ہوم << درسِ حدیث (حصہ اول) - مفتی منیب الرحمن

درسِ حدیث (حصہ اول) - مفتی منیب الرحمن

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:نبی ﷺ نے فرمایا: (لوگوں کے ) سات طبقات ایسے ہیں کہ اللہ انھیں اپنے سایۂ رحمت میں پناہ دے گا، جس دن اس کے سائبانِ رحمت کے سوا کوئی جائے پناہ نہیں ہوگی،(وہ سات طبقات یہ ہیں):(۱)عادل حکمران، (۲)ایسانوجوان جس نے اپنے رب کی عبادت میں مشغول رہتے ہوئے نشوونما پائی ہو،(۳)ایسا شخص جس کا دل مساجد میں اٹکا رہے،(۴) ایسے دو اشخاص جو اللہ کی رضا کے لیے آپس میں محبت کریں ، اُن کے آپس میں مل بیٹھنے اور جدا ہونے کا سبب صرف رضائے الٰہی ہو،(۵)ایسا شخص جسے جاہ ومنصب والی خوبصورت عورت نے دعوتِ (گناہ) دی ہو اور یہ کہتے ہوئے (اس کے قدم رک جائیں کہ) میں اللہ سے ڈرتا ہوں،(۶) ایسا شخص جس نے (اللہ کی راہ میں )پوشیدہ طور پرصدقہ دیا حتیٰ کہ اس بائیں ہاتھ کو پتا نہ چلا کہ دائیں ہاتھ نے کیا دیا ہے ،(۷) ایسا شخص جس نے خَلوت میں اللہ کو یاد کیا ہو اور (خوفِ الٰہی سے) اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے ہوں، (صحیح البخاری:660)‘‘۔

اس حدیث پاک میں مسلمانوں کے سات طبقات کو رسول اللہ ﷺ نے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے خصوصی سایۂ رحمت کی بشارت دی ہے ، اُن میں سے پہلا طبقہ عادل حکمران ہے، اس لیے کہ حکمران عادل ہو تو اس کا اقتدار لوگوں کے لیے باعثِ راحت ورحمت ہوتا ہے، لوگوں کے حقوق محفوظ ہوتے ہیں، ظلم کے راستے مسدود ہوجاتے ہیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’عادل حکمران کا ایک دن (جو عدل کرتے ہوئے گزرے)ساٹھ سال کی (مسلسل) عبادت سے افضل ہے اور زمین پر اللہ کی ایک حد اس کے پورے حقوق کے ساتھ قائم کی جائے تو وہ( زمین کو)چالیس دن کی (مسلسل )بارش سے زیادہ پاکیزہ بنادیتی ہے، (المعجم الاوسط:4765)‘‘، یہ اس لیے کہ عبادت گزار کی عبادت کا فائدہ اس کی ذات کو پہنچتا ہے اور عادل حکمران کے حقیقی عدل کا فائدہ پوری انسانیت حتیٰ کہ پوری مخلوق کو پہنچتا ہے اور امانتیں ان کے حقداروں تک پہنچتی ہیں،اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے حق داروں تک پہنچائواور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے لگوتو انصاف پر مبنی فیصلے کرو، بے شک اللہ تمہیں کتنی عمدہ نصیحت فرماتا ہے، بے شک اللہ خوب سننے والا،خوب دیکھنے والا ہے، (النساء:58)‘‘۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:عدل کرنے والے اللہ کے نزدیک اللہ کے دائیں جانب نورانی منبروں پر ہوں گے اور اللہ کی دونوں جانب دائیں ہیں ، یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے فیصلوں، اپنے اہل وعیال اور اپنے زیرِ اختیار واقتدار لوگوں کے امور کا فیصلہ کرنے میں انصاف کرتے ہیں، (صحیح مسلم:1827)‘‘، اس حدیث میں لفظِ ’’یَمِیْن‘‘ رحمت وبرکت کے معنی میں آیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے ’’ید(ہاتھ)‘‘ متشابہات میں سے ہے اور اس سے اللہ تعالیٰ کی جو بھی مراد ہے،حق ہے، ہم اس کی تعبیر کے مکلف نہیں ہیں۔

دوسرا طبقہ:’’ایسانوجوان جس نے اپنے رب کی عبادت میں مشغول رہتے ہوئے نشوونما پائی ہو‘‘۔ابھرتی ہوئی جوانی کے ایام میں انسان کی حیوانی ، شہوانی اور غضبانی قوتیں پورے شباب پر ہوتی ہیں، اس کے بھٹکنے اور بہکنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، گردوپیش کا ماحول بھی اس کے لیے سازگار ہوتا ہے اور جب عریانی اور فحاشی کے مناظر جوان جذبات کو اشتعال دلانے والے ہوں ، ایسے میں کوئی اپنی ان تمام قوتوں کو قابو میں کر کے ملکوتی قوت کے تابع کردے اور ہوا وہوس میں مبتلا نفس کو شریعت کی لگام دیدے ،تو اس کی عبادت کی لذت ہی کچھ اور ہوتی ہے ، اس کے سجدوں میں حضوری کی کیفیت ہوتی ہے ، اس کی جوانی پاکیزہ اور ملائک کے لیے قابلِ رشک ہوتی ہے، علامہ اقبال نے کہا ہے:

جچتے نہیں کنجشک و حمام اس کی نظر میں

جِبریل و سرافیل کا صیّاد ہے مومن

کہتے ہیں فرشتے کہ دِل آویز ہے مومن

حُوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

شیخ مصلح الدین سعدی شیرازی نے کہا ہے:

در جوانی توبہ کردن شیوہ ٔپیغمبری

وقت پیری گرگ ظالم میشود پرہیزگار

ترجمہ:’’جوانی میں توبہ کرنا پیغمبروں کا شیوہ ہے، شِعار ہے ، جبکہ بڑھاپے میں تو (ہوس کا مارا ہوا)ظالم بھیڑیا بھی پرہیزگار بن جاتا ہے‘‘۔

حضرت عبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:قیامت کے دن آدمی کا پائوں اس کے رب کے پاس سے نہیں ہٹے گا حتیٰ کہ اس سے پانچ چیزوں کے بارے میں پوچھ لیا جائے:(۱)یہ کہ اس نے اپنی عمر کن مشغلوں میں گزاری، (۲) یہ کہ اس نے اپنی جوانی کیسے گزاری، (۳) یہ کہ اس نے اپنا مال کیسے کمایا (۴)اور کہاں خرچ کیا، (۵) اس نے اپنے علم کے تقاضوں کے مطابق عمل کیا (یا نہیں)،(سنن ترمذی: 2416)‘‘۔

شریح بیان کرتے ہیں: مجھے حضرت عمر اور دیگربدری صحابہ نے بتایا: ’’جو نوجوان دنیا کی لذت اور مشاغل کو چھوڑ دیتا ہے اور اپنی جوانی کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں بسر کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اسے بہتّر صدیقین کے مطابق اجر عطا فرماتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اپنی جوانی گزارتے ہوئے اپنی شہوتوں کو (میری خاطر)ترک کرنے والے نوجوان!تو میرے نزدیک میرے بعض ملائک کی طرح ہے، (کنز العمال:43106)‘‘۔

حفصہ بنتِ سیرین بیان کرتی ہیں:نوجوانو! عمل کرو ،عملِ (خیر)کامزا تو جوانی میں ہے، (الفقیہ والمتفقہ للخطیب، ص: 190)‘‘۔حضرت عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ نے جس بندے کو بھی (نعمتِ) علم سے نوازا، جوانی میں نوازااور ساری بھلائی جوانی میں ہے، (احیاء علوم الدین ،ج:1،ص:144)‘‘،قرآنِ کریم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام ، حضرت یوشع بن نون اور اصحابِ کہف کو ’’فَتٰی(نوجوان)‘‘کہا ہے، اس کی جمع ’’فِتْیَۃٌ‘‘ ہے۔

تیسرا طبقہ:’’ایسا شخص جس کا دل مساجد میں اٹکا رہے‘‘۔دل کے مسجد میں معلّق (اٹکے )رہنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو اگرچہ بشری ،معاشی اور معاشرتی ضروریات کے لیے مسجد سے باہر جانا پڑتا ہے، لیکن وہ جسمانی طور پر مسجد سے باہر ہونے اور دنیاوی کاموں میں مشغول رہنے کے باوجود اس کا دل مسجد کی طرف لگا رہتا ہے،فارسی کی کہاوت ہے:’’دست بہ کار ودِل بہ یار‘‘،اسی کو پنجابی میں کہتے ہیں: ’’ہتھ کاروَل،دل یار وَل‘ ‘اور اگر دل اللہ کی طرف متوجہ نہ ہو تو سجدے میں بھی حضوری کی کیفیت نصیب نہیں ہوتی، علامہ اقبال نے کہا ہے:

جو میں سر بسجدہ ہُوا کبھی، تو زمیں سے آنے لگی صدا

ترا دل تو ہے صنَم آشنا، تجھے کیا مِلے گا نماز میں

علامہ اقبال اپنی تمام تر توجہات کو رسول اللہ ﷺ کی طرف مبذول کرتے ہوئے کہتے ہیں:

شوق ترا اگر نہ ہو، میری نماز کا امام

میرا قیام بھی حجاب، میرا سجود بھی حجاب

تیری نگاہ ناز سے ،دونوں مراد پا گئے

عقل ،غیاب و جستجو، عشق، حضور و اضطراب

ولی دکنی نے کہا تھا:

پہلے جو آپ کہہ کر بلاتے تھے ، اب وہ تُو کہتے ہیں

وقت کے ساتھ خطابات بدل جاتے ہیں

پہلے تھے میخانہ میں، اب ہیں مسجد میں ولی

عمر کے ساتھ مقامات بدل جاتے ہیں

چوتھاطبقہ اُن لوگوں کا ہے جن کا باہم محبت یا نفرت کا تعلق نفسانیت ، طمع یا خوف کی بنا پر نہ ہو ، بلکہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول مقصود ہو، چنانچہ حدیث پاک میں ہے:’’حضرت عمر بن خطاب بیان کرتے ہیں:نبی ﷺ نے فرمایا:اللہ کے بندوں میں سے بعض لوگ ایسے ہیں جو نہ نبی ہیں اور نہ شہید، (مگر) قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اُن کے مرتبے کو دیکھ کر انبیاء اور شہداء اُن کی تحسین کریں گے، صحابہ نے عرض کی: یارسول اللہ! ہمیں بتائیے! وہ کون لوگ ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا:وہ ایسی قوم ہے کہ اُن کے درمیان نہ رشتۂ قرابت ہے ، نہ ایک دوسرے کو مال کا لین دین ہے، (اس کے باوجود) یہ لوگ اللہ کی رضا کے لیے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں ، بخدا! ان کے چہرے روشن ہوں گے، وہ نورانی منبروں پر ہوں گے، جب لوگ (اپنے آنے والے دنوں کے بارے میں)خوف کا شکار ہوں گے تو انھیں کسی بات کا خوف نہیں ہوگااور جب لوگ غمگین ہوں گے تو انھیں کسی بات کا غم نہیں ہوگااور پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی:’’سنو! بے شک جو اللہ کے ولی ہیں، انھیں نہ کسی (آنے والی)بات کا خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے،(یونس:62)‘‘، (سنن ابودائود:3527)‘‘۔

اس حدیث میں اُن اسباب ومحرّکات کی نشاندہی کی گئی ہے جن کی بنا پر بندگانِ اغراض ایک دوسرے سے محبت یا نفرت کرتے ہیں، ان میں سے ایک سبب قرابت کا رشتہ ہے، یہ قرابت نسبی بھی ہوتی ہے ، نسل اور قبیلے کی بنیاد پر بھی ہوتی ہے ، ہم پیشہ طبقات بھی ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں اور مال کے لالچ میں بھی ہوتی ہے، جیسے حدیث پاک میں فرمایا:’’ اعمال کا (جزا وسزا )کا مدار نیتوں پر ہے اور انسان کو وہی ملے گا جس کی اُس نے نیت کی ، پس جس کی ہجرت دنیا پانے کے لیے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لیے ہو ، تو اس کی ہجرت انہی مقاصد کے لیے شمار ہوگی جن کے لیے اس نے ہجرت کو اختیار کیا، (صحیح البخاری:1)‘‘،

یعنی ایسی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے شمار نہیں ہوگی ۔پس ایسے دو فرد یا افراد جن کی آپس میں محبت کا سبب اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا حصول ہو ، نہ قرابت داری کی رعایت مطلوب ہو ، نہ مال پانے کا طمع ہو، اس ظاہری محبت کے پیچھے کوئی خوف بھی کار فرما نہ ہو، تو اس کا اُخروی صلہ اس حدیث پاک میں بیان کیا گیا ہے۔ (جاری ہے۔۔۔)

Comments

Click here to post a comment