میاں چنوں کے نواحی گاؤں کا رہائشی محمد اشرف مستری کا کام کرتا تھا۔۔۔ اپنے بڑے سے کنبے کا پیٹ پالنے کے لیے اسے دوسرے ساتھیوں سے زیادہ محنت کرنا پڑتی ۔۔۔ اسے نیزہ بازی دیکھنے کا شوق تھا اور وہ اکثر کام سے واپسی پر گھوڑ دوڑ میدان میں گھڑ سواری اور نیزہ بازی کے مقابلے دیکھنے کے لیے رک جاتا ۔۔۔ اسکا سکول جاتا منجھلا بیٹا بھی کبھی ساتھ ہوتا ۔۔ اسکا ڈیل ڈول اور قد شروع سے ہی نمایاں تھا ۔۔باپ کے شوق کو دیکھتے ہوۓ ننھے ارشد نے عزم کیا کہ وہ بھی ایک روز نیزہ باز بنے گا ۔۔ گورنمنٹ ہائی اسکول کے پی ٹی ماسٹر کی ذاتی کوشش سے لاہور سے ایک Javelin منگوایا گیا اور چھٹی جماعت کا طالب علم ارشد روزانہ مشق کے لئے جانے لگا ۔۔اس کے والد کے وسائل محدود تھے ، محض پانچ سو روپے روزانہ کی آمدن میں بمشکل گھر کا چولہا جلتا ۔۔ مگر وہ تعطیل کے روز اوورٹائم لگاتا اسکی والدہ گھروں کے کپڑے سیتی اور اسکے لئے گوشت۔ دودھ اور دیسی گھی کا انتظام ہوتا ۔ یوں چند برسوں میں وہ 50 میٹر تک نیزہ پھینکنے میں کامیاب ہوگیا اور ملتان ڈویژن کا چمپیئن بنا۔۔ اور پھر اس کی کامیابی کا نہ ختم ہونے والا سفر اسے بلندیوں تک لے گیا ۔۔ مگر آس کی غیر معمولی کارکردگی کی پزیرائی کسی سطح پر بھی نہ ہو پائی ۔۔۔
سال 2015 میں محض اٹھارہ برس کی عمر میں نیشنل گیمز میں اس نے ستر میٹر سے زیادہ نیزہ پھینکا اور مقابلہ جیت لیا ۔۔ یوں اولمپک کمیٹی کے ممبر اور سابقہ ایشیائی چیمپئن ارشد بخاری کی نظر اس پر پڑی اور انکی کوششوں سے اسے بمشکل تمام واپڈا میں جونیئر سطح کی ملازمت ملی گئی۔۔ نیزہ بازی میں طاقت۔ ٹریننگ اور تکنیک کا حسین امتزاج کسی بھی چمپیئن کیلئے لازم ہے۔۔ اس نے آئندہ تین سالوں میں اسی میٹر تک نیزہ پھینکا اور ہہت سے بین الاقوامی مقابلے اپنے نام کئے۔۔ اب اسکا مقابلہ بھارتی چمپیئن نیراج چوپڑہ سے جمنا شروع ہوا ۔۔گذشتہ دو برسوں میں ان کا درمیانی فاصلہ چند انچوں میں رہ گیا۔ چوپڑہ کو بھارتی حکومت کی جانب سے پانچ لاکھ روپے ماہانہ وظیفہ دیا جاتا اور اس کے لئے دو غیر ملکی کوچ منگوائے گئے ۔۔ جبکہ ارشد کو واپڈا سے محض چالیس ہزار ملتے ۔۔ ایشین گیمز میں اسے کانسی کا ثمغہ ملا اور اس نے اپنا ورلڈ چیمپئن بننے کا خواب پورا کرنے کے لیے بھرپور محنت جاری رکھی ۔۔۔ نیشنل سپورٹس بورڈ کو بھی بالآخر خیال آگیا اور اس کے لئے غیر ملکی ٹریننگ اور کوچ کا اہتمام کیا گیا ۔۔ اس نے اپنا ریکارڈ اسی میٹر سے بڑھانا شروع کیا اور اس کی دھوم صف اول کے Javelin throwers میں سنائی دینا شروع ہوگئی۔۔۔ اس برس کے آغاز میں اسے کہنی میں انجری ہوگئی اور اس کا علاج جاری تھا۔۔۔اور اسکی دولت مشترکہ گیمز میں شرکت مشکوک ہوگئی ۔۔۔ جولین کے کوچ ارشد بخاری کو بھی قومی دستے میں شامل نہ کیا گیا ۔۔۔ گزشتہ ماہ اس کی طبیعت قدرے بہتر ہوئی اور ارشد آفیشلز کے فیصلے کے خلاف اصرار کرکے برطانیہ جا پہنچا ۔۔۔ زخمی کہنی کے ساتھ اس نے نوے میٹر سے زیادہ دور نیزہ پھنک کر ورلڈ ریکارڈ اور دولت مشترکہ گیمز کا ریکارڈ توڑ دیا اور طلائی تمغہ قوم کے نام کردیا ۔۔۔۔مقام آفرین ہے ۔۔۔
ارشد ندیم ۔۔۔تم نے قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا ۔۔۔ اللہ تمہیں اس سے بھی زیادہ بامراد کرے۔۔۔
ہمارا قومی المیہ ہے کہ ہمارے اچھے کھلاڑی ماسوا کرکٹ کے کسی اور کھیل کی جانب مائل ہی نہیں ہوتے۔۔۔ بہت سے گولڈ میڈلسٹ تن ساز اور پہلوان محنت مزدوری میں اپنے بقیہ ایام گزار دیتے ہیں ۔۔۔جبکہ اوسط درجے کا ایک کرکٹر اپنے کیریئر کے دوران تیس ۔ چالیس کروڑ کما لیتا ہے ۔۔۔ ہمارے حکومتی اداروں کے لئے ارشد ندیم کی کہانی eye opener ہے کہ کیسے ایک محنت کش کا بچہ اپنے جذبہ جنوں اور محنت کے بل پر کھیل کی دنیا میں اپنا جھنڈا گاڑتا ہے اور پوری قوم کا سر فخر سے بلند کرتا۔ہے۔۔۔ ارشد ندیم زندہ باد ۔۔۔پاکستان پائندہ باد
تبصرہ لکھیے