ہوم << ماحولیاتی تبدیلیوں کے بھیانک اثرات-اویس چودھری

ماحولیاتی تبدیلیوں کے بھیانک اثرات-اویس چودھری

موجودہ دور میں دنیا کو درپیش دیگر مسائل میں سے ایک خطرناک مسئلہ ماحولیاتی تبدیلی ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں میں ماحولیاتی تبدیلی ایک عالمی تشویش بن چکی ہے۔ آخر موسمیاتی تبدیلی کس طرح ماحولیاتی تبدیلی پر اپنے گہرے نقوش مرتب کرتی ہے؟ موسمیاتی تبدیلی ہے کیا؟ موسمیاتی تبدیلی سے مراد زمین کے ماحولیاتی حالات میں تبدیلی واقع ہونا ہے۔ یہ بہت سے اندرونی اور بیرونی عوامل کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ، یہ موسمی تبدیلیاں زمین پر زندگی کو مختلف طریقوں سے متاثر کرتی ہیں۔ ایک جگہ درجہ حرارت اور موسم کے مخصوص نمونوں کی طویل مدتی تبدیلی موسمیاتی تبدیلی کہلاتی ہے۔ موجودہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ بڑی حد تک انسانی سرگرمیاں ہیں، جیسے جیواشم ایندھن کو جلانا، جیسے قدرتی گیس، تیل اور کوئلہ۔ ان مواد کو جلانے سے زمین کی فضا میں گرین ہاؤس گیسیں خارج ہوتی ہیں۔ یہ تیزی سے دنیا کے ماحول پر اپنے گہرے نقوش چھوڑ رہی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات دور رس اور متنوع ہیں اور زمین پر زندگی کے تقریباً ہر پہلو کو چھوتے ہیں۔ شدید گرمی کے واقعات، سمندر کی سطح میں اضافہ، گہری خشک سالی، صحرا بندی، جنگل کی آگ اور زیادہ شدید طوفان شامل ہیں۔

ماحولیاتی تبدیلی نے یورپ کا رخ کیا تو اخبارات کی شہ سرخیوں چیخ اٹھیں۔ حالیہ موسم گرما میں یورپ میں ریکارڈ گرمی دیکھنے کو سامنے آئی۔ لندن کے درجہ حرارت نے عرب کے گرم تپتے صحراؤں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ 12 جون سے شروع ہونے والی گرمی کی لہر ابھی تک تھم نہیں سکی۔ متفرق یورپی ممالک مثلاً اسپین اور پرتگال نے اس سال ریکارڈ درجہ حرارت کا سامنا کیا۔ اس دوران سب سے زیادہ ریکارڈ درجہ حرارت °47 سینٹی گریڈ 14 جولائی 2022 کو پرتگال کے ایک مقام پہ دیکھنے کو سامنے آیا۔ یورپ کے کئی ممالک میں بہت سے دریا خشک ہو چکے ہیں، جھیلوں اور ڈیموں میں پانی کی سطح بہت کم ہو گئی ہے، اور کچھ علاقوں کو پانی کی قلت کا سامنا ہے۔

شمالی نصف کرہ نے واقعتاً ریکارڈ درجہ حرارت کا مشاہدہ کیا، جنگل کی آگ نے یورپ کے کچھ حصوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور خشک سالی نے خوراک کی فراہمی کو نا ممکن بنا دیا۔ اور، اکثر، یورپی شہروں میں خلیج فارس کے شہروں سے زیادہ گرم حالات دیکھنے میں آئے۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف درجہ حرارت ہی کسی شہر میں رہنے کے لیے مناسب پیمانہ نہیں ہے۔ گرمی اور نمی کا مجموعہ کسی ماحول کا تعین کرتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اسی درجہ حرارت میں بھی مشرق وسطیٰ یورپ سے کہیں کم رہنے کے قابل ہے۔

مشرقی وسطیٰ میں بھی اس سال گرمی کی لہر کافی شدید رہی۔ ایرانی شہر آبادان نے اس سال سب سے زیادہ خشک گرمی کا ریکارڈ قائم کیا۔ 5 اگست کو درجہ حرارت °53 سینٹی گریڈ تک جا پہنچ گیا۔ جب موسم مرطوب ہوتا ہے تو اسے ٹھنڈا کرنا مشکل ہوتا ہے، کیونکہ ہمارے جسم خشک ہوا کے بجائے اپنی گرمی کو گیلی ہوا میں منتقل کرنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں، جس سے اسے پسینہ نکالنا اور ہمارے جسم کے درجہ حرارت کو کم کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

خلیج فارس کی تیل کی دولت سے مالا مال عرب ریاستوں نے خود کو گرمی سے نمٹنے کے لیے توانائی سے بھرپور ایئر کنڈیشنگ سے لیس کیا ہے، لیکن دیگر علاقائی ممالک کو اس قدر مراعات حاصل نہیں ہیں۔ عراق میں، بصرہ شہر کے ملازمین کو اس ماہ کے شروع میں زیادہ درجہ حرارت کی وجہ سے گھر پر رہنے کو کہا گیا تھا۔ جس کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔ تاہم، گھرانوں کو قومی گرڈ سے صرف 10 گھنٹے تک بجلی ملتی ہے، جو لوگ اس کی استطاعت رکھتے ہیں وہ نجی جنریٹر فراہم کرنے والوں کو دوسرے گھنٹے پورا کرنے کے لیے ادائیگی کرتے ہیں۔

گرمی کی بڑھتی ہوئی لہر اپنے ساتھ توانائی کا بحران بھی پیدا کرتی چلی جاتی ہے۔ غزہ میں، باشندوں کو روزانہ ملنے والی تین سے چار گھنٹے کی بجلی میں ہی ٹھنڈے ماحول میں بیٹھنے کا موقع ملتا ہے۔ اور روزانہ بجلی نہ ہونے کے باعث 20 گھنٹے تک مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خستہ حال معیشت کے باعث گزشتہ سال لبنان میں پیدا ہونے والا توانائی کا بحران اپنے اثرات پوری طرح مرتب کیے ہوئے ہے۔ لبنان کی حکومت اب یومیہ دو گھنٹے سے زیادہ بجلی فراہم نہیں کرتی۔ یہاں تک کہ کچھ خلیجی عرب ریاستوں میں، مثلاً کویت، جہاں تیزی سے عمارتیں بن رہی ہیں، ایئر کنڈیشننگ تک رسائی سب کے لیے دستیاب نہیں ہے، بشمول تعمیراتی کارکنان جو باہر محنت کرتے ہیں۔

ایم آئی ٹی کی ایک تحقیق کے مطابق اگر خلیج فارس میں گرین ہاؤس کے اخراج کی موجودہ رفتار برقرار رہی تو ابوظہبی، دبئی اور دوحہ جیسے شہروں میں سالانہ زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت سال میں کئی بار انسانی بقا کی حد (35C) سے تجاوز کر جائے گا۔

Comments

Click here to post a comment