے ہوتے ہیں ۔

پھر وہ ویڈیوز وائرل ہوتی ہیں اور اسی سوچ کے حامل لوگ اس ویڈیو کو شیئر کرکے اس سے لطف اٹھا تے ہیں، ایسی ہی ایک ویڈیو سامنے آئی جس میں ایک ماں اپنے تین سالہ بچے سے کہہ رہی ہے کہ تمہارے لئے برگر نہیں آئے گا بچہ کہہ رہا ہے ٹھیک ہے میں بھوکا رہ لونگا آپ کھالیں۔ماں بار بار اس بات کو دہرا رہی ہے کہ ہم برگر کھائیں گے مگر تمیں نہیں دیں گے یہاں تک کہ بچہ روہانسا ہو کے کہتا ہے کہ آپ برگر کھائیں میں بھوکا رہ لوں گا ۔عجیب بھونڈا مذاق ہے ماں کا بچے کے ساتھ اور یہ سب ویڈیو بنانے کے لیے کررہی ہے تاکہ اس ویڈیو کو سوشل میڈیا پر ڈالے ویڈیو وائرل ہو لائکس اور کمنٹس ملیں۔یہ احساس کیے بغیر کہ بچہ اسے مذاق نہیں سمجھ رہا بلکہ وہ اس صورتحال سے ذہنی اذیت اور عدم تحفظ کا شکار ہورہا ہے۔ایک اور ویڈیو دیکھ لیجئے ایک باپ نے ننھی بچی کو گود میں اٹھائے خود کیلا کھا رہا ہے پہلے اس کے سامنے کرتا ہے بچی۔

کیلا کھانے منہ کھولتی ہے ہے لیکن باپ بچی کو دینے کی بجائے خود کھانے لگتا ہے بار بار یہ عمل کرتا ہے بالآخر بچی رونے لگ جاتی ہے اب اس ویڈیو پر ذہنی سوچ لوگوں کے دیکھیں کہ جو لوگ اس ویڈیو سے لطف اٹھا رہے ہیں۔افسوس کہ آج کے دور کے بچوں کو بہت ہی "ناسمجھ بڑے" ملے ۔ اکثر باپ اپنے باہر کا تمام غصہ اور اپنی نارسا خواہشوں کا سارا بوجھ اپنے بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ کر اتارتا ہے یہ سوچے بغیر کہ اس کے سخت الفاظ اس کے بچے کی روح ہر کتنی خوفناک خراشیں ڈال دیتے ہیں۔جب آپ بچوں کے ساتھ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں کہ تم کچھ نہیں کر سکتے،اپنے نمبر دیکھو تم نے سارا وقت ضائع کر دیا ہے،تمھارا کیا بنے گا۔درحقیقت وہ اپنی ہی نااہلی اور ناکامی کا اعتراف کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ آپ کے بچے آپ کی ذمہ داری ہیں۔

وہ ہر طرح سے آپ پر انحصار کرتے ہیں۔ یقیناً آپ نے بطور والدین اپنا کردار ادا نہیں کیا۔بچوں کو مورد الزام ٹھہرا کر آپ بچے کے اندر زندگی کی مثبت توانائی اور کام کرنے کے جذبے کو کچل کر رکھ دیتے ہیں۔ یہ دوہرا جرم ہے ایک جرم تو آپ سے یہ سرزد ہوا کہ آپ نے اپنے ذمہ داریاں بطور والدین احسن طریقے سے نہیں گزاری اور اب اپنے بچے کو الزام دے رہے ہیں دوسرا جرم یہ ہوا کہ آپ کے سخت الفاظ بچے کی شخصیت کو کچل کر رکھ سکتے ہیں۔ آخر میں مجھے ایک پرانا پڑھا ہوا لطیفہ یاد آرہا ہے جو ہمارے آج کے حالات پر صحیح طور پر منطبق ہوتا ہے .

ایک بچہ کتابوں کی دکان پر جا کر کہتا ہے کہ مجھے بچوں کی تربیت پر کتاب چاہیے۔ دکاندار حیرت سے پوچھتا ہے کہ بیٹا آپ کو کیا ضرورت ہے؟ بچہ جواب دیتا ہے کہ میں پڑھنا چاہتا ہوں کہ کیا میرے والدین میری تربیت ٹھیک کرہے ہیں ۔افسوس کہ ہمارے آج بچوں کی بہت ہی ،"ناسمجھ بڑے" ملے… خدا ہمیں ہدایت دے

Comments

Click here to post a comment