ہوم << تشریح کی ضرورت ہے- محمد اکرم چوہدری

تشریح کی ضرورت ہے- محمد اکرم چوہدری

فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ آنے کے بعد ملک کے سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ ہوا ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو ایک نیا اور مستقل موضوع ملا ہے۔ صبح سویرے ٹیلیویژن چینلز پر مذہبی پروگراموں کے بعد جیسے جیسے سیاسی جماعتوں کے سینئر افراد، وزراءیا ترجمان جاگتے ہیں باری باری ٹیلیویژن پر آنا شروع کرتے ہیں اور یہ سلسلہ پھر رات تک جاری رہتا ہے۔ یہاں تک کہ مذہبی پروگرام دیکھنے سے دن کا آغاز کرنے والوں یا پھر دوپہر بارہ بجے کے بلیٹن سے دن کا آغاز کرنے والوں سب کی ہمت جواب دے جاتی ہے۔

سیاسی بیان بازی کا یہ سلسلہ کسی ایک جماعت تک محدود نہیں ہے بلکہ قوم کا وقت ضائع کرنے کے اس بڑے منصوبے میں تمام جماعتیں برابر کی شریک ہیں۔ حکمراں جماعت کے لوگ شروع ہوتے ہیں پھر پاکستان تحریکِ انصاف والے جواب دینے آتے ہیں۔ جب پی ٹی آئی کی حکومت تھی اس وقت بھی یہی صورت حال تھی فرق صرف یہ تھا کہ عہدیدار بدل گئے، وزراء بدل گئے ہیں۔ مہنگائی آسمانوں سے باتیں کر رہی ہے لیکن ہر وقت سیاسی بیان بازی چل رہی ہے۔

اب سیاسی حالات مزید خراب ہونے کی توقع ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت حکمران اتحاد کے قائدین کے اجلاس میں مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے اتحادی جماعتوں کو آئندہ اڑتالیس گھنٹوں میں پی ٹی آئی کے خلاف ریفرنس سپریم کورٹ بھیجنے کی ہدایت کی ہے۔ میاں نواز شریف نے یہ رائے بھی دی ہے کہ سپریم کورٹ سے استدعا کی جائے کہ اس ریفرنس کو فل کورٹ سنے۔ یہ فیصلہ بھی ہوا ہے کہ اتحادی جماعتیں متحد ہو کر ملک بھر میں تحریک انصاف کے خلاف جلسے کریں گی، ایم کیو ایم کراچی میں اور پیپلز پارٹی حیدر آباد اور سکھر میں جلسے کریگی۔ پشاور میں پختونخوامیپ اوربی این پی مینگل کوئٹہ، مسلم لیگ ن لاہور ، راولپنڈی اور اسلام آباد میں جلسے کریگی۔ یعنی ملک میں جلسوں کے سوا کوئی اور کام نہیں رہ گیا، حکومت نے باقی سب کام کر لیے ہیں اب باقی بچا ہے تو صرف جلسے ہیں۔ ملک کے ساتھ اس سے بڑا ظلم کیا ہو گا کہ حکومت بھی احتجاج کرتی ہے اپوزیشن بھی مظاہرے کرتی ہے لیکن نہ کوئی پیٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر باہر نکلتا ہے، نہ کوئی اشیاءخوردونوش کی قیمتوں میں روزانہ کی بنیاد پر اضافے کے خلاف باہر نکلتا ہے، نہ ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت اور روپے کی گرتی ہوئی قدر سے کسی کو مسئلہ ہے۔ بس سیاست اور انتشار ہے۔ کیا بیانات سے کسی کا پیٹ بھرتا ہے۔

جہاں تک الیکشن کمیشن کے فیصلے کا تعلق ہے تو بدقسمتی سے سیاست دانوں کو آج تک آئین کی سمجھ ہی نہیں آئی انہیں اب بھی نہیں سمجھ آ رہی کہ ممنوعہ اور فارن فنڈنگ کا مسئلہ کیسے سلجھانا ہے۔ سیاست دان ہر دوسرے دن آئین کی تشریح کے لیے اعلیٰ عدلیہ کے پاس جاتے ہیں۔ کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ اس مرتبہ بھی ریفرنس سے پہلے اس کیس کے آئینی سوالات کے لیے اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کریں۔ آئینی نکات کی مناسب تشریح کے بعد بھی اگر پاکستان تحریکِ انصاف پر جرم ثابت ہوتا ہے تو پھر آئین میں جو سزا لکھی ہے اس میں کسی نرمی کی کوئی ضرورت ہرگز نہیں ہے۔ جب حکومت یہ فیصلہ کر لے کہ فارن یا ممنوعہ فنڈنگ پر سخت ترین سزا کی طرف جانا ہے تو اس سے پہلے اس فیصلے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال پر ضرور غور کرنا چاہیے۔ اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف اس وقت ملک کی مقبول ترین سیاسی جماعت ہے۔

ان کے رجسٹرڈ اراکین کی تعداد ملک کی تمام سیاسی جماعتوں سے کہیں زیادہ ہے، عمران خان ایک سیاسی جماعت کے لیڈر نہیں بلکہ ایک عوامی لیڈر کے طور پر ابھرے ہیں۔ وہ روایتی طریقوں سے نکل کر سیاست کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے کارکنوں کو پکارتے ہیں، اظہار تشکر کے لیے یا پھر احتجاج کی کال دیتے ہیں رات کو دس، گیارہ بجے ملک کے تمام بڑے شہروں میں بڑی تعداد میں پی ٹی آئی کے کارکنان جمع ہوتے ہیں اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کی تقریر سنتے ہیں احتجاج ریکارڈ کرواتے ہیں یا اظہار تشکر کرتے ہیں اور گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ ان سب کارکنان کو لانے کے لیے گاڑیاں کرائے پر نہیں لینا پڑتیں بلکہ یہ سب دیکھتے ہی دیکھتے جمع ہوتے ہیں اور کام کرنے کے بعد بکھر جاتے ہیں۔ اس لیے یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ حکومتیں جب کبھی بڑے فیصلے عوامی منشا اور مرضی کے خلاف کرتی ہیں تو اس کے تباہ کن اثرات سامنے آتے ہیں۔

کیا ملک ایسے حالات کا متحمل ہو سکتا ہے۔ عمران خان کا بیانیہ لوگوں کے دلوں گھر کر چکا ہے۔ اب پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ میں شامل تمام سیاسی جماعتوں کو ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ عمران خان کو برا بھلا کہنے کے بجائے اپنی ساکھ بحال کرنے کے لیے اقدامات اٹھائیں۔ عمران خان کے بیانیے کو غلط ثابت کریں اور لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش کریں کہ جو کچھ عمران خان نے کہا ہے وہ غلط ہے جب تک لوگ نہیں مانیں گے اس وقت تک ہر وہ کام جس سے عمران خان کا راستہ روکنے کی کوشش ہو گی اس کا فائدہ پاکستان تحریکِ انصاف کو ہو گا۔

کیا عمران خان نے فنڈز پاکستان مخالف کام کرنے والی ایجنسیوں سے لیے ہیں، کیا یہ فنڈز ملک کے خلاف استعمال ہوئے ہیں۔ پاکستان میں سینکڑوں سیاسی جماعتوں کے اربوں روپے سالانہ اخراجات ہیں اور ہر دوسری جماعت کو کہیں نہ کہیں سے یا کسی بھی ذریعے سے کوئی مالدار مدد کرتا ہے کیا اس کے خلاف بھی کوئی کارروائی ہو گی، اس مالدار کے ذرائع آمدن پر سوال کون اٹھائے گا، اس کی تحقیقات کون کرے گا۔ متحدہ حکومت اور پاکستان تحریکِ انصاف کو وسیع تر ملکی مفاد میں اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ ہر وقت کسی کے کہنے پر بات چیت کے کیے بیٹھنا مناسب طریقہ نہیں ہے۔

شدید اختلافات کے بعد بھی معاملات بات چیت کے ذریعے ہی بہتر ہوتے ہیں۔ حکومت کوئی بھی فیصلہ کرے گی عوامی سطح پر اس کی شدید مخالفت کی جائے گی۔ عمران خان احتجاج کا اعلان کر چکے ہیں۔ کمزور معیشت میں سیاسی عدم استحکام کب تک برداشت کیا جا سکتا ہے۔

Comments

Click here to post a comment