ہوم << بابا فرید الدین مسعود گنج شکر- ظہور دھریجہ

بابا فرید الدین مسعود گنج شکر- ظہور دھریجہ

حضرت بابا فرید الدین گنج شکر ؒکا اصل نام مسعو د اور لقب فرید الدین ہے۔ بابا فریدالدین ؒملتان کے قصبے کوٹھے وال میں پیدا ہوئے ، آپ کی ولادت 589ھ میں اور وصال 666ھ میں ہوا۔ آپ کے والدمحترم کا نام قاضی جلال الدین اور والدہ محترمہ کا نام قرسم خاتون ہے ۔

بابا فریدؒ پانچ سال کی عمر میں یتیم ہو گئے تھے، آپ کا شمار برصغیر کے ان مشہور بزرگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اسلام کی شمع جلائی ۔ آپ گنج شکر کے لقب سے مشہور ہیں۔ ایک روایت ہے کہ بابا فرید الدین دریائے ستلج کنارے عبادت میں مشغول تھے کہ ایک سوداگر بیلوں پر شکر لادے فروخت کے لئے دہلی جا رہا تھا، آپ نے اس سے پوچھا کہ میاں کیا لے کر جا رہے ہو؟ سو د اگر نے یہ سوچ کر جھوٹ بول دیا کہ کہیں بزرگ شکر نہ مانگ لیں، کہا کہ نمک ہے، بابا فرید الدین نے فرمایا کہ اللہ تمہارے نمک میں اضافہ فرمائے۔ جب سود اگر اپنی شکر لے کر منڈی پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ شکر کی بجائے سب نمک تھا۔

سود اگر بہت شرمندہ ہوا، بابا فریدؒ کے پاس آیا اور معافی مانگی، آپ نے دعا کی اور نمک پھر شکر بن گیا، اس روز سے آپ کا لقب گنج شکر ہے۔ حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ کے 780 ویں عرس کی تقریبات پاکپتن میں جاری ہیں، عرس میں شرکت کیلئے کراچی سے خیبر تک لاکھوں لوگ پہنچ رہے ہیں۔ عرس کی رسومات میں سے سب بڑی رسم بہشتی دروازہ کھولنا ہے، بہشتی دروازہ دس محرم تک کھلا رہتا ہے، اس دوران تقریباً دس لاکھ سے زائد افراد اس دروازے سے گزرتے ہیں۔ عرس کیلئے سکیورٹی کے بھی سخت ترین انتظامات کئے گئے ہیں، زائرین کو واک تھرو گیٹ سے گزار کر جامعہ تلاشی کے بعد احاطہ دربار میں جانے کی اجازت ہے۔ سابق وزیراعظم چیئرمین تحریک انصاف عمران خان ، سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کے ہمراہ عرس حضرت بابا فرید الدینؒ کی تقریبات میں شرکت اور حاضری کے لیے پاکپتن پہنچے۔

عمران خان نے مزار شریف پر حاضری دی ،ملک کی سلامتی خوشحالی اور امن و امان کے لئے خصوصی دعا کی ، سابق وزیراعظم عمران خان نے نوافل بھی ادا کیے۔ گزشتہ سال بابا فریدؒ کے عرس پر سابق وزیراعلیٰ سردار عثمان خان بزدار نے اعلان کیا تھا کہ پاکپتن میں بابا فرید یونیورسٹی بنائی جائے گی ، یونیورسٹی کی منظوری کے ساتھ بجٹ میں پچاس ملین کے فنڈز بھی مختص ہوئے مگر اس پر کام شروع نہ کیا جا سکا۔ چوہدری پرویز الٰہی اور بعد ازاں میاں شہباز شریف کے دور میں بابا گرو نانک یونیورسٹی اور لاہور امرتسر موٹر وے کا اعلان ہوا تو میں نے لکھا کہ بابا گرو نانک یونیورسٹی کے قیام پر اعتراض نہیں مگر اس سے پہلے بابا فرید الدین گنج شکرؒ کے نام سے پاکپتن میں یونیورسٹی ہونی چاہئے ۔ اب چونکہ پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت دوبارہ برسراقتدار آ گئی ہے توان کے لئے اعلان شدہ بابا فرید یونیورسٹی کا قیام کوئی مشکل کام نہیں ہے، تاریخی حوالے سے یہ بات قابل فخر ہے کہ بابا گرو نانک جو کہ سکھوں کے پیشوا ہیںہمارے صوفی بزرگ حضرت بابا فریدؒ کے عقیدت مند ہیں۔

سکھوں کی مذہبی کتاب گرنتھ صاحب میں بابا فرید کے اشلوک بھی شامل ہیں اور مشرقی پنجاب کے نصاب کا حصہ ہیں ، بابا فرید کی تعلیمات کو پاکستان میں بھی ایسا ہی ہونا چاہئے۔ یہ بھی عرض کروں کہ پاکپتن کا قدیم نام اجودھن تھا جسے بابا فرید الدین گنج شکرؒ نے پاکپتن بنا دیا ۔ یہ پتن دریائے ستلج کے کنارے تھا اور حضرت بابا فریدؒ کے زمانے میں دریائے ستلج کی جوانی تھی ، اس پتن کی اپنی شان اور اپنی آن تھی ، پاک پتن کی اہمیت اس لحاظ سے بھی بہت زیادہ تھی کہ ملتان سے دہلی تک جانے والی عظیم شاہراہ پاکپتن سے گزر کر جاتی تھی مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ قیام پاکستان کے بعد نہ صرف یہ کہ یہ عظیم شاہراہ بند ہوئی بلکہ سندھ طاس معاہدے کے بعد دریائے ستلج بھارت کے پاس چلا گیا ، گویا دوسرے لفظوں میں ستلج کو قتل کیا گیا ، جس سے پاک پتن اب صرف نام کا پاک پتن ہے اور ستلج کے ختم ہونے سے پوری تہذیب ہی ختم ہو گئی .

اور چولستان میں ایک اور چولستان وجود میں آ رہا ہے جس پر عنان اقتدار کی فوری توجہ درکار ہے۔ میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ قیام پاکستان سے پہلے سمہ سٹہ تا دہلی براستہ امروکہ بٹھنڈہ بہت بڑا ریلوے روٹ تھا اور یہاں سے چلنے والی پسنجر و گڈز ٹرینوں کی تعداد دوسرے روٹوں سے کہیں زیادہ تھی اور بہاولنگر اس روٹ کا بہت بڑا اسٹیشن اور تجارت کا بہت بڑا مرکز تھا ۔ بہاولنگر کا ریلوے اسٹیشن اتنا وسیع اور خوبصورت تھا کہ سیاح محض اسے دیکھنے کیلئے آتے تھے ۔ مگر قیام پاکستان کے بعد امروکہ بٹھنڈہ روٹ بند ہونے سے سب کچھ اجڑ گیا ۔ آج اگر اس سٹیشن کی زبوں حالی اور بربادی کا نظارہ کیا جاتا ہے تو سنگدل سے سنگدل آدمی کی آنکھوں میں بھی آنسو آ جاتے ہیں ۔

دوسری جانب اپر پنجاب میں بہاولنگر سے کم حیثیت کے شہروں کو بہت زیادہ ترقی دے دی گئی ۔یہ 21ویں صدی ہے ‘ڈیجیٹل دور ہے ، نئے مکالمے اور نئے بیانیے کی ضرورت ہے اور حکمرانوں کو ان علاقوں کی طرف لازمی توجہ دینا ہوگی جو قیام پاکستان کے بعد ترقی معکوس کا شکار ہوئے ۔ پاکپتن میں اعلان شدہ بابا فرید یونیورسٹی کے قیام کیلئے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے ، یونیورسٹی کا کام انہی خطوط پر ہونا چاہئے جس طرح کہ رحیم یارخان میں خواجہ فرید یونیورسٹی ہنگامی بنیادوں پر بنائی گئی ، اس کے ساتھ پاکپتن کے دیگر مسائل کو بھی حل ہونا چاہئے کہ لاہور کراچی براستہ پاکپتن صرف ایک ٹرین فرید ایکسپریس چلتی ہے ، ٹرینوں کی تعداد بڑھانے کی ضرورت ہے اور سی پیک سے پاکپتن ، بہاولنگر، وہاڑی اور بہاولپور کو محروم کیا گیا ہے ، ضروری ہے کہ ان شہروں کو سی پیک سے لنک اپ کیا جائے .

ان علاقوں میں ٹیکس فری انڈسٹریل زون بنائے جائیں اور جس طرح یہ علاقے تہذیبی، ثقافتی اور جغرافیائی لحاظ سے ہمیشہ وسیب کا حصہ رہے ہیں، لہٰذا ضروری ہے کہ ان تمام علاقوں کو وسیب سے الگ نہ کیا جائے اور وسیب کے علاقوں پر مشتمل مجوزہ صوبے کا ہی حصہ رہنے دیا جائے،اس سے جغرافیائی وحدت کے ساتھ ساتھ قدیم تہذیبی و ثقافتی یگانگت بھی برقرار رہے گی اور اس سے ملتان کے قصبے کوٹھے والا میں پیدا ہونے والے حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ کی روح بھی یقینا خوش ہوگی ۔

Comments

Click here to post a comment