ہوم << وسط ایشیا پر منگولوں کی یلغار، اک داستانِ غم - فہد کیہر

وسط ایشیا پر منگولوں کی یلغار، اک داستانِ غم - فہد کیہر

سن 1218ء، آزاد تجارت کا معاہدہ طے پانے کے بعد منگول سلطنت سے ایک بہت بڑا وفد خوارزم شاہ کے وسطِ ایشیا آیا۔ چنگیز خان کے ایلچی سمیت تقریباً 500 تاجر اس وفد کا حصہ تھے۔ زیادہ تر سنکیانگ اور دیگر منگول علاقوں کے مسلمان تھے۔ بخارا میں خرید و فروخت کے بعد دولت سے مالامال یہ قافلہ واپس جا رہا تھا کہ اترار کے سرحدی مقام پر اسے روک لیا گیا۔ اترار میں خوارزمی حکومت کا گورنر ینال خان تھا، جس نے الزام لگایا کہ یہ کوئی بزنس ٹرپ نہیں بلکہ تاجروں کے بھیس میں جاسوسوں کو بھیجا گیا تھا۔

ینال خان علا الدین خوارزم شاہ کی انتہائی با اثر والدہ ترکان خاتون کا قریبی عزیز تھا، اِس لیے اپنے خلاف کسی بھی کار روائی سے بے خوف تھا۔ علا الدین کو جب اس واقعے کی اطلاع دی گئی تو اس نے کہا جاسوس کی سزا تو موت ہے۔ تب ینال خان نے وہ قدم اٹھایا جس نے مسلم دنیا کی تاریخ بدل دی۔ اس نے تمام تاجروں کو قتل کر دیا اور اُن کے مال پر قبضہ کر لیا۔

اس قافلے کا ایک رکن کسی نہ کسی طرح بچ کر منگول دارالحکومت قراقرم پہنچ گیا اور چنگیز خان کو واقعے کی اطلاع دی۔ چنگیز چاہتا تو اُسی وقت جنگ کا اعلان کر دیتا، لیکن اس نے صبر کا دامن نہ چھوڑا۔ دو ایلچی علا الدین کے دربار میں بھیجے اور اس واقعے میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔ لیکن علا الدین کا رویہ دیکھیں، اپنی غلطی تسلیم کرنے اور ینال خان کے خلاف قانونی کار روائی کرنے کے بجائے اس نے ایلچیوں کو ہی قتل کر ڈالا۔

یوں پے در پے بھیانک فیصلوں نے طے کر دیا کہ اب خوارزم شاہ کی سلطنت کو چنگیز خانی قہر سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ ہوا بھی یہی، ستمبر 1218ء میں چنگیز نے ڈیڑھ لاکھ کے لشکرِ جرّار کے ساتھ تیان شان کا پہاڑی سلسلہ عبور کیا اور وسطِ ایشیا میں قدم رکھ دیے۔ پھر راستے میں جس نے اطاعت قبول کی، سر جھکا لیا، ہتھیار ڈال دیے، بچ گیا اور جس نے مزاحمت کی، بُری طرح کچلا گیا۔

منگولیا میں بنایا گیا چنگیز خان کا ایک دیو ہیکل مجسمہ

ینال خان کا بھیانک انجام اور بڑھتے چنگیزی قدم

منگول میدانِ جنگ میں

سن 1219ء میں چنگیز اترار پہنچا، بیشتر آبادی کو قتل کر دیا اور بالآخر ینال خان کو بھی پکڑ لیا۔ وہ شخص جس نے چنگیز خان کے غیض و غضب کو دعوت دی تھی، بہت بھیانک طریقے سے قتل کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ کھولتی ہوئی چاندی ینال خان کے حلق میں انڈیل دی گئی تھی۔

اب چنگیز خان کا اگلا قدم بخارا میں تھا۔ فوج اندرونی قلعے میں محصور ہو گئی اور بہت بہادری سے دشمن کا مقابلہ کیا لیکن چنگیز کے سامنے مزاحمت کا مطلب تھا قتلِ عام۔ یہی وجہ تھی کہ 30 ہزار شہریوں نے خفیہ راستوں سے نقل مکانی کی کوشش کی، ناکام ہوئے اور ایک بھی زندہ نہیں بچا۔ جب شہر پر قبضہ ہوا تو صرف دو عمارتوں کو چھوڑا گیا، ایک کلیان مینار جو چنگیز خان کو پسند آ گیا تھا اور دوسری مغاکِ عطار مسجد۔ سامانی مزار اس لیے بچ گیا کیونکہ وہ سیلاب کی زد میں آ کر کیچڑ تلے چھپا ہوا تھا اور صدیوں بعد آثار قدیمہ کی صورت میں برآمد ہوا۔ پھر چنگیز خان سمرقند پہنچا۔ یہاں بھی مختلف فن کے ماہرین کو قیدی بنایا گیا، چند خواتین اور بچوں کو غلام بنا کر باقی پوری آبادی کو قتل کر دیا گیا۔

منگول، تباہی کی ایک داستان

منگولوں کا خطرناک ترین ہتھیار، شہ سوار تیر انداز

عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ چنگیز خان ایک اچانک اٹھنے والا طوفان تھا، جس نے مال و دولت کی خاطر سب کچھ برباد کر دیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پہلا منگول حملہ خوارزم شاہ، اس کے ولی عہد، بیٹوں اور وفاداروں کو پکڑنے کے لیے تھا، یعنی بدلے کے لیے۔

اس صورت حال میں علا الدین خوارزم شاہ کا اپنا طرزِ عمل کیا تھا؟ ایلچیوں کو قتل کر کے کھلا اعلانِ جنگ کیا لیکن ایک بار بھی چنگیز خان کا سامنا نہیں کیا۔ اس کے تعاقب میں منگول قدم جہاں جہاں پہنچے، تباہی کی ایک نئی داستان رقم کر گئے۔ سمرقند و بخارا کے علاوہ ترمذ، خوقند، بلخ، مرو، طوس، نیشاپور سب بُری طرح تباہ کر دیے گئے۔ نیشاپور میں تو ہر جاندار کو قتل کرنے کا حکم تھا کیونکہ اس کے محاصرے کے دوران چنگیز خان کا داماد مارا گیا تھا۔ کھوپڑیوں کے دو بلند و بالا مینار بنائے گئے جس میں انسانوں کے علاوہ مختلف جانوروں کی کھوپڑیاں بھی لگائی گئیں۔

کھوپڑیوں کے مینار، منگول دہشت کی علامت

خوارزم شاہی دارالحکومت گرگانج، جو ایک ہنستا بستا، پھلتا پھولتا شہر تھا، ایسا اجڑا کہ عرصے تک گیدڑوں، الّوؤں اور چیلوں کا مسکن بنا رہا۔

مرو میں ایک اندازے کے مطابق 7 لاکھ افراد کا قتل کیا گیا۔ مُردوں کو بھی نہیں چھوڑاگیا۔ احمد سنجر کے مقبرے کو آگ لگا دی گئی اور قبر کھود ڈالی گئی۔

بلخ اور دیگر شہروں میں چند لوگ کھنڈروں میں پناہ لے کر جانیں بچانے میں کامیاب رہے، لیکن صرف چند دن ہی زندہ رہ پائے کیونکہ ایک اور منگول لشکر آیا اور ان باقی ماندہ لوگوں کا خاتمہ کر دیا۔ ہرات میں صرف 16 لوگ زندہ بچے تھے، جنہوں نے قریبی پہاڑیوں میں چھپ کر جان بچائی۔ تباہی کے بعد جب شہر واپس آئے تو کچھ نہ پایا، یہاں تک کہ آدم خوری پر مجبور ہو گئے۔

منگول سلطنت، چنگیز خان کے دور میں

چوہے بلّی کا کھیل

ان بدترین حالات میں علا الدین بھاگتا رہا، ایک کے بعد دوسرا شہر، گویا زمین اُس پر تنگ ہو گئی۔ بالآخر بحیرۂ قزوین کے ایک جزیرے آبسکون میں پناہ لی اور انتہائی کسمپرسی کی حالت میں مرا۔ جاتے جاتے اس نے جلال الدین کو اپنا جانشیں مقرر کیا۔ وہ قابل بیٹا جسے اس نے اپنی والدہ ترکان خاتون کے دباؤ کی وجہ سے ولی عہد نہیں بنایا تھا۔

تصور کیجیے کہ 21 سالہ نوجوان جلال الدین کے ذہن میں کیا چل رہا ہوگا؟ اس نے پہلے ہی باپ کو منگول لشکر کا سامنا کرنے کی صلاح دی تھی، اب بے یار و مددگار ایک دُور دراز جزیرے پر پڑا تھا۔ چاہتا تو فرار کا راستہ اختیار کر سکتا تھا، لیکن جلال الدین اپنے باپ سے بالکل مختلف تھا۔ وہ واپس آیا، گرگانج پہنچا، نیشاپور گیا، تبریز گیا، لیکن کہیں سے امداد کی کوئی سبیل نظر نہ آئی۔ بالآخر انتہائی خطرہ مول لیا اور منگولوں کی گھیرا بندی توڑتے ہوئے افغان شہر غزنی پہنچ گیا، جہاں ہزاروں وفادار اُس کی آمد کے منتظر تھے۔

Comments

فہد کیہر

فہد کیہر تاریخ کے ایک طالب علم ہیں۔ اردو ویکی پیڈیا پر منتظم کی حیثیت سے تاریخ کے موضوع پر سینکڑوں مضامین لکھ چکے ہیں۔ ترک تاریخ میں خاص دلچسپی رکھتے ہیں۔ ٹوئٹر: @fkehar

Click here to post a comment