پاکستان اور ترکیہ ، دونوں ممالک کے مابین برادرانہ تعلقات ہیں ، اور دونوں کو ہی امت مسلمہ کی مضبوط دفاعی قوتیں سمجھا جاتا ہے ۔ اپنی اپنی جگہ دونوں ہی ممالک کی عسکری صلاحیتوں کو عالمی درجہ بندی میں قابلِ قدر مقام حاصل ہے۔
پاکستان اور ترکیہ کی دفاعی قوتوں کا تسلی بخش موازنہ نہایت مشکل امر سہی ، البتہ ایک تجزیہ کار اپنی رائے بیان کرنے کے لیے آزاد ہے۔
پاکستان اور ترکیہ کی عسکری قوت کا جائزہ:
عسکری افرادی قوت
پاکستان کی حاضر سروس فوج میں چھ لاکھ اور چالیس ہزار چاک و چوبند جوان ہیں ، جبکہ انتہائی نزاعی اور ہنگامی صورتحال کے لیے پانچ لاکھ جوان الگ مختص ہیں ، جنہیں ریزرو شمار کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ پانچ لاکھ جوان پیرا ملٹری فورسز کا حصہ بھی ہیں۔ کل ملا کر پاکستان کے دفاع سے وابستہ افراد کی کل تعداد سولہ لاکھ اور چالیس ہزار ہے ۔
ترکیہ کے حاضر سروس فوجی چار لاکھ اور پچیس ہزار ہیں۔ اس کا ریزرو دستہ ، دو لاکھ افراد پر مشتمل
اور پیرا ملٹری فورسز سے وابستہ جوانوں کی تعداد ایک لاکھ اور پچاس ہزار ہے ۔ کل ملا کر ترک فوج سے وابستہ افراد سات لاکھ اور پچھتر ہزار ہیں۔
تعداد میں پاکستان کو ترکیہ پر واضح برتری حاصل ہے ، البتہ یہ یاد رکھیے کہ بھارت کے وفاع سے وابستہ افراد کی مجموعی تعداد امریکی دفاع سے وابستہ افراد کی مجموعی تعداد سے زائد ہے ، مگر تعداد کے بل بوتے پر جنگیں جیتی نہیں جاتیں ۔
البتہ پاکستان جیسی اعلیٰ ترین عسکری تربیت کی حامل افواج اگر اکثریت میں بھی ہوں تو پھر اس پہلو کو یونہی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔
فضائیہ کا جائزہ
پاکستان کے پاس 1387 ایئر کرافٹس ہیں، جن میں 357 انٹرسیپٹرز اور فائٹرز ہیں ،
551 تربیتی طیارے ہیں ، 307 ہیلی کاپٹرز ہیں ، جن میں سے 57 مسلح ہیلی کاپٹرز ہیں ۔
ترکیہ کے پاس 1057 ایئر کرافٹس ہیں، جن میں سے 205 انٹر سیپٹرز اور فائٹرز ہیں ،تربیتی طیارے 270 ہیں ، 474 ہیلی کاپٹرز ہیں ، جن میں سے مسلح ہیلی کاپٹرز کی تعداد 107 ہے ۔
ایک بار پھر یہاں پاکستان کو ترک دفاع پر فوقیت حاصل ہے ۔
آرٹلری کا موازنہ
پاکستان کی آرٹلری میں 2824 ٹینکس ہیں ، 9950 بکتر بند گاڑیاں ، 689 خود کار آرٹلری اور 560 راکٹ پروجیکٹرز ہیں ۔
ترکیہ کی آرٹلری میں 3022 ٹینکس ہیں ، 13270 بکتر بند گاڑیاں ، 956 خود کار آرٹلری اور 407 راکٹ پروجیکٹرز ہیں۔
یہاں ترکیہ کو پاکستان پر کسی قدر فوقیت حاصل ہے ۔
پاکستان اور ترکیہ کی بحری عسکری قوت کا موازنہ
پاکستان بحریہ کے پاس کل ملا کر 114 دفاعی اثاثہ جات ہیں ، جن میں دو ڈسٹرائرز ، 2 کارویٹس ، 6 فریگیٹس ، 9 سب میرینز اور 48گشت کرنے والے بحری جہاز ہیں۔
ترک بحریہ کے پاس 156 دفاعی اثاثہ جات ہیں، جن میں 10 کارویٹس، 16 فریگیٹس ، 12 سب میرینز اور 35 گشت کرنے والے بحری جہاز ہیں۔
بحریہ میں بھی ترکیہ کو پاکستان پہ معمولی سی برتری حاصل ہے ۔
ترکیہ کا دفاعی بجٹ نو ارب انہتر کروڑ امریکی ڈالرز ہے ، جبکہ پاکستان کا دفاعی بجٹ سات ارب انہتر کروڑ ڈالرز ۔ یعنی ترکیہ کا بجٹ پاکستان سے دو ارب ڈالرز زیادہ ہے ، جو تقریباً ساڑھے چار کھرب پاکستانی روپے بنتے ہیں
پاکستان اور ترکیہ ، دونوں ہی ممالک کی افواج اپنے تربیتی نظام اور با صلاحیت افسران پر نازاں ہیں۔ بر صغیر کا عسکری نظام برطانوی حکومت کا ترتیب دیا ہوا ہے ، لہٰذا اس کے مضبوط اور مستحکم ہونے کے بارے میں کوئی دو رائے نہیں ۔ جبکہ ترک عسکری نظام کے پیچھے آٹھ صدیوں کی عظمت اور تاریخ ہے۔
البتہ پاکستانی افواج کے بارے میں بعض تجزیہ کاروں کا یہ کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف کامیاب جنگ کے علاوہ اس کے کریڈٹ پر کوئی بڑا کامیاب معرکہ نہیں۔ 1948 میں کشمیر ، 1971 میں مشرقی پاکستان ، 1984 میں سیاچن اور 1999 میں کارگل ، پاکستان کے روایتی حریف کے نام رہے ۔ جبکہ پاکستانی فوج کی واحد واضح پیش قدمی ، آپریشن جبرالٹر بھی بھارت نے مشرقی محاذ پر حملہ کر کے ناکام بنا دی ۔
مگر ایسی آرا قائم کرنے والے نے صرف ایک سرسری نظر سے معاملے کو دیکھا اور وہ معاملے کی تہ تک اتر نہیں پایا۔ کشمیر یا اس سے متعلقہ سیاچن ، کارگل وغیرہ کے محاذوں پر پاکستان صرف اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی تجاویز کی پابندی کرتا رہا ہے ، اور واضح انداز سے جنگ چھیڑنے کا ارادہ کبھی پاکستانی فوج کا تھا ہی نہیں ۔
جبکہ 1971 میں پاکستانی فوج کا سامنا پاکستانی عوام سے تھا ، اور کیا کوئی فوج اپنے ہی عوام کو فتح کر سکتی ہے ؟
ترکیہ نے حالیہ شاخِ زیتون آپریشن ، آپریشن یوفریٹس شیلڈ اور اس کے علاوہ کوریا کی جنگ ، قبرص ، افغانستان ، عراق ، لیبیا ، کرد مسلح جتھوں اور داعش کے خلاف جنگ میں اپنی صلاحیتوں کی دھاک پوری دنیا میں بٹھا دی ہے۔ لہٰذا کسی بھی طرح ترک افواج کو پاکستانی افواج سے کم تجربہ کار نہیں کہا جا سکتا ۔
جہاں تک اسلحہ کی بات ہے تو پاکستان ماضی میں امریکہ ، فرانس ، چین ، روس اور دیگر عالمی طاقتوں سے مہنگے داموں اسلحہ خریدتا رہا ہے۔ یہ اسلحہ شاید انتہائی اہم دفائی ضروریات کو تو پورا کرتا رہا ہو ، مگر دوسری طرف اس کے استعمال پر انواع و اقسام کی پابندیاں بھی عائد تھیں ، یعنی کس حریف اور کس محاذ پہ یہ استعمال ہو سکتا ہے اور کس محاذ پر نہیں، یہ بیچنے والے طے کریں گے۔
آج سے تقریباً پندرہ برس پہلے تک ترکیہ بھی اسی مقام پر کھڑا تھا۔ دنیا بھر سے وہ اسلحہ خریدتے اور اپنی بقا اور دفاع کو ممکن بناتے۔ مگر اب ، ترکیہ نے اپنی ذاتی ٹیکنالوجی ڈویلپ کرنا شروع کی تو آج وہ اس مقام پر کھڑا ہے کہ اس کا اسلحہ دنیا بھر میں اپنا نام پیدا کر رہا ہے۔ حال ہی میں پاکستان نے ترکیہ سے اسلحہ خریدا اور اس حوالے سے معاہدے کیے۔ اس میں طیارے ، ہیلی کاپٹرز ، ڈروز اور ٹینک وغیرہ سب شامل ہیں۔
اس کی خاص بات یہ ہے کہ انتہائی معیاری اور طاقتور ہونے کے باوجود ، ترکیہ نے انہیں نہایت سستے داموں پاکستان کے حوالے کیا ہے اور اس اسلحے پر کسی قسم کی کوئی پابندی عائد نہیں۔ یعنی ترکیہ نے پاکستان کو یہ ہتھیار فروخت کیے تو ان کے ساتھ کوئی شرائط نتھی نہیں کیں۔
اس حوالے سے یہ بات تو واضح ہو گئی کہ ترک اسلحہ ساز انڈسٹری پاکستان کے مقابلے میں بہت آگے ہے ۔
البتہ یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ آخری حملے کے لیے ، پاکستان کے پاس نیوکلیئر ہتھیاروں کی ایک بڑی کھیپ ہے۔ کم از کم 120 ایٹمی ہتھیار پاکستانی اسلحہ خانے کی زینت ہیں ۔ جبکہ آفیشلی ، ترکیہ نے ایٹمی قوت کو صرف انرجی کے حصول کے لیے استعمال کیا ہے۔
نیوکلیئر ہتھیاروں کی موجودگی پاکستان کو ایک واضح برتری دلوا دیتی ہے ، مگر یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ایٹمی ہتھیار آج کی دنیا میں سیلف ڈسٹرکٹو ڈیوائسز سے بڑھ کر کوئی خاص حیثیت نہیں رکھتے۔
بظاہر معلوم یوں ہوتا ہے کہ دونوں برادر ممالک کی عسکری قوت تقریباً برابر ہی ہے ، حالانکہ بیشتر عالمی دفاعی تجزیہ کار ادارے پاکستان کو عالمی درجہ بندی میں گیارہویں ، جبکہ ترکیہ کو دسویں نمبر پہ رکھتے ہیں۔
تبصرہ لکھیے