ہوم << نشانیاں قیامت کی- عبداللہ طارق سہیل

نشانیاں قیامت کی- عبداللہ طارق سہیل

کئی دنوں کے وقفے کے بعد لاہور میں بارش ہوئی اور اتنی زیادہ کہ 20 برس کا ریکارڈ ٹوٹ گیا (اللہ خیر کرے، کچھ برسوں سے اور خاص طور سے کچھ مہینوں سے ہمارے ملک میں ہر شے کے ریکارڈ ٹوٹنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے)۔ ہمارے علاقے میں مسلسل سات گھنٹے بارش ہوتی رہی۔ گلی کا پانی گھر میں آ گیا اور بجلی ایسی گئی کہ نو گھنٹے بعد ہی لوٹی۔

لوگوں کو کتنی پریشانی ہوئی۔ دیگر کاروبارِ زندگی کے علاوہ ٹی وی بند،نیٹ فون بند، موبائل فون کا ڈیٹا بھی بند۔ گویا نو گھنٹے کی سخت ترین قید تنہائی۔ فی زمانہ یہ چیزیں اشیائے استعمال نہیں رہیں، ضروریات بلکہ لوازمات زندگی بن گئی ہیں، ویسی ہی لوازمات جیسی کہ پانی بلکہ آکسیجن۔ یہ نیا موبائل فون جسے سمارٹ فون اور عوامی زبان میں ’’ٹچ موبائل‘‘ کہا جاتا ہے، دل کی دھڑکن بن کر رہ گیا ہے۔ دھڑکن بند تو دل بند…ایک صاحب ازراہ تفنن فرمایا کرتے ہیں یہ موبائل دراصل وہی ’’داّبۃالارض‘‘ ہے جو قرب قیامت کے زمانے میں زمین سے نکلے گا لوگوں سے باتیں کیا کرے گا۔ جب ٹی وی وی سی آر اور پھر کیبل ٹی وی آئے تھے تو قرب قیامت کی ایک نشانی یوں پوری ہوئی تھی کہ رقص و سرود کی محفلیں چل کر گھروں میں، بیڈ رومز میں آ گئیں۔ حدیث میں ہے کہ گھر گھر مجرا ہو گا۔ موبائل فون نے اس ستم پر اضافی ستم یہ کیا کہ ہر آدمی نے اپنی ہی سرخوشی کی الگ سے انجمن سجا لی۔

بات دور نکل گئی۔ کہنے کی بات یہ تھی کہ پرانا زمانہ یاد آ گیا۔ میری عمر کے بزرگوں، مجھ سے زیادہ عمر کے بزرگوں یا مجھ سے قدرے کم عمر کے بزرگوں کو یاد ہو گا کہ ہمارے بچپن لڑکپن بلکہ جوانی کے زمانے میں بھی بجلی چلی جایا کرتی تھی لیکن کچھ قیامت نہیں آتی تھی۔ کاروبار زندگی رکتے تھے نہ دل کی دھڑکن۔ گرمی کا موسم ہو تو ذرا کی ذرا دیر کے لیے گرمی لگتی تھی، ہاتھ کے پنکھے جھلنا پڑتے تھے یا گلی میں نکل جایا کرتے تھے اور سردی کے موسم میں تو یہ مسئلہ بھی نہیں ہوتا تھا۔ کسی شے سے محرومی کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ ٹی وی تھانہ نیٹ اور نہ ہی موبائل یا کمپیوٹر۔ ریڈیو تھے، سو بجلی گئی تو سیل سے چلا لیتے تھے۔ پھر کیا زمانہ بدل گیا کہ زندگی کے لازمے ہی بدل گئے۔ اللہ اکبر۔

طوفانی بارش ہو تو ہر ملک میں بجلی کا نظام متاثر ہوتا ہے لیکن ایسا نہیں جیسا پاکستان میں۔ یہ آج کی بارش تو طوفانی تھی لیکن یہاں تو حال یہ ہے کہ ایک چھینٹا پڑے تو بھی بجلی بند۔ اور کھمبوں میں کرنٹ آنے کا معاملہ تو نہایت ہی دردناک ہے۔ حالیہ بارشوں سے ملک کے درجنوں مقامات پر کھمبوں یا بے حس واپڈا انتظامیہ کی وجہ سے لٹکے ہوئے تاروں سے چُھو کر درجنوں بچے اور درجنوں ہی بڑے افراد موت کا شکار ہوئے۔ محفوظ حضرات کے لیے ایسی خبر محض خبر ہوتی ہے جس کا بقیہ پڑھنے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ لیکن ماجرا بہرحال المیہ ہے چند دن پہلے کوئٹہ سے ایک وڈیو شیئر کی گئی ۔ ایک پانچ سات کا بچہ بارش کے پانی میں سڑک عبور کرتا ہوا آتا ہے اور اچانک ایک کھمبے سے چھو کر وہیں پتھر کا بت بن جاتا ہے۔ آس پاس کے لوگ لکڑی کے ڈنڈے سے اسے کھمبے سے جدا کرتے ہیں۔ جدا ہوتے ہی اس کی لاش پانی پر تیرنے لگتی ہے۔ ان میں سے کتنے واقعات کو ہم تقدیر کا لکھا کہہ سکتے ہیں؟۔ میرے خیال میں اکثر واقعات تقدیر نہیں، واپڈا کے لکھے بلکہ حکومت کے لکھے کا نتیجہ ہیں۔

بجلی کے تار کھمبوں سے ٹوٹ گرتے ہیں اور دنوں تک ٹوٹے پڑے رہتے ہیں۔ عمارتوں کی چھتوں سے ہائی وولٹیج تار برسوں سے گزر رہے ہیں، اپیلوں اور مظاہروں کے باوجود وہیں پر ہیں۔ آئے دن یہ تار لوگوں کو زندہ جلا رہے ہیں لیکن انہیں ہٹایا نہیں جاتا۔ کھمبوں میں کرنٹ آنے کے واقعات جتنے ہمارے ہاں ہوتے ہیں، ترقی یافتہ ملکوں کو چھوڑئیے، اتنے ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں نہیں ہوتے۔ اوپر ریکارڈ ٹوٹنے کی بات ہوئی۔ عرض یہ ہے کہ ریکارڈ ٹوٹنے کی ایسی رت ہم سے پہلے شاید جنگ عظیم دوئم کے دوران جرمنی ہی میں آئی ہو گی۔ سیاسی عدم استحکام معاشی تباہی کو بڑھاوا دے رہا ہے اور معاشی تباہی سے سیاسی عدم استحکام بڑھ رہا ہے۔ عجیب گردشی چکر ہے، وہی کھڑکیوں کے کھڑکنے سے کھڑک سنگھ کھڑک رہا ہے اور کھڑک سنگھ کے کھڑکنے سے کھڑکیاں کھڑک رہی ہیں۔ جن کو پروا ہونی چاہیے، وہ ازلی بے پروا ہیں اور جن کو پروا ہے، وہ بے بس ، لاچار، معذور مسکین ہیں۔ ہمارے اور آپ جیسے۔ کڑھ سکتے ہیں، کر کچھ نہیں سکتے۔

ڈالر کے بارے میں کسی بے لحاظ نے کل خبر سنائی کہ یہ 250 سے پہلے نہیں رکے گا، آج اس سے بھی بڑھ کر کوئی بدلحاظ یوں کہہ رہا تھا کہ 300 تک جائے گا۔ ان کے منہ میں خاک۔ یہ لوگ تو بس ڈراوا دے رہے ہیں لیکن ایک سیاسی پارٹی ایسی ہے جو پر مسرت جوش کے ساتھ یہ بری خبریں اور ان سے بھی بری پیش گوئیاں دھمکیاں مشن سمجھ کر دے رہی ہے۔کوئی ٹوکے تو سات نسلوں تک اس کے شجرہ نسب کو گالیوں پر رکھ لیتی ہے، موقع محل ہو تو دوچار جڑ بھی دیتی ہے۔ کل ہی اس کے ایک لیڈر نے پھر کہا کہ ہماری بات نہیں مانی تو ملک کو سری لنکا بننے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ مطلب یہ کہ سری لنکا بنا کر ہی دم لیں گے۔

اسلام آباد میں کچھ عرصہ قبل قتل ہونے والی نوجوان لڑکی نورمقدم کے والد نے کہا ہے کہ انصاف نہ ملا تو امیر زادے ہر کسی کی بچی قتل کر سکتے ہیں۔ نور مقدم کے والد کو خدا انصاف دلائے۔ ان سے پوری ہمدردی ہے لیکن ان کے بیان سے لگتا ہے کہ وہ اخبارات نہیں پڑھتے اور اگر پڑھتے ہیں تو صرف خاص خاص خبریں ہی پڑھتے ہیں ورنہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ کیا امیر زادے اور کیا غریب زادے۔ ہر روز ہر جگہ بچے اور بچیاں قتل ہو رہی ہیں اور کسی کو سزا نہیں مل رہی ہے۔ سزا صرف ہائی پروفائل کیس میں ملا کرتی ہے یا پھر ’’ویلیو ایڈڈ‘‘ Value Added وقوعے پر ، جیسے چند سال قبل قصور میں زینب نامی معصوم بچی قتل ہوئی تھی۔ ’’آپریشن گیٹ نواز‘‘ کے تحت اس المناک واقعے کو ویلیو ایڈڈ بنا دیا گیا۔ اس کے بعد سے اب تک سینکڑوں بچے اور بچیاں جن میں سے ہر ایک کی جان زینب جیسی ہی تھی، قتل ہو چکے۔ سنگل کالم خبر چھپتی ہے اور کسی کی تو وہ بھی نہیں، وجہ یہ کہ ان میں سے کوئی بھی ’’ویلیو ایڈڈ‘‘ ہے نہ ہائی پروفائل۔

آج ہی کے بعض اخبارات میں کسی دولت مند گھرانے میں 13 لاکھ ڈکیتی کی خبر 3 کالم کی جلی سرخی کے ساتھ چھپی ہے۔ غریب راہگیر کوڈاکو موبائل فون چھین کر قتل کر دیتے ہیں، یہی اخبار اس کی خبر سنگل کالم چار سطر میں چھاپتے ہیں۔ یہ ہماری سماجیات ہے۔ سماج وہاں ہوتا ہے جہاں ریاست ہو، ہمارے ہاں ریاست کا ہی کچھ پتہ نہیں، سماج کو کہاں ڈھونڈیں۔

Comments

Click here to post a comment