ہوم << پی ڈی ایم اتحاد۔ سو جوتے کھائے یا پیاز - نصرت جاوید

پی ڈی ایم اتحاد۔ سو جوتے کھائے یا پیاز - نصرت جاوید

میں یہ طے نہیں کرسکتا کہ عمران حکومت کی جگہ اقتدار سنبھالتے ہوئے پی ڈی ایم نامی اتحاد میں شامل جماعتوں نے جوتے کھائے یا پیاز۔ ان دونوں میں سے ’’سو‘‘ مگر ایک محاورے کے مطابق کھائے جاچکے ہیں۔اب دوسرے ’’آئیٹم‘‘ کا وقت شروع ہوچکا ہے۔

حکمران اتحاد کی سب سے بڑی جماعت یعنی نواز شریف صاحب کے نام سے منسوب مسلم لیگ مگر دوسرے مرحلے کے عواقب بھی سمجھ نہیں پارہی۔ سپریم کورٹ کے حکم کے تحت 22جولائی کے روز پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا ایک بار پھر انتخاب ہوا۔اس کے ووٹ گنتے ہوئے صوبائی حکومت کے ڈپٹی سپیکر نے چودھری پرویز الٰہی کی حمایت میں آئے دس ووٹوں کو مسترد کردیا۔دوست محمد مزاری نے اپنے عمل کے جواز میں مسلم لیگ (ق) کے قائد چودھری شجاعت حسین کا لکھا ایک خط پڑھ کر بھی سنایا۔’’پارٹی سربراہ‘‘ نے ’’اپنی جماعت‘‘ کے اراکین صوبائی اسمبلی کو مذکورہ خط کے ذریعے ’’عمران خان کے نامزد کردہ‘‘ امیدوار کی حمایت میںووٹ نہ ڈالنے کی ہدایت کی تھی۔ ڈپٹی سپیکر نے مذکورہ ’’ہدایت‘‘ کو سپریم کورٹ ہی کے جانب سے آئے ایک اور حالیہ فیصلے کی روشنی میں پڑھا۔

جس فیصلے سے وہ ’’ہدایت‘‘ لے رہے تھے اس نے وزارت اعلیٰ کے لئے اس سے قبل ہوئے انتخاب کے دوران حمزہ شہباز شریف کی حمایت میں ووٹ ڈالنے والی تحریک انصاف کے اراکین کو ’’لوٹے‘‘ ہونے کی پاداش میں پنجاب اسمبلی کی رکنیت سے محروم کردیا تھا۔ان سے خالی کروائی نشستوں پر ضمنی انتخاب بھی ہوچکے ہیں۔دوست مزاری کا اصرار رہا کہ مسلم لیگ (ق) کے اراکین کی جانب سے ’’پارٹی سربراہ‘‘ کی حکم عدولی ہوئی۔ یہ الگ بات ہے کہ مبینہ حکم عدولی کا ارتکاب کرنے والوں میں چودھری پرویز الٰہی بھی شامل تھے۔ وہ وزارت اعلیٰ کے امیدوار ہونے کے علاوہ چودھری شجاعت حسین کے قریب ترین عزیزوں میں بھی شامل ہیں۔دونوں کئی دہائیوں تک ایک دوسرے کا ہر صورت ساتھ نبھانے والی ’’بھائیاں دی جوڑی‘‘ کی طرح سیاسی میدان میں عمل پیرا رہے ہیں۔

ڈپٹی سپیکر کی رولنگ نے عمران خان صاحب اور ان کے حامیوں کو مزید چراغ پا بناڈالا۔چودھری پرویز الٰہی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری پہنچ گئے۔ فوری انصاف کے حصول کے لئے ان کی کاوش بالآخر رنگ لائی۔جمعہ کی رات ان کی پیش کردہ درخواست باقاعدہ وصول کرلی گئی۔ سماعت کے لئے ہفتے کا دن بھی مقررہ ہوگیا۔ہیجانی کشمکش کے نتیجے میں ہوئی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے دوست محمد مزاری کے فیصلے کو نظر بظاہر درست تصور نہیںکیا۔حتمی رائے بنانے کے لئے البتہ مزید دلائل سننے سے اجتناب بھی نہیں برتا۔حمزہ شہباز شریف تاہم حتمی فیصلہ سنائے جانے تک پنجاب کے ’’امانتی‘‘ وزیر اعلیٰ رہیں گے۔کامل اختیارات سے محروم ایک ’’نمائشی‘‘ وزیر اعلیٰ۔

ملکی سیاست کا دیرینہ طالب علم ہوتے ہوئے میں نہایت سنجیدگی سے یہ لکھنے کو مجبور محسوس کررہا ہوں کہ سپریم کورٹ کی جانب سے دوست محمد مزاری کے فیصلے پر اٹھائے اعتراضات کے بعد حمزہ شہباز شریف کو فی الفور عدالت میں بذات خود پہنچ جانا چاہیے تھا۔ اس دست بستہ استدعا کے ساتھ کہ اگر چودھری پرویز الٰہی کی حمایت میں ڈالے ووٹ ’’مسترد‘‘ تصور نہیں ہورہے تو انہیں پنجاب کا باقاعدہ منتخب ہوا وزیر اعلیٰ ٹھہرادیا جائے۔سیاسی استحکام کی خاطر پنجاب اسمبلی کو ایک بار پھر وزارت اعلیٰ کے انتخاب کی مشق سے گریز ہو۔حمزہ شہباز شریف نجانے کس امید کی بنیاد پر یہ پیش قدمی نہ لے پائے۔مزید کچھ دنوں کے لئے امانتی/نمائشی وزیر اعلیٰ ٹکے رہنے کو آمادہ ہوگئے۔

حمزہ شہباز شریف نے جو رویہ اپنایا ہے اسے سادہ ترین الفاظ میں ’’ڈھٹائی‘‘ کے علاوہ کوئی اور عنوان دیا نہیں جاسکتا۔ وسیع تر تناظر میں اس رویے کا جائزہ لیں تو مبینہ ڈھٹائی حکمران اتحاد کی سوچی سمجھی پالیسی محسوس ہوتی ہے۔اس کے جانب سے وزارت عظمیٰ کے منصب پر بٹھائے شہباز شریف صاحب بھی کئی اعتبار سے امانتی اور نمائشی بنادئیے گئے ہیں۔کسی بھی افسر کی تعیناتی کیلئے انہیں سو بارسوچنا ہوتا ہے۔ایف آئی اے جیسا کلیدی ادارہ تو ان کی حکومت کے لئے شجر ممنوعہ بنادیا گیا ہے۔

وفاق میں جو حکومت براجمان ہے اس کا بنیادی اور واحد فریضہ عالمی معیشت کے نگہبان ادارے کو ہر صورت رام کرنا ہے تاکہ پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچایا جاسکے۔آئی ایم ایف کو رام کرنے کے لئے مگر بجلی،پیٹرول اور گیس کی قیمتوں میں بتدریج اور ناقابل برداشت اضافہ لازمی ہے۔حکومت اس کا اعلان کرتی ہے تو عوا م بلبلااٹھتے ہیں۔ پنجاب کے حالیہ ضمنی انتخابات نے یہ بھی ثابت کردیا کہ عوام کی بلبلاہٹ اب غصے میں بدل رہی ہے ۔جن بیس نشستوں پر انتخاب ہوئے ان کے دوران تحریک انصاف کے دیرینہ ووٹروں ہی نے نہیں بلکہ نواز لیگ کے بے تحاشہ سابق ووٹروں نے بھی حکمران اتحاد کے امیدواروں کے خلاف پرجوش انداز میں غصے کا اظہار کیا۔

وفاق میں براجمان حکومت مگر اب بھی اگلے برس کے اگست تک اپنی ’’بقیہ آئینی مدت‘‘ ہر صورت مکمل کرنا چاہ رہی ہے۔اسے گماں تھا کہ ہماری ریاست کو نظر بظاہر دیوالیہ سے محفوظ رکھنے کی خاطر اٹھائے فیصلوں کی وجہ سے حکمران اتحاد کو جس عوامی غضب کا سامنا کرنا پڑرہا ہے مقتدر اور عدالتی حلقے اسے سراہتے ہوئے تھوڑی شفقت برتیں گے۔ ایسا ہوتا مگر نظر نہیں آرہا۔ رواں برس کے اکتوبر میں نئے انتخاب کی خواہش دوبارہ بیدار ہوتی نظر آرہی ہے۔تحریک انصاف کے لگائے صدر عارف علوی بھی ’’باہمی مشاورت‘‘ سے اس کی تیاری کی تجویز دے بیٹھے ہیں۔ اکتوبر میں نئے انتخاب کی جو بات چلی ہے اس کی بابت حکمران اتحاد جب غصہ بھری حیرت کا اظہار کرتا ہے تو مجھے اس کا رویہ بچگانہ محسوس ہوتا ہے۔ رواں مالی سال کے بجٹ کی تیاری سے قبل حکمران اتحاد کو یہ پیغام مل گیا تھا کہ مذکورہ بجٹ کوقومی اسمبلی سے منظور کروانے کے بعد اکتوبر میں نئے انتخابات کی تیاری کی جائے۔

مذکورہ پیغام ملنے کے بعد حکمران اتحاد کے لئے مناسب تو یہی تھا کہ ٹیکنوکریٹس پر مشتمل ’’عبوری حکومت‘‘ کے لئے آئی ایم ایف کو رام کرنے والے فیصلے لینے کی راہ بناتے۔ خود کو ان کے عواقب سے محفوظ رکھتے ہوئے نئے انتخابات کی تیاری میں مصروف ہوجاتے۔وہ مگر بخوشی سوپیاز کھانے کو آمادہ ہوگئے۔اب سو جوتے کھانے کی تیاری ہورہی ہے۔

Comments

Click here to post a comment