عام آدمی تو رہا ایک طرف خود شہباز شریف بھی ڈالر کے مقابل روپے کے تیزی سے گرتے پلیٹلیٹس سے سخت پریشان ہیں۔البتہ نو رتن تسلی دلا رہے ہیں کہ گھبرانا نہیں ۔جتنا نظر آ رہا ہے اتنا ہے نہیں بلکہ یہ تو نظر کا دھوکا ہے۔ وزرا کی نگاہ سے دیکھیں تو حالات ’’ فس کلاس ‘‘ ہیں۔
مثلاً وزیر دفاع خواجہ محمد آصف جنھیں اپنے ماتحت اداروں کے سوا سب کے بارے میں بات کرنے کا مکمل اختیار ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ موجودہ معاشی اقدامات کے سبب وقتی طور پر متوسط طبقے کا ایک حصہ خطِ غربت چھو سکتا ہے مگر اس نوبت کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ حال ہی میں اعلیٰ سرکاری ملازموں کو جو ایگزیکٹو الاؤنس دینے کا اعلان ہوا ہے اس پر نظرِ ثانی کی جائے۔نیز سرکاری خرچے پر پرتعیش طرزِ زندگی کو سادہ پن سے بدل دیا جائے۔خواجہ آصف انقلابی کے بقول نوکر شاہی اور دیگر ( حکمران طبقہ ) کو حالیہ اقتصادی بار مشترکہ طور پر برداشت کرنا پڑے گا تاکہ عام آدمی کو کچھ تو تسلی ہو کہ صرف اسی کی پیٹھ پر بوجھ نہیں لادا جا رہا۔خواجہ آصف کا خیال ہے کہ ڈالر کے ہاتھوں روپیہ ہی نہیں یورو اور پاؤنڈ اسٹرلنگ سمیت ہر کرنسی بے توقیر ہو رہی ہے۔ اس وقت کساد بازاری کے خوف سے ریزرو بینک آف امریکا کی سخت مالیاتی ڈسپلن پالیسی کے سبب ڈالر پچھلی دو دہائی میں سب سے زیادہ اکڑا ہوا ہے۔
خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ سرکار کا حجم اس وقت ضرورت سے زیادہ ہے کیونکہ بہت سی وہ اہم ذمے داریاں بھی حکومت نے اٹھا رکھی ہیں جو باقی دنیا میں نجی شعبہ نبھا رہا ہے۔لہٰذا حکومتی ڈھانچے کی رائٹ سائزنگ کے ذریعے انتظامی چربی کم کرنے کی ضرورت ہے۔اس کے علاوہ ہمیں اپنی کچھ قبیح عادات بھی بدلنا ہوں گی۔جیسے دیر سے کاروبار شروع کرنا اور دیر سے بند کرنا۔کاروبار دن کی روشنی میں ہی نمٹانے کی عادت نافذ کروانا ہو گی۔بس ان چند تراکیب پر آج سے ہی عمل شروع ہو جائے تو رفتہ رفتہ حالات سنبھلنے لگیں گے۔
اقامہ گزیدہ خواجہ آصف اضافی تسلی دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارے کچھ عرب دوست ممالک کی کمپنیاں نج کاری کی صورت میں پاکستان کی کچھ ایسی لسٹڈ کمپنیوں اور اداروں میں سرمایہ لگانے میں سنجیدگی سے دلچسپی رکھتی ہیں جو ایک عشرے سے نجکاری کی فہرست میں پڑی ہیں۔( یہ اشارہ ہے کہ سرکار اب مزید پیسہ اکٹھا کرنے کے لیے نجکاری کے منتظر اداروں کی فہرست میں سے بکروں کا انتخاب کرے گی )۔
خواجہ جی کا کہنا ہے کہ ضرورت پڑنے پر ہماری حکومت کسی اور حکومت سے کسی ٹینڈر کی حجت میں پڑے بغیر براہ راست تجارت کر سکے اس کے لیے متعلقہ قوانین میں ضروری ترامیم زیرِ غور ہیں۔( ایسی صورت میں عام آدمی کو سہولت ہو نہ ہو ڈیل میں شامل سرکاریوں کی کمیشن کاری کی آبیاری ضرور ہو جائے گی )۔ انھوں نے بتایا کہ حال ہی میں ایک وفد نے کابل کا دورہ کر کے افغان کوئلے کی درآمد کی تفصیلات طے کی ہیں تاکہ کوئلے پر منحصر بجلی گھروں کا پیٹ بھر کے بجلی کی پیداوار بحال ہو سکے۔( مگر یہ کیسے ہوگا جب کہ پاکستان کابل انتظامیہ کو سفارتی طور پر تسلیم ہی نہیں کرتا۔کیا یہ تجارت سرکاری سطح پر ہو گی یا نجی شعبے کو بیچ میں ڈالا جائے گا۔ سوال ہنوز وضاحت طلب ہے )۔
وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل وزیرِ دفاع سے بھی زیادہ پرامید ہیں۔بقول ان کے روپے کی قدر میں روز افزوں گراوٹ کے باوجود کرنسی مارکیٹ پر ( آپ کے بھائی کا ) پورا کنٹرول ہے۔دوست ممالک سے جو پیسے آنے والے ہیں وہ بس پائپ لائن میں ہیں۔جہاں اتنا انتظار کر لیا کچھ دن اور سہی۔درآمدات میں کمی کے مثبت اثرات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ بھائی مفتاح سمجھاتے ہیں کہ پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈیز ختم ہونے سے ان مصنوعات کی ذخیرہ اندوزی ختم ہو گئی ہے اور آج ملک میں پٹرول کا تیس دن کا اور ڈیزل اور فرنس آئل کا دو ماہ کا ذخیرہ موجود ہے جو بذاتِ خود ایک ریکارڈ ہے۔جب کہ پٹرولیم مصنوعات مہنگی ہونے کی وجہ سے استعمال میں بھی کمی آئی ہے۔
بھائی مفتاح کا کہنا ہے کہ ہماری پالیسیوں کی وجہ سے ملک رفتہ رفتہ دیوالیہ ہونے کے خدشے سے باہر نکل رہا ہے۔اس نوبت سے بچنے کے لیے وقتی طور پر مزید سخت قدم بھی اٹھانے پڑے تو ہچکچائیں گے نہیں کیونکہ ہمیں اپنی سیاسی قبولیت سے زیادہ ملک کے معاشی مستقبل کی فکر ہے۔ سوائے زرِ مبادلہ کی شرح تبادلہ میں اونچ نیچ کے تمام معاشی اشاریے مثبت سمت میں ہیں۔ اگلے ہفتے تک اسٹیٹ بینک کے نئے گورنر کا تقرر ہونے سے بھی مالیاتی استحکام آئے گا۔اگلے ماہ سے پٹرول کی قیمت میں اور کمی ہو گی اور روپیہ ڈالر کے سامنے کھڑا رہ سکنے کے قابل بھی ہو جائے گا۔ترکی سے جو نیا تجارتی سمجھوتہ طے پایا ہے اس کے نتیجے میں دو طرفہ تجارت کا حجم بڑھ کے پانچ ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ جائے گا۔
وزیرِ توانائی خرم دستگیر بھی سکون میں ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ سری لنکا میں معاشی بحران کا پہلا اشارہ پٹرول پمپوں پر طویل ہوتی قطاریں تھیں۔ہمارے ہاں تو ایسی نوبت نہیں ہے۔ملکی ضروریات کے لیے پورے چونتیس دن کا تیل موجود ہے ۔ وزیرِ مملکت برائے پٹرولیم مصدق ملک اس پر خوش ہیں کہ قیمتیں بڑھنے کے بعد ملک میں ڈیزل کی کھپت میں نو فیصد تک کمی آئی ہے۔( ڈیزل ٹرانسپورٹ اور زرعی شعبے میں استعمال ہوتا ہے۔ملک صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ اس کی کھپت میں کمی سے کیا ٹرانسپورٹ اور زرعی شعبہ سکڑا ہے یا پہلے جیسا ہی پھل پھول رہا ہے )۔
ایسے وقت جب معاشی نزاکتوں اور کیے گئے اقدامات کے فیوض و برکات سمجھنے سے عاری عام آدمی کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں۔دو ووٹوں کی اکثریت پر ٹکی سرکار کا یہ پراعتماد چہرہ قابلِ داد ہے۔عام آدمی اپنا ڈنکی پیٹ رہا ہے سرکار اپنا ڈنکا پیٹ رہی ہے۔سرکاری اعصابی مضبوطی کو سراہنا تو بنتا ہے۔ اب تو خیر ختنئی حالات بہت بدل گئے ہیں۔
ہمارے زمانے میں نائی استرا لہرانے سے ذرا پہلے بچے کی توجہ آسمان پر اڑتے پرندوں کی جانب مبذول کروانے کے فن میں طاق تھے۔وہ دیکھو چڑیا اڑ رہی ہے وہ دیکھو طوطا گذر رہا ہے۔ جیسے ہی بچہ آسمان میں چڑیا طوطے تلاش کرنے کے لیے سر اٹھاتا نائی کام تمام کر کے آلہِ مضروب پر راکھ ملتے ملتے تسلی دیتا بس بس کچھ نہیں کچھ نہیں ، تو تو شیر بچہ ہے۔
تبصرہ لکھیے