ہوم << کاش،اے کاش- سعدیہ قریشی

کاش،اے کاش- سعدیہ قریشی

عام پاکستانی اپنے ہم وطنوں کی مدد بساط بھر کر ہی رہا ہے مگر قوم یہ جاننے میں بھی دلچسپی رکھتی ہے کہ ہمارے حکمرانوں، وزیروں ،مشیروں نے خود سیلاب متاثرین کے لیے اپنی جیب سے کیا دیا؟شہباز شریف، عمران خان ، آصف زرداری ،فضل الرحمن نے اس کار خیر میں کتنا حصہ ڈالا ؟وزیر اعلی پرویز الہی کا یہ اعلان کافی نہیں ہے کہ پنجاب اسمبلی کے تمام ممبران ایک مہینے کی تنخواہ دیں گے، تنخواہ کے پیسے تو ان کی ایک دن کی خریداری کے لیے بھی کم ہیں۔

تاریخ کا بدترین سیلاب پاکستان کے کروڑوں غریبوں کی زندگیوں کو تہ و بالا کر چکا ہے۔اگلا مرحلہ مصیبت زدوں کو زندگی کے دھارے کی طرف واپس لانے کا ہے۔جس حد تک ہو سکے ان کی زندگیوں کو نارمل کرنے کی ضرورت ہے۔ان کے ملیامیٹ ہو جانے والے گھروں کو بنانا معاشی طور پر انہیں خود کفیل کرنے کے لئے مال مویشی دینے اور ان کے کھیتوں کو پھر سے آباد کرنے کے لئے جناتی قسم کے بحالی پروگرام کو اتنی ہی بڑی دیانت اور خلوص کے ساتھ بروئے کار لانے کی ضرورت ہے ۔ مجھے ڈر ہے کہ پاکستان کی سیاسی اشرافیہ آپس کے سیاسی جھگڑوں میں اتنی زیادہ منہمک رہتی ہے کہ ان کے پاس اس بڑی سطح کا کام پوری دیانت اور خلوص کے ساتھ کرنے کی صلاحیت ہی نہیں۔اگر سیلاب سے متاثر ہونے والے تین کروڑ لوگوں کو پوری توجہ اور ہمدردی کے جذبے کے ساتھ زندگی کے دھارے کی طرف واپس نہ لایا گیا تو یہ اپنی جگہ سیلاب کی تباہی سے بھی بڑا المیہ ہوگا۔

اچھی بات یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں حکومت میں ہیں۔سو ان کے قائدین ایک دوسرے پر الزام تراشی کر کے اپنی ذمہ داریوں سے بچنے کی راہ نہیں پائیں گے۔جیسا کہ عموما ہمارے سیاستدانوں کا وتیرہ ہے ۔حکومت میں رہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ریاست کے شہریوں کی جان اور مال کے تحفظ کے ذمہ دار ہیں۔اس وقت جتنی بھی امداد سیلاب زدگان کے لیے آرہی ہے آپ اس رقم کے امانتدار ہیں۔میرے بس میں ہو تو تمام وفاقی اور صوبائی حکومتوں، ان کے نمائندگان اور سرکاری انتظامیہ بیوروکریسی ضلعی اور تحصیل کی انتظامیہ کے متعلقہ افراد کو اس حلف نامہکا پابند کردوں کہ سیلاب زدگان کے لیے آنے والی امداد کی ایک ایک پائی مصیبت زدوں کی بھلائی کے لیے خرچ ہوگی۔ اس کا ایک پیسہ بھی ان پر استعمال کرنا حرام ہوگا۔کاش یہ عہد نامہ روزانہ ان کی سماعتوں میں انڈیلا جائے۔

ہمارا سب سے بڑا سماجی اور سیاسی المیہ یہ ہے کہ پاکستان کی عوام اور مقتدر اشرافیہ جس میں سیاسی، بیوروکریسی، عدالتی، اور ہر نوع کی اشرافیہ شامل ہے، کے درمیان اعتبار کا کرائسس موجود ہے۔اور اعتبار کا یہ خلا خود ان کی ہوس زدگی اور بددیانتی نے پیدا کیا۔یتیموں اور بیواؤں کے لیے مختص ہونے والی بے نظیر انکم سپورٹ کے پیسے تک اس ملک کے افسران کھاتے ہوئے پائے گئے۔اپنی بیگمات کے نام پر بیواؤں کا پیسہ کھانے والے اسی نظام کا حصہ ہیں۔ تھر کے قحط زدہ لوگوں کے نام پر گندم کی بوریاں اپنے گوداموں میں ذخیرہ کرنے والے مریخ سے نہیں آئے تھے ،زلزلوں سیلاب اور کرونا کے نام پر آنے والی امداد میں خرد برد کرنے والے بھی پاکستان کی سیاسی ایلیٹ کا حصہ تھے اور آج بھی ہیں۔ 2010کے سیلاب میں ترکی سے آنے والی اعلی قسم کی نوڈلز متاثرین سے زیادہ خوشحال گھروں کے دسترخوانوں میں پائی گئیں۔

ہماری ایک عزیز انہی دنوں مظفرگڑھ گئی انہوں نے بھی یہ مشاہدہ کیا کہ جس گھر جائیں، ترکی کی نوڈلز کھانے کو ملتی ہے ۔پتہ چلا کہ سیلاب زدگان کی امداد کے لئے ترکی سے آنے والی خوردنوش کی اشیاء یہاں کے سادہ لوح دیہاتیوں کے لیے نئی چیز تھیں۔یہ نوڈلز مقامی دکانوں پر بھی فروخت ہورہی ہیں اور ہر گھر میں موجود ہیں۔اللہ جانے سادہ لوح دیہاتیوں نے ویسے کھانے سے انکار کر دیا کہ یہ فیصلہ بھی ڈسٹری یبیوٹ کرنے والے افسران نے کیا کہ ان اشیا کو اپنے دسترخوانوں میں پہنچایا جائے۔سیلاب متاثرین دیہات کے سادہ لوگ ہیں جن کے روز مرہ کی خوراک میں روٹی، سالن،دودھ لسی شامل ہے۔بیرون ملک سے خوردونوش کی مد میں آنے والی فینسی چیزیں اسی طرح ضائع ہوجاتی ہیں اور مستحقین تک پہنچ بھی جائیں تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ۔انتظامی سطح پر کئی دائروں میں کام کرنا پڑتا ہے۔امداد کی اس تقسیم کو فول پروف بنانا اور دیانتداری سے پایہ تکمیل تک پہنچانا ضروری ہے ۔

عالمی امداد کا ہن بھی برس رہا ہے اور ملک سے بھی متاثرین سیلاب کے نام پر پیسہ اکھٹا ہورہا ہے کمی ہے تو ایک موثر میکانزم کی جسے دیانت داری اور خلوص کے ساتھ بروئے کار لایا جاسکے۔اور اسی کی ہمارے پاس شدید کمی ہے۔کوئی ادارہ جس سے یہ سیکھا جاسکتا ہے وہ الخدمت فاؤنڈیشن کے سوا اور کوئی نہیں۔الخدمت جس موثر میکانزم کے ساتھ ملک کے دور دراز علاقوں میں مصیبت زدوں کی امداد میں مصروف ہے اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ تجویز یہ ہے کہ قومی سطح کا ایک ایسا ادارہ بنایا جائے جس کی شاخیں تمام صوبوں میں ہوںجو تمام تر سیاسی تعصبات کو بالاتر رکھ کر متاثرین کی بحالی کا کام کرے مگر اس سے پہلے متاثرین کے ہونے والے جانی اور مالی نقصان کا ڈیٹا اکھٹا کرے۔پھر بحالی کا تخمینہ لگائے۔اس کے مطابق فنڈز جاری کرنے کا فول پروف میکانزم ترتیب دے۔

کاش کہ قومی سطح کے اس ادارے کی سربراہی الخدمت کے صدر عبدالشکور صاحب کو دے دی جائے اور متاثرین کی حقیقی بحالی کا کام الخدمت فاؤنڈیشن کے تجربہ کار پلیٹ فارم سے شروع ہو سکے۔ یقین جانیے اتنے بڑے chaos کو سنبھالنا اوسط درجے کے سیاستدانوں اور بیوروکریسی کے بس کی بات نہیں۔جن کے ڈی این اے اس سچی دیانت اور خلوص سے محروم ہیں جو الخدمت فاؤنڈیشن کا ورثہ ہے۔ مجھے لاکھوں کروڑوں گر زبان و دل میسر ہوں جہاں میں بانٹ دوں ہر اک کو دل اپنا زباں اپنی

Comments

Click here to post a comment