ہوم << بھارتی جیلوں میں قید پاکستانی- عبدالرفع رسول

بھارتی جیلوں میں قید پاکستانی- عبدالرفع رسول

یوں تو بھارتی جیلیں ان ہزاروں کشمیری مسلمانوں سے بھری پڑی ہیں جو بھارت سے اپنی آزاد کے حق کے حصول کے لئے برسرجدوجہد ہیںجبکہ بھارتی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بھی اپنے ناکردہ گناہوں کی پاداش میں بھارتی جیلوں میں قیدہیںلیکن اس کے علاوہ بھارتی جیلوں میں قیدیوں کی ایک تیسری قسم ہے اور وہ پاکستان کے شہری ہیں ۔

آیئے آج اس پاکستانی قیدیوں کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔یکم جولائی 2022کوبھارت اور پاکستان نے اپنی جیلوں میں بند ایک دوسرے کے قیدیوں کی تازہ ترین فہرست کا تبادلہ کیا۔ اس کے مطابق بھارت کی مختلف جیلوں میں اس وقت461 پاکستانی اور پاکستانی جیلوں682 بھارتی قید ہیں۔بھارت اور پاکستان سال2008 کے قیدیوں کو قونصلر رسائی کے حوالے سے ایک معاہدے کے تحت اپنے اپنے یہاں کی جیلوں میں موجود دوسرے ملک کے قیدیوں کی فہرست کا تبادلہ ہرسال میں دو مرتبہ، یکم جنوری اور یکم جولائی کو کرتے ہیں۔بھارتی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری بیان میں پاکستان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ان 536 بھارتی ماہی گیروں اور تین سویلین قیدیوں کو فوراً رہا کرکے بھارت واپس بھیج دے جنہوں نے اپنی سزائیں مکمل کرلی ہیں اور جن کی قومیت کی بھی تصدیق ہوچکی ہے۔

بھارت نے پاکستان سے ان 105 ماہی گیروں اور 20 شہری قیدیوں کو فوراً قونصلر رسائی کی اجازت دینے کا بھی مطالبہ کیا جن کے بارے میں یقین کیا جاتا ہے کہ وہ بھارتی شہری ہیں۔ بھارتی حکومت پاکستان میں قید اپنے سویلین قیدیوں، لاپتہ بھارتی دفاعی اہلکاروں اور ماہی گیروں کو ان کی کشتیوں سمیت فوراً رہا کرنے اور بھارت کے حوالے کرنے کی درخواست کرتی ہے۔ پاکستان سے ان 356 بھارتی ماہی گیروں اور تین سویلین قیدیوں کو فوراً رہا کرنے اور بھارت کے حوالے کرنے کے اقدامات تیز کرنے کی اپیل کی گئی ہے جنہوں نے اپنی سزائیں مکمل کرلی ہیں اور جن کی قومیت کی تصدیق ہوچکی ہے۔نئی دہلی نے مزید کہا کہ اس نے پاکستان سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنی طرف سے ان 57 پاکستانی قیدیوں کی قومیت کی تصدیق کے لیے ضروری اقدامات تیز کرے جو وطن واپسی کے لیے پاکستان کی جانب سے قومیت کی تصدیق کے منتظر ہیں۔بھارتی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ بھارت تمام انسانی بشمول ایک دوسرے کے ملکوں کے قیدیوں اور ماہی گیروں کے حوالے سے امور کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کے عہد کا پابند ہے۔

پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان عاصم افتخار احمد نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سزائیں مکمل کرنے والے پاکستانی شہریوں کی جلد سے جلد رہائی یقینی بنائے اور کورونا وبا کی وجہ سے پاکستانی قیدیوں کو سہولتیں مہیا کی جائیں۔بھارت اور پاکستان ایک دوسرے کے ماہی گیروں کو سمندری حدود کی خلاف ورزی کرنے کے نتیجے میں اکثر گرفتار کرتے رہتے ہیں۔ عام طور پر یہ ماہی گیر جدید نیویگیشن ٹیکنالوجی نہ ہونے کے سبب مچھلیاں پکڑنے کے لیے ہمسایہ ملک کے پانیوں میں داخل ہوجاتے ہیں۔ بحریہ کی سکیورٹی فورسز ان بھٹکے ہوئے ماہی گیروں کی کشتیاں ضبط کر کے انہیں جیلوں میں ڈال دیتی ہیں۔ عام طور پر یہ ماہی گیر کئی سال بغیر کسی عدالتی کارروائی کے جیلوں میں گزار دیتے ہیں۔ بعد ازاں ان ماہی گیروں کو دونوں ممالک کے مابین مذاکرات کے بعد رہا کر دیا جاتا ہے۔ دونوں ملکوں کے سویلین شہریوں کی گرفتاریاں اکثر ویزا کی طے شدہ مدت سے زیادہ قیام یا ایسے شہروں اور مقامات کا سفر کرنے کی وجہ سے ہوتی ہے جہاں جانے کی انہیں اجازت نہیں دی جاتی۔

بھارت اور پاکستان کی جیلوں میں بند ایک دوسرے ملکوں کے قیدیوں کے مسائل پر غورو خوض کے لیے 2007 میں بھارت۔ پاک مشترکہ عدالتی کمیٹی قائم کی گئی تھی۔ آٹھ ریٹائرڈ ججوں پر مشتمل اس کمیٹی میں دونوں ملکوں کے چار چار جج شامل ہیں۔ اس کا بنیادی مقصد سویلین قیدیوں پرعائد الزامات کی تفتیش کرنا اور ان کی رہائی میں مدد کرنا ہے۔اس کمیٹی نے 2011 میں کراچی، لاہور، راولپنڈی، امرت سر، جے پور اور دہلی کے تہاڑ جیل کے دورے کیے تھے تاہم کمیٹی سال 2013میں تعطل کا شکار ہوگئی۔ البتہ سال 2018 سے اس نے دوبارہ کام شروع کردیا ہے۔ یہ توہوا پاک بھارت مچھیروں کی کہانی اس کے علاوہ بھی بھارت کی جیلوں میں ایسے بھی لوگ قید ہیں جو کشمیر کوجبری طور پرتقسیم کرنے والی لکیرکے عین قریب ہونے کے باعث انجانی میں کبھی اس خونی لکیرکو پار کرجاتے ہیں اورانہیں تب پتا چل جاتا ہے کہ ہم مقبوضہ کشمیر میں پہنچ چکے ہیں کہ جب وہ قابض بھارتی فوجیوں کے ہتھے چڑ جاتے ہیں۔ایسے ہی ایک واقعہ14 سالہ پاکستانی طالب علم عبدالصمد کے ساتھ نومبر 2021میں پیش آیا ہے کہ جب جبری طورپر منقسم آزاد کشمیر کے خطے سے تعلق رکھنے والا نویں کلاس کا طالب علم عبدالصمد ریاست کشمیرپرکھینچی جانے والی لکیر حادثاتی طور پر عبور کر گیا تھااور اس کے بعد سے یہ بچہ بھارتی قید میں ہے۔

ریاست کشمیرپرکھینچی جانے والی لکیر پر واقع تیتری نوٹ نامی گاؤں کے رہائشی عبدالصمد اپنے کبوتر اڑا رہا تھا اور انہیں پکڑنے کی کوشش کے دوران وہ خونی لائن عبور کر گیا۔ وہ اس دوران یہ جانے بغیر کہ مقبوضہ کشمیرکے پونچھ علاقے میں داخل ہو گیا ہے اور اسے بھارتی قابض بھارتی فوج نے فوری طور پر گرفتار کر لیا۔ بلاشبہ اس طرح کے حادثات خاندانوں کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہوتے ہیں، خاص طور پر جب انہیں یہ معلوم کرنے میں بھی طویل عرصہ لگ جاتا ہو کہ اصل میں ہوا کیا تھا۔ان کے خاندانوں کوقابض بھارتی فوج کے سفاکانہ رویے کااندازہ ہے کہ جووہ اسلامیان کشمیر کے ساتھ گذشتہ 32برسوں سے اپنائی ہوئی ہے اس لئے وہ اپنے پیاروں کے حوالے سے پیچ وتاب میں رہتے ہیں۔اگرچہ حادثاتی طور پر کشمیر کی خونی لکیرپار کرنے کے اس طرح کے کیسز کا عام طور پر مثبت نتیجہ نکلتا ہے اور ایسے لوگوں کو دونوں سائیڈوں سے واپس بھیج دیا جاتا ہے۔

لیکن بھارت میں اکثر لوگوں کورہائی کے لئے بڑا عرصہ لگ جاتا ہے جبکہ کئی کونابود کردیا جاتا ہے اس کی کئی مثالیں موجود ہیں ۔پاکستان اور بھارت نے اپریل 1974میں ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت ایسے قیدیوں کو رہا کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا جنہوں نے انجانی میں خونی لکیرعبور کی ہو۔لیکن اس کے باوجوداس معاہدے اور کونسلر سے ملاقات کے باوجود معاملہ ابھی تک کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔

Comments

Click here to post a comment