ہوم << رزلٹ، مایوسی، خود کشی، ذمہ دار کون؟ - حنا نرجس

رزلٹ، مایوسی، خود کشی، ذمہ دار کون؟ - حنا نرجس

ابھی دلیل ڈاٹ پی کے پر کبیر علی صاحب کی تحریر بعنوان "بچوں میں خود کشی کا رجحان اور والدین" نظر سے گزری. بہت عمدگی سے وجوہات اور ان کے ممکنہ حل کو زیر بحث لایا گیا ہے. اس سلسلے میں مجھے بھی اپنے تجربے و مشاہدے کی بنا پر کچھ باتیں عرض کرنا ہیں.

1. سب سے پہلے تو والدین کے ذہن میں حصولِ علم کا مقصد بالکل واضح ہونا چاہیے اور بچوں کو بھی بار بار یاد دہانی کرواتے رہنا چاہیے.

2. دینی و دنیاوی دونوں طرح کی تعلیم کو ساتھ لے کر چلنا ضروری ہے. ویسے میں تو اس تفریق کو بھی تسلیم نہیں کرتی کیونکہ عرفِ عام میں جسے دنیاوی تعلیم کہا جاتا ہے، وہ اس کائنات سے متعلق ہی ہے نا. کائنات اور تخلیقِ کائنات پر غور کرنے کی دعوت تو خود قرآن مجید میں بار بار دی گئی ہے. فزکس، کیمسٹری، بائیالوجی، ہسٹری، جیوگرافی، میتھس، باٹنی، زولوجی، گائنی وغیرہ وغیرہ، قرآن ان سب پر بات کرتا ہے اور غور و خوض کی دعوت دیتا ہے. اور اب تک یہی دیکھا ہے کہ ان علوم پر دسترس رکھنے والے قرآن مجید کو دوسروں کی نسبت بہتر طور پر سمجھتے ہیں. مقصد یہی ہے کہ مخلوق سے خالق تک کا سفر طے کیا جائے. خیر اس وقت یہ میرا موضوع نہیں، لہذا واپس اپنی بات کی طرف آتی ہوں.

3. بہت سے ماں باپ اپنی ناتمام خواہشات کی تکمیل اپنی اولاد کے ذریعے چاہتے ہیں اور من پسند نتائج حاصل کرنے کے لیے وہ یہ بنیادی نکتہ ہی بھول جاتے ہیں کہ ہر بچے کی اپنی ایک شخصیت اور مزاج ہے. وہ بیک وقت بہت سی صلاحیتوں کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سی کمزوریاں بھی رکھتا ہے.

4. مجھے کہنے دیجیے کہ موجودہ والدین اور اساتذہ کی ایک بڑی تعداد خود بنیادی تربیت سے محروم ہے. اکثر و بیشتر بصیرت اور تحمل نہیں رکھتے.

5. ماں باپ خود دو انتہاؤں کا شکار ہیں. اگر ایک سال وہ بچے کو خود وقت نہیں دے پائے، کسی اچھے استاد یا اکیڈمی کا انتظام نہیں کر پائے تو بچے کا رزلٹ آنے پر دانستہ آنکھیں بند کر لیں گے اور نظر انداز کر دیں گے. پھر اگلے سال جب ان کی پڑھائی پر وقت اور پیسہ دونوں لگائیں گے تو متوقع رزلٹ سے چند نمبر کم آنے پر بھی سیخ پا ہو جائیں گے اور اساتذہ سے سخت لہجے میں باز پرس کرنے سے بھی نہیں چوکیں گے. یہ سلسلہ ادل بدل کر یوں ہی چلتا رہے گا.

6. مسابقت یقیناً اچھی چیز ہے لیکن اس کو مثبت حد کے اندر رکھنا از حد ضروری ہے. مشاہدے میں یہی آیا ہے کہ اس جذبے کو خطرناک حد تک لے جانے میں زیادہ تر ہاتھ والدین کا ہی ہوتا ہے.

7. انسان خطا کا پتلا ہے. ضروری نہیں ہے کہ آپ بچے کو اچھے سکول میں پڑھا رہے ہیں. دو اکیڈمیز کا بھی انتظام کر لیا ہے. اس پر مستزاد ویک اینڈ پر کچھ قابل اساتذہ سے الگ سے بھی کچھ گھنٹے لے رکھے ہیں. تو اب بچے کی پہلی پوزیشن یقینی ہے. ایسے والدین جب بچے کے ایک دو نمبر سے پہلی پوزیشن نہ لے سکنے پر ٹوٹے بکھرے، الجھے، اپنا سر تھامے ہمارے پاس آتے ہیں تو ہمارے پاس ان کے لیے صرف ایک ہی جذبہ ہوتا ہے، ترس. یہ بیچارے خود قابل رحم ہیں. آپ سوچیے 98 فیصد نمبر جو بچے نے لیے ان سے تو آنکھیں بند کر لی جائیں، جو 2 فیصد رہ گئے ان کی وجہ سے بچے کو ہر ایک کے سامنے ذلیل و رسوا کیا جائے کہ "یہ لے سکتا تھا. یہ لے سکتی تھی. بس اسے ہماری عزت کی پرواہ نہیں. کیا کمی رکھی ہم نے اس پر خرچ کرنے میں.." اور ہم بے بسی کے ساتھ ایسے بچے کے مستقبل کے لیے دعا ہی کر سکتے ہیں. والدین کوئی اپنی مرضی سے تو منتخب نہیں کر سکتا نا!

8. شاید آپ کو لطیفہ ہی لگے مگر ہمارے جاننے والوں میں ایک بچہ ایسا ہے (ایف ایس سی کا)، جس کی زندگی کا واحد مقصد نمبر لینا ہے. کیوں؟ مستقبل کے کیا منصوبے ہیں؟ کیا کسی سے مقابلہ ہے، بیٹا؟ نہیں کچھ بھی نہیں. بس نمبر لینے کا شوق ہے. صحت، نشوونما، دوست، کھیل کود، حتی کہ موبائل فون ? کسی چیز میں بھی دلچسپی نہیں. سوچیے، یہ شوق دلانے کے ذمہ دار کون ہیں؟ کیا بچے کا غیر متوازن طرز زندگی ان کی آنکھوں سے اوجھل ہے؟

9. کچھ والدین نمبروں کے جنون میں اس حد تک مبتلا ہیں کہ بچوں کو نماز تک سے منع کرتے ہیں کہ وقت ضائع ہوتا ہے. العیاذ باللہ. اگر بچہ نماز پڑھنا چاہتا ہے تو چھپ کر اور چوری پڑھتا یا مسجد جاتا ہے.

10. موت کا کوئی وقت مقرر نہیں. ایف ایس سی تک تو اکثر والدین بچوں کے ساتھ ساتھ خود بھی دن رات ایک کیے ہوئے ہوتے ہیں کہ بچے کا ایڈمشن ان کی خوابوں کی یونیورسٹی میں ہوجائے، تو پھر ایک ہی بار رک کر سکھ کا سانس لیں گے. کتنے ہی بچے اسی دوڑ میں دوڑتے، اسی چکر میں بل کھاتے، فرسٹریشن کا شکار رہتے، اپنی صحت اور آرام سے بے پرواہ، ہنسنے بولنے کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں تک سے محروم، سرپٹ بھاگ رہے ہوتے ہیں کہ اللہ کی طرف سے بلاوا آ جاتا ہے. ? مگر بچے کو دین کی تعلیم تو ابھی دی ہی نہیں گئی تھی! قرآن کے ساتھ تو جوڑا ہی نہیں گیا تھا! مقصدِ تخلیق سے تو آگاہ ہی نہیں کیا گیا تھا!

11. ایک فیملی کے بچے دین و دنیا، تعلیم و عمل، صحت و غیر نصابی سرگرمیوں ماشاء اللہ سب میں ہی اللہ کی طرف سے خصوصی طور پر نوازے گئے ہیں. چند سال قبل جب وہ سکول سے بہترین رزلٹ کے ساتھ فارغ ہوئے تو ان کے ہم جماعت ساتھی بہت غور و خوض کے بعد اس کے نتیجے پر پہنچے کہ یہ سب دعاؤں کی وجہ سے ہے. دیکھا نہیں ہر نماز مسجد میں پڑھتے ہیں اور نماز کے بعد کیسے لمبی لمبی دعائیں کر رہے ہوتے ہیں ? ان معصوموں کا خود بخود یہ نتیجہ نکالنا مجھے سچ مچ لطف دے گیا.

12. اب آتے ہیں حل کی طرف، تو سب سے زیادہ ضرورت اس ایشو پر والدین کو سمجھانے کی ہے، خواہ اس کے لیے جمعہ کے خطبہ میں بات کی جائے یا دوسرے پلیٹ فارمز پر.
اوپر جس تحریر کا حوالہ دیا، اس میں رزلٹ پر خودکشی کی دو وجوہات بتائی ہیں:
بچوں کی اپنی کمزوری
والدین کی طرف سے دباؤ
مگر دیکھیے نا پہلی وجہ بھی تو والدین ہی کی ناسمجھی سے پھلتی پھولتی ہے. شخصیت میں کسی بھی طرح کی کمزوری کے حامل بچے کی خصوصی مدد والدین کو خود بھی کرنی چاہیے اور اپنے دوسرے بچوں سے بھی کہنا چاہیے. کچھ کمزوریاں فطری ہوتی ہیں، بچے کی خصوصی مدد والدین کو خود بھی کرنی چاہیے اور اپنے دوسرے بچوں سے بھی کہنا چاہیے. کچھ کمزوریاں فطری ہوتی ہیں، بچے کو ان سمیت قبول کیا جانا چاہیے.

اس بات پر اختتام کروں گی کہ اچھے نمبر لینے کے لیے طالب علموں کو چار چیزوں پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے.
1. اپنے دینی فرائض کی ادائیگی (نقل نہ کرنا بھی اسی کے تحت آ جائےگا)
2. اساتذہ کا ادب اور ان کی غیبت سے اجتناب
3. استطاعت بھر محنت
4. بہت ساری دعا

Comments

Click here to post a comment

  • Bht umdagi se ahaata kia aap ne. Mgr main aik baat kehna chahun ga k iss mamlay men sab se ahm bat waliden ka piyar aur twajjuh hai jo wo apnay bachon ko detay hain. Iss se bachon men aitemad peda hota hai. Mera khayal hai k waliden ko apnay bachon se qarib honay ki jitni zarurat aj hai, kabhi na thi.