ہوم << قدرتی آفات اورعظیم لوگ-نسیم الحق زاہدی

قدرتی آفات اورعظیم لوگ-نسیم الحق زاہدی

یہ نوئے کی دہائی کی بات ہے والد محترم کی ڈیوٹی گنڈاسنگھ تھی میری عمر اس وقت نو سے دس سال ہوگئی ایک خالص مذہبی گھرانے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے مذہب سے لگائو وراثت میں ملا تھا کسی بھی جگہ کوئی مذہبی جلسہ،اجتماع ہونا تو میری یہ اولین خواہش اور کوشش ہوتی کہ پہلی صف میں پایا جائوں اس لگن اور شوق کو مدنظر رکھتے ہوئے والد محترم مجھے اپنے ساتھ لے جاتے اس وقت ایک مواحد جماعت عروج پر تھی جس جماعت کے کارکنان اور قائدین کو دیکھ کر صحابہ کرام ؓ کا زمانہ جو کتب میں پڑھا اور علمائے کرام سے سنا ہوتا.

آنکھوں کے سامنے گھومنے لگتا ایسا خوبصورت اخلاق کہ دل موہ لے ٹخنوں سے اونچی شلواریں،منہ پر سنت رسولؐ داڑھی، سر پر کالے رنگ کے رومال اور اخلاص کے جذبے سے سرشار یہ ’’عظیم لوگ‘‘توجہ کا مرکز بنے سب سے اہم بات یہ کہ اس جماعت میں نوجوان دھڑا دھڑ شامل ہونے لگے ۔والدہ محترمہ اکثر فارسی کا یہ شعر پڑھا کرتی تھیں ’’در جوانی توبہ کردن شیوہ پیغمبری۔وقت پیری گرگ ظالم میشور پرہیزگار‘‘امی جان کہا کرتی تھیں کہ بیٹا عبادت کا مزہ بھی جوانی میں آتا ہے ،بڑھاپے میں ظالم بھیڑیا بھی پرہیزگار ہوجاتا ہے۔ میری والدہ مرحومہ حاجی شیخ شمس الدین ؒ کی بڑی بیٹی تھیں میرے نانا جان ایک بہت بڑی علمی وادبی شخصیت تھی پاکستان میںمسلک اہلحدیث کو پہچان دلوانے والے مفکر اسلام،محقق،خطیب بے مثل ،خطیب عرب وعجم ،مناظراسلام،فاضل مدینہ یونیورسٹی علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدؒ کے فرزندمعروف مذہبی سکالر ،انجینئر علامہ حافظ ابتسام الٰہی ظہیر کے سسر حاجی شیخ محمد یونس کے والد حاجی شیخ محمد امین میرے نانا جان کے کزن تھے ۔

شہرہ آفاق کتاب ’’موت کا منظر‘‘کے مؤلف شیخ خواجہ محمد اسلام میری والدہ مرحو مہ کے سگے ماموں زاد بھائی تھے۔پروفیسرڈاکٹر آغا محمود شورش میری والدہ کے بھتیجے ہیں ان کے علاوہ ہمارے خاندان میںبہت سی علمی ،مذہبی ،ادبی شخصیات موجودتھیں اور ہیں (الحمدللہ)میری والدہ مرحومہ ولی کامل حضرت مولانا محی الدین لکھوی ؒ اور حضرت مولانا عبداللہ امجد چھتوی ؒکی شاگرد تھیں ۔مختصر سا تعارف اس لیے ضروری تھا کہ کچھ نومولود بلاوجہ تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں اور خود کو عقل قل سمجھتے ہیں آج جو طفلان بڑھ بڑھ کر باتیں کرتے ہیں یہ ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے کہ جب سے ہم اس جماعت سے محبت کرتے ہیں ۔

فتوحی والا،برج کلاں ،ساندہ پھاٹک،بستی بھیڈیاں،مان والہ ،قیصر گڑھ،بھیڈیاں کلاں،مالم کلاں،رجی والا، سنجرہ اور دیگرز گائوں جن کے نام تقریباً بھول چکا ہوں وہاں پر نوجوان ایک خوبصورت پنڈال سجاتے ،اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہوتی ، تربیتی اور اصلاحی نشستوں کا اہتمام ہوتا ’’کل روس بکھرتے دیکھا تھا اب انڈیا ٹوٹتے دیکھیں گے ‘‘جیسے دل کو گرما دینے والے ترانوں سے پنڈال گونج اٹھتا ایک عجیب سی لذت ،سکون اور خوشی محسوس ہوتی ایک بھائی دوسرے بھائی کا ایسے خیال رکھتا کہ جیسے سگا بھائی ہوپروگرام کے اختتام پر چاولوں کی دیگیں پکتیں چاول پراتوں کے اندر تقسیم کیے جاتے ایک پرات میں تین سے چار ساتھی اکٹھے بیٹھ کر کھاتے ایک ہی جگ میں پانی پیتے ہر ساتھی کی یہ خواہش ہوتی کہ دوسرا ساتھی پیٹ بھر کر کھائے نوجوان بھاگ بھاگ کر کام کرتے.

اس دسترخوان پر سالوں پرانی دشمنییاں ختم ہوئیں ،بغض،عناد ،کینہ ،خوشامد جیسی بیماریوں کا تو علم بھی نہ تھا یہ سچ اور حق کی آواز کچے مگر سچے گھروں سے نکلی تھی پھر دیکھتے ہی دیکھتے اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو وہ عروج دیا کہ ناقدین بھی تعریف کرنے پر مجبور ہوئے ۔اس اصلاحی ،دینی،تبلیغی جماعت کا نام ’’جماعت الدعوۃ‘‘ تھا جس نے بہت قلیل مدت میں واقعی ہی عوام الناس میں اللہ اور اس کے رسولؐ کے دین کی دعوت کا وہ کام کیا کہ وطن عزیز میں لاکھوں کی تعداد میں نوجوان متاثرہوکر ایک عظیم کارواں بنا ،اسلام کی مقبولیت اور پھیلنے کے خوف سے ملت کفر نے اس جماعت کے خلاف وہ وہ سازشیں رچی کہ مغربی غلاموں کو اس جماعت کو بین کرنا پڑھا اس جماعت کے زیر اہتمام کئی پراجیکٹ اور ذیلی تنظیمیں چل رہی تھیں جن میں ’’فلاح انسانیت فائونڈیشن‘‘سر فہرست ہے جن کے ورکرز نے قدرتی آفات،سیلاب،زلزلے،طوفانوں اور وباؤں کے اندر ایسی ایسی لازوال تاریخ ساز خدمات سرانجام دیں کہ دنیا کوحیرت میں ڈال دیا 2005کے زلزے میں ان ’’عظیم لوگوں‘‘کی خدمات کا اقوام متحدہ بھی معترف ہے ۔

جب بھی کبھی اس ملک پر کوئی بھی قدرتی آفت آئی ہے تو سب سے پہلے یہ لمبی داڑیوں والے اور ٹخنوں سے اونچی شلواروں والے ہی میدان عمل میں اترے ہیں ۔وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ملاں کا کام صرف مسجد کی حد تک ہوتا ہے آج وہ دیکھیں کہ کس طرح یہ لوگ گہرے پانیوں کے اندر اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر انسانیت کو بچانے کے لیے سرگرم عمل ہیں سیلاب سے پہلے جب چولستان کے اندر انسان اور جانور ایک ایک بوند پانی کو ترس رہے تھے، کھانے کو روٹی نہ تھی اور ہمارے ناعاقبت اندیش حکمران غفلت کی نیند سوئے ہوئے تھے اس وقت یہ داڑھیوں والے ہی تپتے ہوئے صحراؤں میں سائبانی کا فریضہ سرانجام دے رہے تھے پیاسوں کو پانی پلارہے تھے اور بھوکوں کو کھانا کھلارہے تھے ۔

حافظ محمد سعیدنے چولستان،تھرپارکر اور بلوچستان کے اندر بہت زیادہ فلاحی،رفاحی،اصلاحی کام کیا ہے اور آج وہ اسی جرم میں پچھلے کئی سالوں سے پابند سلاسل ہیں ان کا گناہ اپنی مٹی اور اپنے لوگوں سے وفا ہے۔آج انکے لخت جگر ،داعی اسلام،مفکر قرآن،خطیب العصر ،شورش ثانی ،محقق وقت،حافظ طلحہ سعید اپنے والدِمحترم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انسانیت کی فلاح کے کاموں میں پہلی صفوں میں نظر آتے ہیں ۔عجیب انتھک انسان ہے پچھلے دنوں فون پر بات ہورہی تھی تو شدید بخاراور جسم میں درد کی وجہ سے اس عظیم انسان سے بولا بھی نہیں جارہا تھا مگر بار بار ایک ہی بات دہرارہے تھے کہ اللہ تعالیٰ اس ملک پر اپنا رحم فرمائے ،سیلاب نے ہر طرف تباہی مچادی ہے.

بہت سے دیہات تباہ ہوچکے ہیں ،بارہ سو کے قریب انسان لقمہ اجل بن چکے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں جانور پانی میں بہہ گئے ہیں ،انسانی لاشیں پانی میں تیرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں دفنانے کے لیے خشک زمین نہیں مل رہی ،سرپرچھت نہیں ،کھانے کو روٹی نہیں پینے کو پانی نہیں ،میری مائیں ،بہنیں،بیٹیاں پردہ کے بغیر کھلے آسمان کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ان کے لہجے میں بلا کا کرب تھا ،احساس تھا ،انسانیت تھی ایسے ہوتے ہیں خادم اعلیٰ کہ والد محترم پابند سلاسل ہیں ایمبولینسز،کشتیاں اور دیگرحفاطتی چیزیں حکومتی طویل میں ہیں مگر اس مرد مجاہد نے یا ان کے نظریاتی ،روحانی بیٹوں نے کبھی بھی کوئی سڑک بلا ک نہیں کی ،دنگا فساد نہیں کیا ،ٹائر نہیں جلائے ملکی املاک کو نقصان نہیں پہنچایا.

اپنی ریاست اور عدالتوں پر ہمیشہ بھر پور اعتماد کیا ہے ہر حکم کو تسلیم کیا ہے ۔یہ ہیں وہ ’’عظیم لوگ‘‘جن کی زندگیوں کا مقصد اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کے احکامات پر عمل کرنا ہے یہ لوگ بجا طور پر مبارکباد کے مستحق ہیں اگر آج ان افراد کو انکی کشتیاں،ایمبولینسز واپس کردی جائیں تو یقین کریں کہ یہ لوگ ناقابل یقین خدمات سرانجام دے سکتے ہیں۔مگر شاید ایسا ممکن نہیں ہے ۔

Comments

Click here to post a comment