اورنگ زیب عالمگیر کے بعد جب عظیم الشان مغلیہ سلطنت زوال پذیر ہوئی تو دربار کی راہداریوں میں دو بھائیوں کا عروج شروع ہوا جنہیں تاریخ ’’بادشاہ گر‘‘ کے نام سے یاد کرتی ہے۔ سید برادران، عبداللہ خان اور حسین علی خان جن کا جدِ امجد ابوالعزم، عراق سے ہندوستان آیا اور میرٹھ و سہارنپور کے درمیانی علاقے میں آباد ہو گیا۔
جہاں اس نے بارہ گائوں بسائے، جن کی وجہ سے اس کی نسل کو ’’ساداتِ بارہہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ خاندان محمود غزنوی سے لے کر لودھی خاندان تک ہر دربار میں اہم ترین عہدوں پر فائز رہا۔ یہ اس قدر باصلاحیت افراد تھے کہ مغل بادشاہوں نے بھی انہیں اپنے ساتھ ملا لیا۔ اکبر کے دَور میں سید محمود شاہ بارہہ، مغلیہ فوج کے اہم ترین عہدے پر متمکن ہو گیا۔ اکبر سے لے کر عالمگیر تک ہر دَور میں اس خاندان کے کم از کم تیس سے زیادہ افراد دربار میں عہدے دار ہوا کرتے تھے۔ ان دو بھائیوں نے عالمگیر کی آنکھیں بند ہوتے ہی دِلّی کے تخت کا کنٹرول ایسے اپنے ہاتھ میں لیا کہ پھر جسے چاہا اس پر بٹھایا اور جسے جب چاہا، اُتار دیا۔ اورنگ زیب کے بعد 14 مارچ 1707ء کو اس کے بڑے بیٹے محمد اعظم شاہ کو تاج شاہی پہنایا گیا اور صرف ڈھائی ماہ بعد معزول کر دیا۔ تاریخ میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا، بس اس کا نام اور ہمایوں کے مقبرے میں اس کی قبر ملتی ہے۔ اس کے بعد 19 جون 1707ء کو دوسرے بیٹے قطب الدین محمد معظم کو تخت پر بٹھایا گیا جو بہادر شاہ اوّل اور شاہ عالم کے نام سے مشہور ہوا۔
یہ شراب اور عورتوں کا رسیّا تھا جس کی وجہ سے حکومت کا کاروبار سید برادران کے ہاتھ میں آ گیا۔ دونوں بھائی اس سے بھی اُکتا گئے اور چار سال آٹھ ماہ آٹھ دن کے اقتدار کے بعد اسے فارغ کر دیا اور اس کے بیٹے جہاں دار شاہ کو دِلّی کی بجائے لاہور میں 29 مارچ 1712ء میں تاج پہنایا گیا لیکن صرف گیارہ ماہ 15 دن بعد اسے بھی قتل کر کے ہمایوں کے مقبرے میں ہی دفن کر دیا۔ اس کے بعد مغلیہ سلطنت کا مشہور کردار فرخ سیر انہی دونوں کی طاقت و قوت کے بل بوتے پر بادشاہ بنا۔ لیکن اس نے ازخود طاقتور ہونے کی کوشش شروع کر دی۔ اس نے اجیت سنگھ کو میواڑ کا حکمران بنایا لیکن سید برادران میں سے حسین علی کو اس کے خلاف لشکر دے کر بھیجا اور ساتھ ہی اجیت سنگھ کو خط روانہ کیا کہ اگر وہ حسین علی کو قتل کر دے تو میں تمہیں اعلیٰ منصب عطا کر دوں گا۔ اجیت سنگھ نے لڑنے کی بجائے حسین علی کے ساتھ صلح کر لی۔
اس نے فرخ سیر سے چالاکی کا انتقام یوں لیا کہ ایک دن اچانک اجیت سنگھ لال قلعے پر حملہ آور ہوا اور طویل لڑائی کے بعد فرخ سیر کو محل کے ایک تاریک کمرے میں قید کر دیا گیا۔ اس کی آنکھوں میں سلائیاں پھیر کر اندھا کر دیا گیا۔ فرخ سیر نے اس سے پہلے اپنے تین بھائیوں کی آنکھیں بھی اسی طرح نکالیں تھیں تاکہ بادشاہ نہ بن سکیں۔ بادشاہ کو بچانے کے لئے حیدر آباد کے نظام اور جے پور کے راجہ جے سنگھ نے دھمکیاں بھی بھیجیں لیکن دربار پر قابض سید برادران نہ مانے اور انہوں نے اس کے بیٹے رفیع الدرجات کو تخت ِ طائوس پر بٹھا دیا۔ یہی وہ دَور تھا جب پورے ہندوستان میں مرہٹوں اور سکھوں نے عروج پکڑا۔ سید برادران ان سے بے پروا درباری سازشوں میں مگن رہے اور مغل بادشاہ ان کے سامنے کٹھ پُتلی۔ ایسے میں دکن سے نظام الملک مغل سلطنت کی بقا کے لئے آگے بڑھا۔ اس نے پوری کوشش سے سید برادران کو دربارِ مغلیہ سے فارغ کروایا۔
مگر جب وہ 3 جولائی 1723ء کو عہدۂ وزارت پر متمکن ہوا تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ دربار میں بداعمالی اور رشوت ستانی عام ہے۔ نئے شاہی مقربین نے جاگیروں پر قبضہ کر رکھا ہے۔ قدیم امراء بے روزگاری و افلاس کی زندگی گزار رہے تھے، شاہی خزانے میں افواج اور منصب داروں کو ادا کرنے کے لئے نقد روپیہ موجود نہیں۔ اس نے ایک منصوبہ تیار کیا جس کے تحت اہل لوگ کو منصب دینے، جاگیروں کی ازسرنو تقسیم، رشوت ستانی کا خاتمہ اور اورنگ زیب کی طرح جزیہ کے نفاذ کی تجاویز مرتب کی گئی تھی۔ اس نے تجاویز بادشاہ کو پیش کیں جسے بادشاہ نے درباریوں کے کہنے پر مسترد کر دیا۔ وہ مایوس ہو کر واپس دکن کی سمت روانہ ہو گیا۔
مرہٹے طاقتور ہو رہے تھے ، مالوہ اور گجرات پر قبضہ کر چکے تھے۔ نظام الملک نے 11 اکتوبر 1724ء کو مرہٹہ سردار باجی رائو کیساتھ مل کر دکن کے مغل گورنر مبارزالملک کو شکست دی اور یوں حیدر آباد ایک آزاد مملکت کے طور پر اُبھرا جبکہ دِلّی دربار اپنے زوال کی طرف تیزی سے بڑھنے لگا۔ وہ عظیم عمارت جو کئی سو سال کی محنت سے مغل بادشاہوں نے بنائی تھی، چند سال کی ریشہ دوانیوں اور محلّاتی سازشوں نے زمین بوس کر دی۔ پاکستانی سیاست کی کہانی بھی ایسی ہی محلّاتی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کی کہانی ہے۔ جس طرح سید برادران اپنی محنت ِ شاقہ اور تمام بادشاہوں کو اپنی کارکردگی دکھاتے ہوئے اس مقام پر پہنچے کہ وہ دربار کے ’’بادشاہ گر‘‘ کہلانے لگے۔ ایسے ہی پاکستان کی سیاست میں بھی چند سو خاندان ایسے ہیں جو انگریز سے وفاداری اور قوم سے غداریوں کے صلے میں اس مقام پر پہنچا دیئے گئے تھے کہ ان کی مدد کے بغیر حکومتیں بننا ممکن نہ تھیں۔
ان تمام لوگوں کو انگریز سرکار نے ایک سیاسی پرچم تلے جمع کیا تھا جس کا نام ’’یونینسٹ پارٹی‘‘ تھا۔ قائد اعظم ؒ کی قیادت میں بننے والی مسلم لیگ اپنے عظیم قائد اور علامہ اقبالؒ کی روح گرما نے والی شاعری کے باوجود بھی 1936ء کے الیکشن ہار گئی تھی۔ اس لئے کہ یہ تمام خاندان اس کے خلاف تھے۔ شکست کے بعد ایسے ’’بڑے‘‘ خاندانوں کی اشد ضرورت محسوس ہوئی جو مسلمان بھی تھے اور انگریز نے انہیں مضبوط بھی بنا کر رکھا تھا۔ یہ اپنے دَور کے ’’الیکٹیبلز‘‘ تھے۔ یہ تحریکِ پاکستان میں مسلم لیگ کی ضرورت بن گئے اور اکتوبر 1937ء میں ’’سکندر جناح پیکٹ‘‘ کے تحت ان خاندانوں کی پاکستان کی سیاست میں دُھواں دار آمد ہوئی۔ یہ وہی لوگ تھے جن کے بارے میں سردار عبدالرب نشتر نے یہ شعر پڑھا تھا: نیرنگیٔ سیاستِ دوراں تو دیکھئے منزل انہیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے یہ تمام وڈیرے، سردار، جاگیردار وہ ہیں جو بعد میں ہر سیاسی پارٹی میں شامل ہوئے یا کروائے گئے۔ ان سب کی لگامیں ہمیشہ سول اور ملٹری بیوروکریسی کے ہاتھ میں ہوا کرتی ہیں۔
پاکستانی سیاست میں 1947ء سے لے کر 1958ء تک کے گیارہ سال کا منظر سید برادران والا منظر ہے۔ نہرو نے کہا تھا ’’میں نے اتنی شیروانیاں نہیں بدلیں جتنی پاکستان میں حکومتیں بدلتی ہیں‘‘۔ لیکن 1970ء کے الیکشنوں میں عوام کے ووٹ نے انگریز کے بنائے ہوئے اس محلّاتی سازشوں کے کاغذی محل کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ وہ بڑے بڑے نام جن کے خاندان ہمیشہ جیتا کرتے تھے ان کا نام و نشان تک مٹ گیا۔ مگر اس کے بعد ایک منصوبے کے تحت 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں پہلے ان ’’الیکٹبلز‘‘ کو دوبارہ زندہ کیا گیا اور پھر بار بار انہی کے ذریعے حکومتیں بنائی اور بگاڑی گئیں۔ ان پچاس سالوں میں محلّاتی سازشیں اور ڈرائینگ روم سیاست اسی طرح اپنے عروج پر رہی جیسے سید برادران کی سیاست مغل دربار میں تھی۔
ممتاز دولتانہ سے جام صادق اور آصف زرداری تک کتنے نام ہیں جو اس میں مہارت رکھتے تھے، لیکن 17 جولائی کے ضمنی انتخابات نے ایک بار پھر 1970ء کے باون سال بعد وہ تمام برج اُلٹ دیئے ہیں جن پر ان تمام پسِ پردہ قوتوں کا انحصار کیا کرتی تھیں۔ یہی تو وہ چند خاص ’’نمائندے‘‘ تھے جن کو نون لیگ میں ڈالتے تو وہ حکمران بن جاتی اور پیپلز پارٹی میں ڈالتے تو وہ طاقتور ہو جاتی۔ لیکن 17 جولائی کو عوام نے انہیں یوں اُکھاڑ پھینکا جیسے طوفان میں درخت جڑ سے اُکھڑتے ہیں۔ ان کے آباء و اجداد کو 1970ء کے بعد دوبارہ کھڑا کر لیا گیا تھا، لیکن اب کی بار شاید ناممکن ہو جائے۔ اس دفعہ عوام کے تیور ہی اور ہیں۔
تبصرہ لکھیے