ایسا کہیں اور ہوتا تو لوگ انہیں اٹھا کر کچرے کے ڈھیر پرپھینک دیتے، انہیں کوڑے کے ٹرک میں ڈال کر ملک کی سرحدوں سے باہر الٹ دیتے لیکن ایسا یہاں نہیں ہوا اور نہ ہی کچھ ایسا ہونے کی امید ہے. اس کی وجہ یہ نہیں کہ بھوک، غربت، افلاس ہماری کچی آبادیوں سے نکل چکی ہے. اب کچرے کے ڈھیروں سے کوئی رزق تلاش کرتا نہیں ملتا. اب بھوک سے بلکتے بچے کے لیے کوئی مجبور بیوہ راہ چلتے بابو کو آنکھ نہیں مارتی. اب اسپتالوں میں غریبوں نے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنا چھوڑ دیا ہے. یہ سب کل بھی ہماری پہچان تھی اور یہ آج بھی ہماری شناخت ہے. ہم اپنی شناخت بھولے ہیں نہ پہچان کہ یہاں کل بھی بھٹو زندہ تھا اور آج بھی بھٹوزندہ ہے.
جب کچھ نہیں بدلنا تو پھر ایک تھکے ماندے بوڑھے شاہ کے جانے اور ایک تازہ دم شاہ کے آنے سے دو وقت کی روٹی کو ترستے لوگ امید کیوں باندھ رہے ہیں؟ ذوالفقار علی بھٹو کے قریبی ساتھی قائم علی شاہ تیسری بار ’’شاہ‘‘بنے تھے، اس سے پہلے وہ دو بار وزیر اعلٰی سندھ کی حیثیت سے وزیر اعلٰی ہاؤس کے مکین رہ چکے تھے. یہ بڑی بات ہے کہ اتنے عرصے اتنے بڑے عہدے پر رہنے والے کے دامن پر مالی کرپشن کا کوئی داغ نہیں لگا لیکن یہ داغ کیا کم ہیں کہ کسی بھی کرپشن پر انھوں نے کبھی ناک بھوں نہیں چڑھائی، وہ پارٹی کی دبئی قیادت کے لیے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی میں دبی ربڑ اسٹمپ بنے رہے بالکل ایسے ہی جیسے مقبوضہ کشمیر کے وزیر اعلٰی نئی دہلی کے کٹھ پتلی بنے رہتے ہیں، کشمیریوں پر گولی چلے یا اندھا کر دینے والی پیلٹ گن کے فائر ہوں، ان کے لبوں میں خلا پیدا نہیں ہوتا۔
قائم علی شاہ کا دور امن و امان کے حوالے سے بدترین دور رہا. مجھے شاہ صاحب کے اقتدار میں رمضان کے وہ دن نہیں بھولتے جب شور مچاتی ایمبولینسیں سول اسپتال کے مردے خانے میں خاموشی سے آکر رک جاتیں، وہاں موجود ٹی وی چیبنلز کے کیمرا مین پھرتی سے کیمرے سیدھے کر لیتے، پریس فوٹو گرافر بھی کھچ کھچ تصویریں بنانے کے لیے تیار ہوجاتے، چھیپا اور ایدھی کے رضاکار ایمبولینس کا پچھلا دروازہ کھول کر اسٹریچر کھینچ کر نیچے اتارتے جس پر خون میں لت پت ایک لاش رکھی ہوتی تھی، ادھ کھلی آنکھوں والی کسی نوجوان کی لاش، جس کی آنکھوں میں خوف منجمد ہوچکا ہوتا تھا، اس کے پاؤں بندھے ہوتے تھے اور پیشانی کے وسط میں گولی کے سوراخ سے بہتا لہو اس کا چہرہ تر کرتا ہوا اسٹریچر پر پھیلتا جمتاچلا جاتا تھا. مجھے گنتی یاد نہیں لیکن اس روز سول اسپتال کراچی کے مردہ خانے میں اتنی لاشیں لائی گئیں کہ وہاں جگہ ختم ہوگئی، پوسٹ مارٹم کرنے والوں کے ہاتھ شل ہوچکے تھے اور لاشوں کا سلسلہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا. میرے خیال میں قائم علی شاہ کو تب ہٹانا چاہیے تھا
سائیں کی واحد خوبی بھٹو خاندان سے وفاداری اور تابعدار ی تھی. بلاول ہاؤس سے جو کچھ کہا جاتا رہا وہ من و عن ویسا ہی کرتے. ان احکامات کے لیے انہوں نے قانون و آئین کی کتاب دراز میں رکھ کر بند کر رکھی تھی. بوڑھی چھاتی ٹھونک ٹھونک کر کراچی آپریشن کے کپتانی کے دعوے کرنے والے کپتان اپنی پارٹی قیادت کی ہدایت پر خود اس آپریشن کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتے رہے تاکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی ڈاکٹر عاصم، اویس مظفر ٹپی اور اسد کھرل تک نہ پہنچ سکیں. اس وقت کے ڈی جی رینجرز جو اب ڈی جی آئی ایس آئی ہیں نے ایک ملاقات میں ان سرکاری رکاوٹوں کا بتایا جس سے آپریشن کے مطلوبہ نتائج نہیں مل رہے تھے. جناح کورٹ کی پرشکوہ عمارت میں ڈی جی رینجرز رضوان اختر کا کہنا تھا کہ ابھی تک انسداد دہشت گردی کی وہ خصوصی عدالتیں نہیں بنیں جہاں آپریشن میں گرفتار دہشت گردوں کے مقدمات چلنے ہیں، انہوں نے بتایا کہ سندھ حکومت نے مقدمات کی پیروی کے لیے وکلائے استغاثہ تک مہیا نہیں کیے، جب بھی بات ہوتی ٹال دی جاتی، مجبورا میں نے خود اپنے دفتر میں وکلاء کے انٹرویو کیے اور زور دے کر انہیں مناسب تنخواہوں پر رکھوایا.
شاہ صاحب آخر وقت تک بلاول ہاؤس کے اشاروں پر فرمائشی گھنگھرو باندھ کر ناچتے رہے، ڈاکٹر عاصم کو ریلیف دلانے کے لیے رینجرز کے اختیارات پر قد غن لگادی، اسمبلی سے عجیب قانون پاس کرا لیا کہ رینجرز اب کسی سیاسی شخصیت یا سرکاری سیاسی جماعت کے دفتر پر چھاپے سے پہلے سندھ حکومت سے اجازت لے گی، وہ اشو کسی نہ کسی طرح حل ہوا کہ اب پھر پارٹی کے ایک اہم اور مرکزی رہنما کے فرنٹ مین اسد کھرل کی گرفتاری کے بعد حکومت رینجرز کو اختیارات دیتے ہوئے ماش کے آٹے کی طرح اینٹھ رہی ہے. یہ سب اسی طرح چلتا رہے گا، جانے دیجیے شاہ کو اور آنے دیجیے شاہ کو، جانے والے کے جانے سے کچھ بدلے گا نہ آنے والا کچھ بدل پائے گا. پہلے ایک بوڑھا گدھ لاش نوچا کرتا تھا، اب جوان گدھ طاقتور پنجوں کے ساتھ ماس نوچے گا
ماشاءاللہ بہت عمدہ