اگر کوئی انسان بیمار نہیں پڑتا تو اس میں کچھ کمی ضرور ہے ورنہ وہ انسان ہی کیا جو زندہ ہو اور بیمار نہ ہو چنانچہ میں جب کبھی بیمار پڑتا ہوں تو مجھے یقین ہو جاتا ہے کہ میں زندہ اور بخیروعافیت ہوں۔ گزشتہ دنوں میں ایک اسپتال میں تھا جہاں مجھے ایک وہیل چیئر پر بٹھا دیا گیا مجھے بڑا لطف آیا کہ میں ایک کرسی پر سوار ہوں اور میرے جیسے انسان اس کرسی کو چلا رہے ہیں لیکن جب اسی دوران یہ کرسی کسی چیز سے ٹکرائی اور میرے انگوٹھے کا ناخن اس کی زد میں آ گیا اور اپنے مرکز سے ہل جل گیا جیسے ان دنوں کئی سیاستدان اپنے اپنے مرکز سے ہلے ہوئے ہیں کبھی ایک جماعت میں دکھائی دیتے ہیں تو کبھی کسی دوسری جماعت میں، انھیں اب تک معلوم نہیں کہ ’منزل ہے کہاں تیری اے لالہ صحرائی‘۔ اسی طرح میرا ناخن بھی اپنے مرکز سے ہل گیا اور اب تک اسے معلوم نہیں کہ وہ کس باغ کا بوٹا ہے۔
میں اس بات کو اپنے سیاستدانوں تک لے جا سکتا ہوں اور قارئین کو پریشان نہیں کرتا بلکہ انھیں بتاتا ہوں کہ ان کے لیڈر کیا ہیں اور کیا تھے۔ وہ کس باغ کی بوٹی ہیں اور اب کس باغ میں پرورش پا رہے ہیں۔ مرحوم و مغفور نوابزادہ نصراللہ خان فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے اکثر سیاست دان فوج کے گملے میں پیدا ہوتے ہیں اور اب تک اسی باغ میں ہیں جہاں ان کا یہ گملا جڑ پکڑ چکا ہے۔
ہماری پیپلز پارٹی والے شاید برا منائیں کہ ان کا لیڈر بھی فوج کے گملے کی پیداوار تھا اور اس نے اسی گملے میں ابتدائی پرورش پائی تھی اور پھر بعد میں بھی اسی گملے کی آب و ہوا میں جوان ہوا اور اپنے اس پیدائشی گملے کے محافظ کی جان کا دشمن بن گیا۔ اپنے فوجی محافظ کو ایک آسمانی مخلوق قرار دینے والے نے اسے زمین پر پٹخ دیا لیکن وہ کپڑے جھاڑ کر اٹھا اور چپکے سے گھر چلا گیا جہاں اس کا وہ تاریخی بستر اس کے انتظار میں تھا جہاں سے اٹھ کر وہ کبھی اسلام آباد سے چین گیا تھا اور پھر عوامی جمہوریہ چین اور پاکستان کے درمیان محبت اور تعلقات کا ایک ایسا سلسلہ قائم ہوا جو اب تک چل رہا ہے ایک اٹوٹ سلسلہ۔ ہمارے بعض پاکستانی لیڈروں نے اسے توڑنے پھوڑنے کی بار بار کوشش کی مگر بھٹو اور چواین لائی نے اس سلسلے کو ایسی مضبوطی کے ساتھ باندھا تھا کہ یہ خود بھٹو کے ساتھیوں سے بھی ٹوٹ نہ سکا۔ پاکستان اور چین کے تعلقات کی کہانی ایک مثال ہے جو اس خود غرض دنیا نے پہلی بار دیکھی ہے اور یہ عوامی جمہوریہ چین اور اب اسلامی جمہوریہ پاکستان کی رگ و پے میں اتر چکی ہے۔
تعجب کیا جاتا ہے کہ عوامی جمہوریہ چین کے سیکولرازم اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اسلام ازم میں یہ رشتہ کیسے بندھ گیا اور پھر اسے دونوں ملکوں کے عوام کے خلوص اور نیک نیتی نے ایسے جکڑ دیا کہ یہ دنیا بھر میں ایک مثال بن گیا۔ چین دشمن امریکا نے اپنے پاکستانی ایجنٹوں کے ذریعے پوری کوشش کی مگر امریکا تعلق کی اس عمارت کی ایک اینٹ بھی نہ ہلا سکا جس میں چینی اور پاکستانی عوام کے خلوص اور محبت کے خون کی آمیزش تھی اور جس کی رگوں میں خون اتر چکا تھا۔
بات فوج کی ہو رہی تھی جس کے گملوں میں ہمارے سیاستدانوں کی سیاست نے پرورش پائی لیکن اس وقت میں ذاتی بات کر رہا ہوں کہ میرے پاؤں کا انگوٹھا اپنے مرکز سے ہل گیا ہے اور اس وقت خود اسے بھی معلوم نہیں کہ وہ پاؤں کے کس مرکز میں تھا اور اب کہاں ہے۔ اس انگوٹھے پر پٹی ایسی کس کر باندھ دی گئی ہے کہ بقول پٹی ساز کے اب ہلے گا نہیں لیکن میں نے عرض کیا کہ یہ اگر ہلا نہیں تو واپس کیسے جائے گا جہاں کا وہ جم پل ہے اور جہاں اس نے ایک عمر گزار دی ہے۔ بہر کیف مجھ سے زیادہ سمجھدار میرا وہ باورچی ہے جس نے مجھے تسلی دیتے ہوئے کہا ہے کہ آپ ہاتھ کی انگلیوں سے لکھتے ہیں پاؤں کے انگوٹھے سے نہیں اس لیے متفکر نہ ہوں اور آپ کی وجہ سے ہماری روٹی بھی چلتی رہے گی‘ بس ہماری دعا ہے کہ آپ کے ہاتھوں کی انگلیاں اور دماغ کی توانائیاں سلامت رہیں یہی کافی ہے اور آپ کے پاؤں اپنی حد کے اندر رہیں اور مداخلت نہ کریں۔ ویسے ہمارے ایک ایڈیٹر تھے جو کہتے تھے کہ میں پاؤں کی انگلیوں سے بھی فلاں سے زیادہ بہتر لکھ سکتا ہوں، بدقسمتی سے ایک دن وہ دفتر کی سیڑھیوں سے گر گئے اور ان کے پاؤں زخمی ہو گئے۔ اس کے بعد دفتر میں مشہور ہو گیا کہ اب ایک نئے ایڈیٹر کی ضرورت پڑ گئی ہے جو پاؤں ہاتھوں دونوں کی انگلیوں سے لکھ سکے تاکہ اخبار ایڈیٹر کے کسی حادثے سے محفوظ رہے۔ ایک لطیفہ کہ ہمارے اسی دفتر میں اور کالم نویس ایسے تھے جو لنگڑا کر چلتے تھے۔
ایک دن ایک صاحب ملازمت کے لیے آئے اور دعویٰ کیا کہ وہ ایک کالم نویس ہیں۔ مرحوم عالی رضوی ایڈیٹر تھے انھوں نے ان کی بات غور سے سنی اور کہا کہ آپ مہربانی کر کے چل کر دکھائیں۔ وہ دفتر کے برآمدے میں ایک طرف چل کر دوسری طرف گئے تو عالی صاحب نے کہا معافی چاہتا ہوں ہم صرف کسی لنگڑانے والے کو ہی کالم نویس رکھ سکتے ہیں جب کہ آپ صحیح چل سکتے ہیں۔
قارئین کرام! ان دنوں میں بھی اپنے انگوٹھے کے زخم کی وجہ سے رک رک کر چلتا ہوں اور خدا کرے مجھے بھی کوئی ایسا ایڈیٹر مل جائے جو میری لنگڑاہٹ کی وجہ سے مجھے ملازمت دے دے یا میری ملازمت پکی کر دے۔ یہ ایک نیم بیمار کالم نویس کی کہانی تھی اسے پڑھ لیجیے۔
تبصرہ لکھیے