ہوم << سلمان رشدی اور برطانوی ویزا-محمد فاروق

سلمان رشدی اور برطانوی ویزا-محمد فاروق

۔۔۔۔۔۔۔۔۔وَاللّـٰهُ غَالِبٌ عَلٰٓى اَمْرِهٖ۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔ ۔۔۔وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ ۔۔۔

دوستو!

یہ نوۓ کی دہائی کے شروع کا کوئی سال تھا۔ اس ناچیز کو UK کے کچھ دوستوں نے ورک پرمٹ پر یہاں بلانے کا پروگرام بنایا تھا۔ انٹرویو کے لیے برٹش ہائی کمیشن اسلام آباد پہنچا، تو بظاہر میرے تمام کاغذات قانونی طور پر درست اور مکمل تھے اور ویزا حاصل کرنے میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں تھی۔

مگر:

انٹرویو دینے بیٹھ گیا تو سامنے موجود ایک “فیملی سائز “ خاتون سے واسطہ پڑا۔ میرے اور اس کے درمیان جو سوال و جواب ہوا، وہ آپ بھی سن لیں:

س: “شیطان” ر ش ی دی کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ۔۔؟

ج: میں اسے نہیں جانتا ۔۔ چند دن سے اخبارات میں اس کا نام آرہا ہے ۔

س: اخبارات میں کیا ہے؟

ج: کہا جاتا ہے کہ اس نے کوئی کتاب لکھی ہے جس میں اس نے ہمارے نبی پاک صلم کی توہین کی ہے۔

س: تم اس پر اس کے لیے کیا سزا تجویز کرتے ہو۔۔۔؟

ج: سزا تجویز کرنا میرا کام نہیں۔ میں ایک عام شہری ہوں۔ یہ کام علما اور اسلامی قانون کے ماہرین کا ہے۔

س: اگر اس کو جرم کہا جاۓ اور اس پر اسلامی قانون میں کوئی سزا ہو تو تم اس کے حق میں کیا کہو گے۔۔؟

ج: میں یہ کہونگا کہ جس ملک میں اس نے یہ کتاب لکھی ہے، وہاں یہ معاملہ عدالت میں جانا چاہیے، اگر یہ اس ملک کے قانون کے خلاف ہو تو اس ملک کے قانون کے مطابق اسے سزا ملنی چاہیے۔

س: لیکن کتاب برطانیہ میں لکھی گئی ہے۔ وہاں یہ اظہار راۓ کی آزادی ہے، اس پر کوئی سزا نہیں ۔۔۔۔

ج: تو پھر آپ مجھ سے کیا پوچھنا چاہتی ہیں اور کیوں پوچھتی ہیں ۔۔؟

س: نہیں ! دیکھیں آپ ہمیں یہ صاف طور پر بتا دیں کہ آپ اس معاملے میں کیا راۓ رکھتے ہیں۔

ج: میری صاف راۓ یہ ہے کہ اگر یہ جرم ایک اسلامی ملک میں ہوا ہو، تو اس ملک کو اس پر مقدمہ چلانے کا پورا حق حاصل ہے۔

س: یہ مقدمہ کس نوعیت کا ہوگا؟

ج: ایک عدالت لگے گی، اس میں قانون شریعت کے ماہرین ہونگے۔ اس شخص کو اپنے دفاع کے لیے بہترین وکلا فراہم کیے جائیں گے۔ اس کی کتاب کے ایک ایک حرف کا جائزہ لیا جاۓ گا۔ اس کو اپنی صفائی کا پورا موقع دیا جاۓ گا۔ اگر جرم ثابت نہ ہوا تو اسے رہا کر دیا جاۓ گا ۔۔ اور اگر ثابت ہوا تو اسے سزا ملنی چاہیے۔

س: تم اس عدالتی سزا کے حق میں ہو۔۔؟

ج: جی ہاں بالکل! میں کسی بھی ملک میں اس کے قانون کی خلاف ورزی پر اس کے عدالتی نظام کا یہ حق مانتا ہوں کہ اسے ایک ملزم پر مقدمہ چلانے اور قانون کے مطابق اس کے ساتھ سلوک کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔

س: اگر اسلامی شریعت کی عدالت اسے سزاۓ موت دیتی ہے تو تم کیا کہو گے۔۔؟

ج: میرے خیال میں اگر ایک شرعی عدالت میں اس پر توہین رسالت کا جرم ثابت ہوا، تو میں یہ کہوں گا کہ اسے شریعت کے قانون کے مطابق فوراً ہی سزاۓ موت دے دینی چاہیے۔

اس پر خاتون غصے سے آگ بگولہ ہو گئی ، مگر سفارتی ذمہ داریوں اور انٹرویو کی ریکارڈنگ چلنے کے سبب وہ اس کا اظہار نہیں کر سکتی تھی۔
اس نے بال پوائنٹ سامنے پڑے کاغذ کی شیٹ پر دے مارا، اور مجھے کہا کہ تم جا سکتے ہو۔

“انجام” معلوم تھا، کہ ویزا نہیں ملے گا۔۔ اور نہیں ملا۔۔۔ مگر ضمیر پوری طرح مطمئن تھا۔

ساتھ آۓ ہوۓ باہر بیٹھے ایک ساتھی کی تشویش اور اس راۓ پر کہ” میں مصلحت” سے کام لے سکتا تھا ۔۔۔

جواب دیا؛

اگر مجھے یقین ہوتا کہ کرنے والے یہ لوگ ہیں ۔۔ تو ضرور “مصلحت” سے کام لیتا۔
“کرنے والے” نے چاہا تو ان کا باپ بھی مجھے نہیں روک سکتا۔

حق یہ ہے کہ:
اس خاتون کو خود اس کے ملک کے قانون کے مطابق مجھ سے یہ سوالات پوچھنے کا کوئی حق نہ تھا البتہ قانونی دستاویزات کی کسی کمی بیشی پر بات ہو سکتی تھی۔ لیکن جب ریاست کے “مفاد” کے نام پر استعماری ہوس کا غلبہ ہو جاتا ہے تو ان کے چہروں پر جعلی مسکراہٹ اور قانون پسندی کے جھوٹے دعوؤں کا پول کھلنے میں دیر نہیں لگتی۔

آپ سوال کریں گے کہ:

میری طرف سے اس خاتون کے ساتھ اس گفتگو کو طول دینے کی وجہ کیا تھی۔۔؟

میں کسی صورت اس کو اس بات کا احساس دلانا نہیں چاہتا تھا کہ ہم مسلمان قوم بس ایک جذباتی قوم ہیں اور ہمارے لیے قانون و تہذیب جیسے الفاظ بے معنی ہیں۔
میں نے بتانا تھا کہ ہم اپنے نبی پاک صلم کے دشمن اور توہین کرنے والے سے بھی وہ سلوک کرتے ہیں جس کا حکم ہمیں خود اس رسول صلم کی شریعت دیتی ہے۔ ہم محبت میں بھی اللہ کے رسول کی شریعت کو نظر انداز کرکے انصاف کے تقاضے پامال نہیں کر سکتے۔

آج یہ ناچیز:

اسی ریاست کا قانونی شہری ہے جس نے محض شک کی بنیاد پر مجھ جیسے ہزاروں لوگوں کو روکنے کے لیے ریاست کی پوری مشنری متحرک کی تھی۔ یہ عام ریاست نہیں، دنیا کی ایک سابقہ سپر پاور بھی تھی۔ اس نے ایک شخص کے تحفظ کی خاطر خود اپنے قانون کی دھجیاں اڑائیں۔

لیکن جس کو بچانے کا اہتمام تھا:

اسے اللہ نے ایک دوسرے اور وقت کے موجودہ سپر پاور میں پہنچا کر عین اس کے قلب میں اپنے انجام تک پہنچایا۔ اب وہ موت و حیات کی کشمکش میں پڑا ہے۔

كَتَبَ ٱللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا۠ وَرُسُلِىٓ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ قَوِىٌّ عَزِيزٌ

فعتبرو یا اولی ابصار !

جس کا خوف تھا۔۔۔ اور جس کو نہ ہونے کی گارنٹی پوری استعماری طاقت نے دی تھی، وہی ہوکر رہا۔

وَاللّـٰهُ غَالِبٌ عَلٰٓى اَمْرِهٖ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ

دوستو! غور کرو تو کیا یہ واقعات ایمان بالغیب سے ایمان بالشہادہ تک پہنچانے والے نہیں ۔۔؟

Comments

Click here to post a comment