ہوم << معنیِ ذِبحِ عظیم آمد پسر-حماد یونس

معنیِ ذِبحِ عظیم آمد پسر-حماد یونس

اللہ تبارک تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے : اور ابراہیمؑ ، جس نے وفا نبھائی ۔(سورۃ النجم ، آیت 37)

خالقِ دو جہاں کی جانب سے ایسی سند اور دستاویز ، کس کو ملی ہو گی؟ کیا ایسے درجات اور مراتب یونہی مل جاتے ہیں؟ کیا وفا نبھانا آسان ہے؟ جبکہ ہزارہا سال سے یہ دنیا بے وفائی کا رونا رو رہی ہے؟ جب نومولود سیدنا اسماعیل علیہ السلام اور سیدہ ہاجرہؑ کو عرب کے بے آب و گیاہ صحرا میں ، اللہ کے حکم کے مطابق کھلے آسمان تلے چھوڑ کر جا رہے تھے ، تو ایک ذمہ دار شوہر ، اور لگ بھگ سو برس سے اولاد کو ترستے باپ کے دل پر کیا گزری ہو گی؟
یہیں سے تو اس غریب و سادہ و رنگین داستانِ حرم کی ابتدا ہوتی ہے۔ پانی کے لیے سرگرداں نو مولود سیدنا اسماعیل علیہ السلام کا غم الگ ہے اور ان کی والدہ، اماں ہاجرہ کا الگ ۔پیاس سے بلکتے بچے کے لیے پانی کی تلاش کو اگر ماں نکلے تو اس صحرا میں کون انسان ہے ، جو اس بچے کا دھیان رکھے گا۔ اور اس بچے کو اٹھا کر اس تپتی ریت پر، پہاڑیوں کے بیچ ننگے پاؤں چلنا ، یہ کام کس کے بس کا ہے؟

ان اسماعیلؑ کو جس اللہ کے بھروسے حضرت ابراہیم علیہ السلام پیچھے چھوڑ کر چلے تھے ، ان کی زوجہ بھی تو اسی اللہ کے بھروسےچھوڑ کر جا رہی ہیں۔ مگر اس صحرا میں چشمہ ہے نہ تالاب ، لہذا ماں بار بار صفا اور مروہ کے بیچ چکر لگاتی جا رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یونہی تو انہیں اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں نہیں شمار کیا!!! کیا یہ سعی اور طواف آج تک مناسکِ حج میں شامل نہیں؟ جبکہ اسے سوا چار ہزار برس گزر چکے ہیں۔ اور جب ماں تھک ہار کر خالی ہاتھ واپس لوٹ رہی تھیں تو بچے کے پیروں کے پاس پانی کا چشمہ ابل پڑا۔ ٹھنڈے اور میٹھے ، شفا بخش پانی کا چشمہ ۔

اسی چشمے تلے ایک دنیا آباد ہونے والی ہے ، مگر یہ بچہ ، اسماعیل ابھی جوان نہیں ہوئے کہ والد نے خواب میں انہیں اپنے ہاتھوں سے ذبح کرتے دیکھ لیا ہے۔ عام شخص ایسا منظر دیکھتے ہی صدقہ و خیرات کر کے ردِّ بلا کا سوچتا ہے۔ مگر والد تو حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں ، جو یہ جانتے ہیں کہ رویائے صادقہ نبوت کا چالیسواں حصہ ہیں۔ انہوں نے یہ جان لیا ہے کہ پروردگار کو اپنے خلیل ، اپنے دوست کا امتحان مقصود ہے۔ یہ وہی اللہ کے دوست ہیں جو آتشِ نمرود جیسے امتحان سے بلا جھجھک سرخرو نکلے تھے ۔ مگر اولاد ، جس کے بارے میں واضح فرمان ہے کہ اولاد آزمائش ہے(سورۃ انفال ، آیت 28) ۔

مگر وفائیں نبھانا بھی سب کے بس کی بات کہاں ہے ، انہی کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد۔ اور حضرت ابراہیمؑ علیہ السلام سے بڑھ کر وفا نبھانے والا کون تھا؟ انہوں نے اپنے صاحبزادے سے اس خواب کا تذکرہ کیا ، اور ظاہر ہے کہ حضرت اسماعیلؑ تسلیم و رضا کے پیکر تھے، مگر کیا وہ انکار کر دیتے تو حضرت ابراہیمؑ اس حکمِ خداوندی کو بجا نہ لاتے؟ جی نہیں ، اس پوچھنے اور مشورہ کرنے کی الگ مصلحت ہے جس کا ذکر پھر کبھی کیا جائے گا۔
خیر ، حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام، اللہ کی راہ میں قربان کرنے اور قربان ہونے پر رضامند تھے ، اور عہدِ الست کو نبھانے پہ تیار تھے۔ اس کے سوا وفا کیا ہے؟

اللہ تعالیٰ کو اپنے خلیل کی یہ ادا اس قدر پسند آئی کہ رہتی دنیا کے لیے اسے اسے مثال بنا دیا۔ پھر انہی ابراہیم اور اسماعیل علیھما السلام نے کعبۃ اللہ کی تعمیر کی ، جو آج پونے دو ارب انسانوں کا قبلہ ہے۔ یہی کعبہ تو ہے ، جس کی جانب منہ کر کے یہ امت نماز ادا کرتی ہے۔ یہ تمام مناسکِ حج ، عمرہ ، قربانی ، عید الاضحیٰ ، یہ سب انہی صاحبِ صدق و صفا، اہلِ وفا حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے کنبے کی یادگار ہیں۔ مگر اس سب میں ایک شخصیت ہے ، جو مستقل ہے، حضرت اسماعیل علیہ السلام۔ وہی تو اس قصے کی سرخی ہیں ۔ رضائے ربی کے لیے انہی کو پیچھے چھوڑا گیا، انہی کو اللہ کے بھروسے پر ان کی والدہ تپتے صحرا میں چھوڑ کر پانی کی تلاش میں نکلیں ، اور پھر انہی کے حلقوم پر چھری چلانے کا حکم صادر کیا گیا۔ اللہ کے حکم اور بھروسے پر اپنے سب کچھ کو فدا کر دینے کا نام ہی تو قربانی ہے۔

اپنے رب کے حکم اور مرضی پر اپنی سب سے محبوب چیز کو قربان کرنا ، یہی تو وفا ہے۔ چند لاکھ روپوں میں ، ٹوؤرازم کرنا ، اپنی دولت کی نمائش کرنا ، ، یا اسی نمائش کے جذبے سے کسی جانور کو ذبح کرنا، یہ کیسا حج اور کیسی قربانی ہے؟ یہ تو لغت کے مطابق بھی قربانی نہیں بنتی کہ قربانی کا بدلہ کچھ نہیں ہوتا ، تو یہ نمائش کیسی؟ جبھی ڈاکٹر علی شریعتی شہید رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ، حج میں لکھا تھا،
ایام، ایامِ حج است و موسم، موسمِ ذبحِ اسماعیلؑ
ای حاج! اسماعیلِؑ تُو کیست؟ چیست؟
چرا کہ ذبحِ گوسفند بجای اسماعیلؑ،
"قربانی" و ذبحِ گوسفندبہ  عنوانِ گوسفند، "قصابی" است!
ایام، ایامِ حج ہیں اور موسم اسماعیلؑ کی قربانی کا ۔ اے حاجی! تیرا اسماعیلؑ کون ہے؟ کیا ہے؟کیونکہ دنبے کو اسماعیلؑ کی جگہ ذبح کرنا "قربانی"اور دنبے کو بطور دنبہ ذبح کرنا قصابی ہے۔

Comments

Click here to post a comment