ایک ایسی دنیا جس کی معلوم تاریخ لگ بھگ چھ ہزار برس ہے، اس کی تعمیر میں ہماری بے جگر اور اپنی صنف کے لیے لڑنے والی عورتوں کا کتنا حصہ رہا ہے اس کے بارے میں سچ تو یہ ہے کہ ہم کچھ نہیں جانتے۔
اس وقت ہماری سرحدوں پر ہونے والے ایک جرگے نے اپنی عورتوں اور لڑکیوں پر تفریحی پروگرام میں حصہ لینے پر اور ان کو دیکھنے پر پابندی لگا دی ہے، اس سے اس ذہنیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جو آج بھی پتھر کے دور میں زندہ ہے، خود دنیا کی تمام آسائشوں سے لطف اندوز ہوتی ہے لیکن اپنی لڑکیوں پر لکھنا اور پڑھنا حرام سمجھتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ان کے نبیؐ پر پہلا جملہ ’’اقرا‘‘ اترا تھا۔
ہمیں نعیم مرزا کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انھوں نے صدیوں پر پھیلی ہوئی تاریخ سے چند گنی چنی عورتیں اٹھائیں اور انھیں اور ان کی جدوجہد پر مبنی تفصیل سے آگاہ کیا۔ جی خوش ہوتا ہے یہ دیکھ کر کہ ان میں ہماری رقیہ سخاوت حسین، ساوتری بائی پُھلے، فاطمہ شیخ اور صوفیہ دلیپ سنگھ بھی شامل ہیں۔ ان میں سے بیشتر کے نام آج ہمارے دانشور نہیں جانتے۔ آج کے اخباروں میں پنجاب میں ہونے والے انتخابات کی خبریں اور تصویریں شایع ہوئی ہیں، ان میں ایک بزرگ خاتون اپنی دونوں انگلیوں سے فتح کا نشان بنا رہی ہیں اور ان کے چہرے پر فتح مندی کے گلاب کھل رہے ہیں۔ جی چاہتا ہے کہ ان کو جا کر بتایا جائے کہ ووٹ ڈالنے کی جو خوشی ان کو مسرت دے رہی ہے، وہ اب سے سوا صدی پہلے کی ان انگریز عورتوں کی جدوجہد پر مبنی ہے جنھوں نے جیلیں کاٹیں، بھوک ہڑتال پر گئیں تو ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک ہوا اور انھیں نلکیوں کے ذریعے زبردستی خوراک پہنچانے کی کوشش کی گئی اور انھیں جیل میں سخت اذیتیں پہنچائی گئیں۔
9 فروری1906 کو اپنے لیے ووٹ کا حق مانگنے کا احتجاجی مظاہرہ کرنے کا اہتمام کیا گیا تھا اس میں سماج کے تمام طبقات کی عورتوں نے شرکت کی۔ تمام تر دباؤ کے باوجود حکومت نے ان باغی عورتوں کو پارلیمنٹ کے مقدس ایوان میں پاؤں رکھنے کی اجازت دینا تو کجا، انھیں پارلیمنٹ ہاؤس کے قریب بھی نہ پھٹکنے دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ پیادہ سپاہیوں کے ایک پورے دستے نے روکا اور پھر عورتوں کی عین بیچ والی صفوں میں گھس کر ڈنڈوں اور بندوقوں سے انھیں تتر بتر کرتے رہے۔ ادھر عورتیں بھی ان سے دست بہ دست جنگ کرتی رہیں۔
یہ گھڑ سوار سپاہی سیدھے عورتوں کے جلوس کے بیچوں بیچ حملہ کرتے اور گھوڑے کے سموں سے انھیں دائیں بائیں پھینکتے، عورتیں پھر جمع ہوتیں اور آگے جانے کی کوشش کرتیں۔ ان کے کپڑے پھٹ گئے، انھیں زخم آئے، لیکن وہ ہار ماننے کو تیار نہ تھیں۔
کئی عورتیں آس پاس کی گلیوں میں گئیں تو گھڑ سواروں نے ان کا پیچھا کیا، کچھ نے گھروں میں پناہ لینے کی کوشش کی تو پیدل سپاہی انھیں وہاں سے گھسیٹ کر سڑک پر لائے۔ اس دوران اور اس سب کے باوجود پندرہ سفراجیٹ عورتیں سیکڑوں سپاہیوں سے لڑتے بھڑتے پارلیمنٹ ہاؤس کے داخلے کے دروازے تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئیں۔ انھیں وہاں سے گرفتار کرلیا گیا۔ رات دس بجے تک پولیس نے مزید گرفتاریاں کیں اور چوک کو صاف کردیا گیا۔ پولیس کے دستے، تاہم مزید دو گھنٹے وہاں پہرہ دیتے رہے، جب تک کہ پارلیمنٹ کا اجلاس رات بارہ بجے موخر نہ ہوا۔ اگلی صبح ستاون عورتوں اور دو مردوں کو مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا اور انھیں دو ہفتے سے تین ہفتے کے لیے ہولووے بھیج دیا گیا۔
جو حکومت اپنی عورتوں کے ساتھ، جن کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ ووٹ کا حق مانگتی تھیں، یہ ظالمانہ رویہ رکھ سکتی تھی، اس کا اپنی نوآبادیوں میں کیا رویہ ہوگا، اس سے تاریخ کے سیاہ اوراق بھرے پڑے ہیں۔ ہر وہ عورت جو اپنے حقوق کے لیے سرگرداں ہوتی ہے اسے یہ جاننا چاہیے کہ یہ حق اب سے سوا صدی پہلے کی سفید فام عورت نے لڑ کر حاصل کیا تھا جو اسے پہنچا۔ میں نعیم طاہر کو داد دیتی ہوں جنھوں نے یہ مشکل کام کیا۔
طاہرہ عبداللہ نے کتاب کی ابتدا میں جس بلند آہنگ میں نعیم کو شان دار داد دی ہے، وہ طاہرہ کے مزاج کا خاصا ہے وہ ہماری ایک زبردست ’’لڑاکا‘‘ ہیں۔ وہ سلامت رہیں اور نعیم مرزا کو اکساتی رہیں کہ اس کی دوسری جلد پر کام کریں۔ ہماری زندگیاں بلبلہ ہیں پانی کا۔
تبصرہ لکھیے