صحافت کے بنیادی فرائض میں خلق خدا کو ایسے بحرانوں کی بابت آفت کے نزول سے کافی عرصہ پہلے خبردار رکھنا بھی شامل ہے جو لاکھوں گھرانوں کی زندگی اجاڑ دیتے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیاں اس ضمن میں گزشتہ چند دہائیوں سے خطرے کی گھنٹیاں بجانا شروع ہوگئی تھیں۔
ہمارا روایتی میڈیا ان کی جانب بھرپور توجہ مبذول نہیں کرپایا۔انٹرنیٹ کی بدولت نام نہاد ”سٹیزن جرنلزم“ متعارف ہوا تو مجھ ایسے خوش گماں افراد نے توقع باندھی کہ تجسس کی تڑپ ہمارے چھوٹے قصبات اور دیہات میں آباد نوجوانوں کو اپنے مقامی مسائل لوگوں کے روبرو لانے کو اُکسائے گی۔یہ بھی لیکن ہو نہیں پایا۔فیس بک اور ٹویٹر نے لوگوں کو اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئے گروہوں میں دھکیل دیا۔انسٹاگرام اور ٹک ٹاک چسکہ فروشی کی جانب راغب کرنا شروع ہوگئے۔سوشل میڈیا پر چھائے ”اطلاعات“ کے سیلاب نے بتدریج بلکہ ہمیں تلخ حقائق سے قطعی لاتعلق بنادیا ہے۔
چند روز قبل تھوڑی تحقیق کے بعد میں عمران خان صاحب کی بھڑکائی گہماگہمی کو نظرانداز کرتے ہوئے یہ فریاد کرنے کو مجبور ہوا کہ Lumpy Skinنامی وباءنے دودھ دینے والے مویشیوں خاص کر گائے کو اپنا نشانہ بنالیا ہے۔اس مرض کا وائرس ہمارے ہاں راجستھان سے سندھ میں داخل ہوا تھا۔بعدازاں اس کا رُخ پنجاب کی جانب مڑگیا۔ ہمارے ”ڈنگر ڈاکٹر“ مذکورہ مرض کی بروقت تشخیص اور علاج کے ہنر سے آشنا ہی نہیں تھے۔ اپنے تئیں تکے لگاتے رہے۔جو ادویات اور ٹیکے وغیرہ وہ استعمال کرنے کی تلقین کرتے انہیں خریدنا دو تین مویشیوں کے مالک کی بساط سے باہر تھا۔وہ مویشی کو رب کی رضا کے سپرد کرنے کو مجبور ہوا اور اکثر صورتوں میں دودھ کی بدولت رزق فراہم کرنے والے ”کماﺅپوت“ سے محروم ہوگیا۔
ٹھنڈے دل سے تفصیلی غور کے بعد میں یہ دعویٰ کرنے کو مجبور ہوں کہ آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے اور کئی صدیوں سے پاکستان ہی نہیں پورے شمالی بھارت کی غذائی ضروریات پورے کرتے پنجاب کو مذکورہ وبا سے سرکار کی بروقت مداخلت سے بچایا جاسکتا تھا۔ رواں برس کے اپریل سے لیکن وہاں پھیلے سیاسی انتشا ر نے بالآخر ایسے مقام تک پہنچادیا جہاں سرکاری مشینری کامل مفلوج ہوئی نظر آئی۔کئی ہفتوں تک یہ طے ہی نہ ہوپایا کہ پنجاب کے حتمی ”صوبے دار“ حمزہ شہباز شریف ہوں گے یا چودھری پرویز الٰہی۔بالآخر بازی گجرات کے چودھری نے جیت لی تو بہت دیر ہوچکی تھی۔ غذائی بحران پر توجہ مرکوز رکھنے کے بجائے وہ اب مگر عمران خان صاحب کی خوشنودی کے لئے پولیس اور انتظامیہ کے ان سرکردہ افسروں کو ”سبق“ سکھانے کو مجبور ہورہے ہیں جنہیں تحریک انصاف ”امپورٹڈ حکومت“ کے ”فسطائی کارندے“شمار کرتی ہے۔”بدلے کی تڑپ“ نے پنجاب کی سرکاری مشینری کو جنوبی پنجاب میں سیلاب کی پھیلائی تباہ کاریوں کی بابت بھی غافل بنارکھا ہے۔جزیروں میں تبدیل ہوئے دیہات میں محصور گھرانے خود کو شدت سے لاوارث ہوئے محسوس کررہے ہیں۔
سندھ خوش نصیب تھا کہ سیاسی خلفشار سے محفوظ رہا۔ وہاں مگر اب کے برس ریکارڈ ساز بارشیں ہورہی ہیں جو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔ان کی بدولت 20کے قریب اضلاع میں جو تباہی نمودار ہورہی ہے شہری متوسط طبقہ اس کے بارے میں قطعاََ بے خبر ہے۔پیر کی شام میں نے چند سندھی دوستوں سے ٹیلی فون کے ذریعے رابطے کئے۔ان کی بدولت لاڑکانہ اور خیرپور کے ایسے بے شمار دیہاتوں کے بارے میں خبر ملی کہ جہاں گزشتہ آٹھ دنوں سے لوگ اپنے گھروں کی چھتوںپر کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں ۔ان میں سے ایک گاﺅں 525مکانات پر مشتمل تھا۔ان میں سے ایک چوتھائی پانی میں بہہ گئے۔50فیصد کی چھتیں پناہ فراہم کرنے کے قابل نہیں رہیں۔چھ سے آٹھ فٹ پانی میں محصور دیہاتوں میں کھانے پینے کی اشیاءکا حصول ناممکن ہوگیا ہے۔مقامی آبادی اجتماعی طورپر کچھ رقم جمع کرتی ہے۔اسے لے کر چند انسان دوست نوجوان قریبی شہروں میں کسی نہ کسی طرح پہنچ کر زندہ رہنے کے لئے لازمی خوراک کا سامان لارہے ہیں۔غذائی قلت نے مگر منافع خوروں کی ہوس کو مزید سفاک بنادیا ہے۔بارش سے محفوظ رکھنے والے ترپال کی قیمت مثال کے طورپر چار گنا بڑھ چکی ہے جسے خریدنا غریب کسان کے بس سے باہر ہوچکا ہے۔
مجھ جیسے بڑے شہروں میں آباد افراد اندازہ ہی نہیں لگاپارہے کہ فی الوقت لاڑکانہ سے حیدر آباد تک پھیلے وسیع تر علاقوں میں جو افراد سیلاب کے پانی میں گھرے ہوئے ہیں اس گندم سے محروم ہوچکے ہیں جو فصل کٹنے کے بعد انہوں نے بقیہ سال اپنی ضرورت کے لئے ذخیرہ کی تھی۔کئی مقامات پر سرکاری گوداموں میں جمع ہوئے گندم کے ذخیرے بھی سیلاب برد ہوگئے۔سیلابی ریلاگزرجانے کے چند ہی ہفتے کے بعد گندم کا سنگین بحران لہٰذا ہر صورت ہمیں اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔
عمومی حالات میں روس اور یوکرین سے گندم خریدکر ممکنہ بحران کو ٹالا جاسکتا تھا۔ان دو ممالک کے مابین مگر اس وقت خونریز جنگ ہورہی ہے۔ترکی کے صدر کی کاوشوں سے یوکرین میں جمع ہوئی گندم کا محض کچھ حصہ عالمی منڈی تک پہنچانے کی گنجائش نکالی جارہی ہے۔و ہ مگر عالمی طلب کی کماحقہ اندازمیں تشفی نہیں کرسکتا۔ افغانستان کی تقریباََ آدھی آبادی اس کی وجہ سے قحط سالی کا شکار بن سکتی ہے جو اسے پاکستان کی جانب نقل مکانی کو بھی مجبور کرسکتی ہے۔ غذائی قلت کے عالمی سطح پر ابھرتے بحران کے پاکستان جیسے ممالک پر ممکنہ اثرات پر ہم توجہ ہی نہیں دے رہے۔فقط یہ طے کرنے میں مصروف نظر آرہے ہیں کہ شہباز گل صاحب کو ”جنسی تشدد“ کا نشانہ بنایا گیا ہے یا نہیں اور عمران خان صاحب اب کونسا پتہ کھیلیں گے۔ اپنے بدترین دشمن کی بھی ریاستی جبر کی بدولت تذلیل کو میں نے کبھی برداشت نہیں کیا۔
سیاست پر توجہ میری صحافت کا کلیدی موضوع رہی ہے۔اس کے باوجود فریاد کرنے کو مجبور ہوں کہ سرکار اور عمران خان صاحب باہم مل کر فی الوقت تخت یا تختہ والی جنگ کو مو¿خر کرنے کی کوئی راہ نکالیں۔ایسا نہ ہوا تو شدید غربت اور بدحالی کی زد میں آئے پاکستانیوں کی اکثریت ہماری ہر نوع کی اشرافیہ کو اپنا سفاک دشمن قرار دیتے ہوئے سری لنکا جیسے مناظر برپا کرنے کو مجبور ہوجائے گی۔
تبصرہ لکھیے