ہوم << قائم علی شاہ سے پرویز خٹک تک- نجم ولی خان

قائم علی شاہ سے پرویز خٹک تک- نجم ولی خان

najam description
کہتے ہیں،میں لاہور میں بیٹھ کر کراچی ، پشاور اور کوئٹہ بارے بات کروں تو یہ صوبائیت کا فروغ اور پاکستانیت کی نفی ہے لیکن اگر وہا ں سے لاہور کی طرف انگلیاں اٹھائی جائیں تو یہ ان کا حق بھی ہے اور فرض بھی، میرا خیال تھا کہ سوشل میڈیا کے آنے کے بعد کتابی نوعیت کی حب الوطنی ختم ہو گی اوروطن سے محبت کا حقیقی تصور اجاگر ہو گا، وہ تصور جس میں زمین کے ساتھ ساتھ زمین پر رہنے والے بھی اہم ہیں۔
یہ سندھ والوں کا فیصلہ تھا کہ انہوں نے بھٹو کے خون کے قرض کی ایک اور قسط پچھلے الیکشن میں چکانی تھی سو انہوں نے تیر پر مہریں لگاتے ہوئے چکا دی مگر قائم علی شاہ کوان پر مسلط کرنے کا فیصلہ سوفیصد پیپلز پارٹی کی قیادت کا تھا، میں یقینی طور پر ان کے بارے بہت زیادہ نہیں جانتا مگر اتنا ضرور جانتا ہوں کہ قائم علی شاہ ضعیف بھی ہیں اوربھول جانے کے مرض میں مبتلا بھی ، موجودہ دور میں بیڈ گورننس کی علامت بھی، قائم علی شاہ کو تبدیل کرنے کے فیصلے کا کریڈٹ نوجوان بلاول بھٹو زرداری کو دیا جا رہا ہے ۔ اس فیصلے کے پیچھے مجھے سندھ میں بیڈ گورننس کے ساتھ ساتھ آزاد کشمیر کے انتخابی نتائج بھی نظر آ رہے ہیں۔ میڈیا کے اس دور میں آپ کے اس صوبوں کی حکمرانی ایک دکان کی طرح ہے جہاں آپ اپنی محنت اورکامیابی کے امپریشن کا سٹاک دوسرے صوبوں میں بیچ سکتے ہیں جہاں آپ کی سیاسی دکان پر زیادہ گاہک نہیں ہیں۔
پنجاب کے مقابلے میں سندھ اور خیبرپختونخواہ کی حکومتی سیاسی دکانیں اپنا اپنا مال بیچنے میں کچھ زیادہ کامیاب نہیں ہوپا رہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا پیپلزپارٹی اس تبدیلی کے ذریعے اس سیاسی ڈھلوان کے آگے مراد علی شاہ یا صوبے کے کسی بھی دوسرے چیف ایگزیکٹو کی صورت میں ایک پتھر رکھنے میں کامیاب ہوجائے گی؟ وہ مقبولیت کے غبارے سے تیزی سے نکلتی ہوئی ہوا کو دوبارہ بھر پائے گی اور اپنی سیاسی پتنگ دوبارہ اڑا پائے گی۔ اس وقت تاثر یہ ہے کہ سندھ میں بھی تمام میگا پراجیکٹس چاہے وہ پبلک ٹرانسپورٹ کی صورت ہوں یا موٹرویزکی تعمیر کی صورت، ان کاکریڈٹ مسلم لیگ نون کی مرکزی قیادت کو جا رہا ہے اور دوسری طرف پنجاب میں جدت اور ترقی کا پروپیگنڈہ بھی چھوٹے صوبوں کے عوام کو اپنی اپنی حکمران جماعتوں سے بے زار کر رہا ہے۔ میں پنجاب میں مسائل سے انکار نہیں کرتا۔ یقینی طور پر یہاں بھی عوام کو صحت ، تعلیم اور امن و امان کے بہت سارے مسائل درپیش ہیں مگرفرق حل کے لئے کی جانے والی کوششوں میں ہے ۔
ابھی چند روز پہلے بتایا گیا کہ پنجاب بھر سے چھ سو جبکہ صرف لاہور سے تین سو سے ز یادہ بچے اغوا ہوئے۔ مجھے کہنے میں عار نہیں کہ جوں ہی وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف وطن واپس پہنچیں گے وہ ان وارداتوں کی روک تھام کے لئے کام شروع کر دیں گے مگر کیا دوسرے صوبوں میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ واسا میں ذمہ داریاں ادا کرنے والے ایک رکن پنجاب اسمبلی نے مجھے بتایا کہ جس وقت الیکٹرانک میڈیا پر کوئی ٹیکر چل جاتا ہے یا پرنٹ میڈیامیں کوئی خبر شائع ہوجاتی ہے، ان کی مصیبت آجاتی ہے، وہ اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھ سکتے جب تک وہ اس کا ازالہ نہ کرلیں کہ اس کارکردگی کی مانیٹرنگ براہ راست وزیراعلیٰ پنجاب اور ان کا سیکرٹریٹ کر رہاہوتاہے۔
تعلیم پر’ الف اعلان ‘کی رپورٹ آ چکی،ڈبل ون ڈبل ٹو کا میں نے خود جا کر سارا عمل دیکھا، لاہور ہائیکورٹ کے نئے چیف جسٹس مسٹر جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا ہے کہ وہ لاہور ہائیکورٹ اور ماتحت عدالتی نظام کو دوسرے صوبوں کے لئے ایک مثال بنا دیں گے۔ مجھے ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پنجاب بار کونسل کے عہدے داروں نے غیر رسمی گپ شپ میں بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ مقدموں کے تمام تر بوجھ کے باوجود اس وقت دوسرے صوبوں سے کہیں زیادہ بہترپرفارم کر رہی ہے۔ پنجاب میں بڑی سڑکوں کی تعمیر اور ٹرانسپورٹ کے نظام میں تیزی کے ساتھ آنے والی بہتری پر تو تبصرہ بھی غیر ضروری ہے اور جب یہ پیغامات دوسرے صوبوں میں جاتے ہیں تو وہاں احساس محرومی پیدا ہوتا ہے، اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں کا احساس محرومی بھی ان کی اپنی قیادت کا پیدا کردہ ہے۔ میں اپنے پورے ایمان اور یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ میں پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کو بھی مضبوط جماعتوں کے طور پر دیکھنا چاہتا ہوں۔
کسی بھی جمہوری نظام میں حکمرانوں کو درست راہ پررکھنے کے لئے مضبوط اپوزیشن از حد ضروری ہے لیکن اگر اپوزیشن کی جماعتیں اپنے اپنے صوبوں میں گڈ گورننس اورخدمت کی سیاست کو فروغ نہیں دیں گی تو وہ کمزور ہوتی چلی جائیں گی۔ ایک طرف ہمارے سامنے قائم علی شاہ کی حکمرانی کا ماڈل ہے تو دوسری طرف پرویز خٹک ہیں جنہوں نے حال ہی میں اپنی ناکامی کا اعتراف کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان صاحب جس قسم کی تبدیلی چاہتے ہیں اور نوے دنوں کی قلیل مدت میں جس قسم کی تبدیلی لانے کے وعدے کئے گئے اس کے لئے تو پانچ برس بھی تھوڑے ہیں۔ میرے خیال میں پرویز خٹک نے اس قسم کا بیان دے کر اپنی حکومت اور جماعت دونوں کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ وہ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ جس قسم کی تبدیلی وہ لانا چاہتے ہیں وہ اگر دس برسوں میں آئے گی تو اس کے لئے وہ آدھا کام اسی مدت میں پوراکر لیں گے،سیاست میں امیدکا قائم رہنا سب سے اہم ہوتا ہے۔ امید رہتی تو میرے پختون بھائی ہر مرتبہ الیکشن میں تبدیلی کی روایت تبدیل کر دیتے مگر سیاستدانوں کی طرف سے ناکام ہوجانے کا اعتراف ان کے لئے حقیقی ناکامی سے بھی بڑا المیہ ثابت ہوسکتا ہے۔
مجھے یہ تسلیم کرنے میں بھی عار نہیں کہ ہمارے چھوٹے صوبوں میں آبادی کم ہونے کے باوجود ماضی کی کمیوں اور کوتاہیوں کے باعث حکمرانی اور گورننس کے مسائل کہیں زیادہ ہو چکے ہیں۔ میرے ان صوبوں میں اسٹیبلشمنٹ کے مفادات بھی اپنی جگہ ایک حقیقت کے طور پر موجود ہیں مگر اسے وہاں کی سیاسی جماعتیں کسی کمزوری کی بجائے طاقت کے طور پر بھی لے سکتی ہیں کہ اس وقت ایک لڑائی وسائل کے حصول کی ہے اور جب آپ وسائل حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ان کے استعمال کا چیلنج آپ کے سامنے آ جاتا ہے۔ کیا یہ دلچسپ امر نہیں کہ وسائل کے درست یا غلط استعمال سے کہیں پہلے ان کے استعمال ہونے کا چیلنج ہے۔ میں مان لیتا ہوں کہ پنجاب میں وسائل کے استعمال کے حوالے سے حکمرانوں کی ترجیحات درست نہیں ہیں مگرآپ کو بھی ماننا پڑے گا کہ غلط ترجیح پر استعمال ہونے والے وسائل بہر حال ان وسائل سے کہیں زیادہ بہتر ہیں جو نااہلی کی وجہ سے استعمال ہی نہ ہو پائیں۔
سندھ اور خیبرپختونخواہ کے مسائل میں کافی فرق ہے، سندھ کی سیاسی قیادت اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی برسرپیکار ہے مگر خیبرپختونخواہ کے حکمرانوں کو یہ مسئلہ بھی درپیش نہیں، وہ بہترین ورکنگ ریلیشن شپ کے ذریعے اپنے صوبے کے عوام کے لئے زیادہ سے زیادہ کام کر سکتے ہیں۔ سندھ والوں کے لئے مجھے کہنے دیں کہ انہیں پنجاب کا ماڈل ہی اپنا نا پڑے گا اور اسے وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کا ماڈل بھی کہہ سکتے ہیں جنہوں نے ایک سے زائد مرتبہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت کے ذریعے حکمرانی حاصل کی ۔ ضرورت اسی امر کی ہے کہ بے جاتصادم کی پالیسی سے گریز کرتے ہوئے امن و امان کو یقینی بنایا جائے، سیاست سے تشدد کے عنصر کو باہر نکالا جائے اوراصل توجہ ترقیاتی کاموں کی طرف دی جائے۔میں بوجوہ یہاں بلوچستان کو ڈسکس نہیں کر رہا کہ وہ اپنی جگہ پر ایک علیحدہ اور مکمل موضوع ہے۔سندھ میں بلاول بھٹو زرداری سیاست اور حکومت کا ماڈل تبدیل کرنا چاہ رہے ہیں ۔ سندھ کے عوامی کے مسائل کے حل کے لئے میں ان کے لئے دعا گو ہوں مگر اس کے لئے انہیں پیپلزپارٹی کا پورا ڈھانچہ اور تاثرہی تبدیل کرنا ہوگا۔ اب وقت تیزی سے معجزے دکھانے والے سیاسی رہنماؤں کے درمیان مقابلے کا ہے۔ مصدقہ ہونے کے دعووں کے ساتھ اطلاعات تو موجود ہیں مگر کیا عمران خان خیبرپختونخواہ میں ناکامی کا اعتراف کرنے والے پرویز خٹک کو بھی تبدیل کرنے جا رہے ہیں، میرا خیال ہے کہ مجھے اس سوال کے جواب کے لئے بہت زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔