ہوم << آزادی اظہار کا سیاسی چیلنج - سلمان عابد

آزادی اظہار کا سیاسی چیلنج - سلمان عابد

پاکستان میں آزادی اظہار ایک بڑا سیاسی چیلنج ہے ۔ اگرچہ اپنی بات کرنے کا حق ہمارا دستور بھی دیتا ہے او ریہ ہمارا سیاسی ، آئینی او رجمہوری حق بھی ہے ۔ لیکن اس کے باوجود یہاں اپنی بات کرنا اور بڑا سچ بولنا طاقت سے جڑے افراد یا اداروں کو پسند نہیں ۔ یہ کوئی کہانی نئی نہیں بلکہ ایک پرانی کہانی ہے اور ہر دور میں سچ بولنے والوں کو مختلف سیاسی ، انتظامی ، قانونی او رمعاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔یہ ہی وجہ ہے کہ قانونی حق کے باوجود آزادی اظہار کے حوالے سے ہمیں مختلف نوعیت کے ریاستی ،حکومتی ، ادارہ جاتی یا معاشرتی سطح کے چیلنجز کا سامنا ہے جو اس ملک میں سیاست ، جمہوریت ، آئین اور قانون کی بالادستی کو متاثر کرنے کا سبب بنتے ہیں ۔بنیادی طور پر آزادی اظہار کا مقدمہ پاکستان کی مجموعی جمہوریت او ردیگر آزادیوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے ۔ جب ہمارے سیاسی نظا م میں جمہوریت خود ایک بڑے ارتقائی عمل سے گزررہی ہے یا اسے مختلف محاذوں پر کمزوری کا سامنا ہے وہاں آزادی اظہار خود بھی بڑا چیلنج ہوگا۔

حالیہ دنوں میں پاکستان میں ایک خاص نقطہ نظر سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کو مختلف حوالوں سے تشدد، خوف ہراس، مقدمات سمیت بڑی دھمکیوں کا سامنا ہے ۔ماضی اور حال دونوں میں ایسے صحافیوں کی فہرستیں یا نام موجود ہیں جن کو سابقہ حکومت یا موجودہ حکومت یا اسٹیبلیشمنٹ کی وجہ سے مختلف نوعیت کے مسائل کا سامنا رہا ہے ۔ جو ماضی میں ہوا او رجن کے ساتھ بھی ہوا وہ بھی غلط تھا او رجو کچھ آج بھی ہورہا ہے اور جن کے ساتھ ہورہا ہے وہ بھی غلط ہے ۔ کیونکہ طاقت کے انداز سے مسائل کا حل تلاش کرنا او رطاقت کا استعمال دونوں ہی غلط حکمت عملیاں ہیں ۔ ان حکمت عملی سے نہ تو ماضی میں کوئی فائدہ ہوسکا او رنہ آج کوئی فائدہ ہوگا۔ یہ عمل بلاوجہ ایک ردعمل کی سیاست کو جنم دیتا ہے جو ماحول میں سیاسی تلخی کو پیدا کرکے حالات کو اور زیادہ بگاڑ میں مبتلا کرتا ہے ۔لیکن لگتا یہ ہے کہ ہم نے بطور ریاست ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بجائے حالات کو اور زیادہ بگاڑ لیا ہے ۔

بنیادی طور پر آزادی اظہار اور ذمہ داری کا احساس میں ایک باریک سی ریڈ لائن ہوتی ہے ۔ کسی بھی اظہار کے لیے ریاست کا مفاد بھی اہم ہوتا ہے ۔ مگر بعض دفعہ ایسا دیکھنے کو ملتا ہے کہ ہم بطور فرد ریاست سے زیادہ بالادست ہوگئے ہیں ۔ عقل او ردلیل کے مقابلے میں جذباتیت پر مبنی آزادی اظہار زیادہ بالادست ہوجاتا ہے او رہم سمجھتے ہیں ریاست کے مفاد سے ذیادہ ہم اہم ہیں ۔ یہ سوچ اور فکر بھی ریاست اور فرد کی سطح پر ٹکراو کی کیفیت پیدا کرتی ہے ۔صحافت میں آج کل آزادی اظہار کے نام کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے بطور ہتھیار بھی استعمال کیا جاتا ہے اور بہت سے لکھنے اور بولنے والوں کا اپنا ایک مخصوص سیاسی ایجنڈا بھی ہوتا ہے ۔پروپیگینڈا مہم اور درست اظہار میں بنیادی نوعیت کا فرق ہوتا ہے او ریہ ہی طے کرتا ہے کہ ہم آزادی اظہار کے نام پر کس حد تک سنجیدگی او رذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔اصل میں جو ایک بڑی سیاسی تقسیم اس معاشرے میں پیدا ہوئی ہے اس میں صحافی بھی اس کا اہم حصہ بن گئے ہیں ۔ اسی پسند و ناپسند کی بنیاد پر سوچ کی تمیز کے بغیر اب صحافت کو چلایا جارہا ہے ۔ جب صحافت کا انداز اسی بنیاد پر آگے بڑھایا جائے تو یہ موجودہ مسائل بھی ہمیں مختلف محاذوں پر دیکھنے کو ملیں گے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ اب چینلز سمیت مختلف صحافیوں کو مختلف سیاسی گروہ بندی کے طور پر دیکھا او رپرکھا جاتا ہے ۔یہ تقسیم پاکستان میں صحافت اور آزادی اظہار کے لیے کوئی اچھا پہلو نہیں او راس پر سنجیدگی سے غور کیا جانا چاہیے ۔

اصل میں یہ چیلنج ایسے معاشروں میں زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے جہاں حکمرانی کا نظام طاقت کی حکمرانی سے جڑا ہوتا ہے ۔ یعنی حکمران یا بالادست طبقہ معاملات کو سیاسی ،آئینی اور قانونی فریم ورک کی بجائے طاقت کے انداز میں حل کرنا چاہتا ہے ۔ جہاں جمہوری روایات کمزور ہونگی تو ہمیں ایسے مسائل کو تواتر کے ساتھ دیکھنے کو ملتے ہیں ۔یہ جو روایت ہم ڈال رہے ہیں کہ سچ ہی ہوگا جو ہمیں قبول ہوگا اور اسی سچ کے فریم میں سب کو اپنا اپنا سچ بولنا ہوگا ، درست حکمت عملی نہیں ۔ہر جمہوری معاشرے میں ایک ریاست او رحکومت کے مقابلے میں ایک متبادل نقطہ نظر کی اہمیت ہوتی ہے او راس رائے کو قبول کیے بغیراس کا احترام کیا جاتا ہے ۔کیونکہ ایک ایسے معاشرے میں جہاں مختلف نظریات او رسوچ کے لوگ موجود ہوتے ہیں ان کا ایک نقطہ نظر ہونا غیر فطری ہوتا ہے ۔سیاست او رجمہوریت کی بنیادی کامیابی کی کنجی بھی مختلف لوگوں کے سچ کو عزت دینے سے جڑا ہوتا ہے ۔ یہ جو روش ہے کہ ہم ایک ہی سوچ پر مبنی معاشرہ بنانا چاہتے ہیں ایسا ممکن نہیں ہوگا اور یہ سوچ حالات میں اور زیادہ جبر کے ماحول کو پیدا کرنے کا بنتا ہے ۔
آزادی اظہار میں ایک بڑا چیلنج اپنی دی ہوئی آزاری کی حفاظت کرنا ہوتا ہے ۔ یعنی آزادی اظہار پر مبنی سچ ذمہ داری کے ساتھ خود بھی بولا جائے اور دوسروں کوترغیب دی جائے کہ اپنے اظہار میں ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جائے ۔ ذمہ داری سے مراد تنقید او رتضحیک میں فرق کو سمجھنا ہوتا ہے ۔تنقید کا حق ہر کسی کو ہونا چاہیے اگر وہ تہذیب او رقانونی و سیاسی ددائرہ کار میں لیکن براہ راست کسی خاص ایجنڈے کے تحت کسی کی بھی پگڑی اچھالنا درست عمل نہیں ۔بالخصوص جو صحافی حضرات سوشل میڈیا سے جڑے ہوئے ہیں ان کو زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا ، کیونکہ ریٹنگ کی اس میڈیا سیاست نے سنجیدہ صحافت کو چھوڑ کر عملا ایک ایسا میڈیا کو طاقت دی ہے جو مخالفت برائے مخالفت پر قائم ہے او ر اس کا مقصد ریٹنگ کی میڈیا سیاست کو طاقت فراہم کرنا ہے ۔صحافت میں میڈیا کوڈ آف کنڈکٹ یا ضابطہ اخلاق کی بڑی اہمیت ہے اور آج کے دور میں اس کو اور زیادہ اہمیت حاصل ہوگئی ہے ۔ دنیا میں مختلف ممالک میں میڈیا کوڈ آف کنڈکٹ پر نئے انداز سے بحث بھی ہورہی ہے اور نئی پالیسیاں اور قانون سازی بھی ہورہی ہے ۔ اس میں حکومت ، ادارے اور صحافت سے جڑے اداروں او رتنظیموں کی مشاورت سے نئے جدید نگرانی کے نظام سامنے آرہے ہیں ۔ جبکہ اس کے برعکس پاکستان میں اس بحث کو بہت زیادہ پزیرائی ہمارے میڈیا میں حاصل نہیں او رنہ ہی اس پر کوئی بڑا علمی و فکری کام ہورہا ہے ۔

اس وقت بنیادی طو رپر پاکستان میں آزادی اظہار یا صحافت یا صحافی کی آزادی کے لیے ایک بڑی میڈیا لٹریسی کی مہم درکار ہے ۔ جہاں عملی طور پر اس بات کا سیاسی و سماجی شعور دینے کی ضرورت ہے کہ نہ صرف میڈیا بلکہ مجموعی طور پر معاشرے میں ہر وہ فرد جو بولتا ہے یا لکھتا ہے وہ کیسے اپنی آزادی اظہار کی حفاظت کرسکتا ہے ۔ اس حفاظت کے لیے خود اس پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے او رجو بھی ادارے نگرانی یا میڈیا یا آزادی اظہار سے جڑے نظا م کی شفافیت پر کام کرتے ہیں ان کا کردار کیا ہونا چاہیے۔اس میں بڑا کردار خود ہماری صحافتی تنظیموں کا بھی بنتا ہے مگر اس عمل میں ہماری صحافتی تنظیموں کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان بنتے ہیں ۔ ہمارے علمی و فکری میڈیا کے تعلیمی اداروں میں بھی وہ کچھ نہیں ہورہا جو ہونا چاہیے تھا ۔ اسی طرح ہم دنیا کے تجربات سے بھی سیکھنے کے لیے تیار نہیں کہ کیسے ان مغربی معاشروں نے آزادی اظہار یا میڈیا سے جڑے کوڈ آف کنڈکٹ میں کیا کچھ بہتر کیا ہے ۔ ہماری سوچ اور فکر میں جدیدیت کی بحث تو موجود ہے او رہم باہر کے اداروں کی مثالیں بھی دیتے ہیں مگر عملا ہمارے کام کا انداز روائتی اور فرسودہ ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ یہاں آزادی اظہار کے تناظر میں جو مضبوط کام کیا جانا چاہیے تھا اس کا فقدان غالب نظر آتا ہے ۔

آزادی اظہار کی یہ جنگ محض صحافیوں یا میڈیا تک محدود نہیں او رنہ ہی یہ جنگ کسی سیاسی تنہائی میں جیتی جاسکتی ہے ۔ اس جنگ کو اگر ہم نے واقعی جیتنا ہے او راس میں جذباتیت کے مقابلے میں زیادہ ذمہ داری اور سچ کا احساس پیدا کرنا ہے تو معاشرے کے تمام بڑے فیصلہ ساز فریقین کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ۔ بالخصوص سیاسی نظام کو جب تک جمہوری ، سیاسی او رقانونی فریم ورک میں نہیں لایا جائے گا تو وہاں ہم آزادی اظہار کے عمل کو بھی کوئی بڑی سیاسی طاقت فراہم نہیں کرسکیں گے ۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا تمام اہم فریقین اس آزادی اظہار کی ہر سطح پر حفاظت کرنے او راپنی ذمہ داری کے لیے تیار ہیں تو جواب کافی کمزور او رمبہم نظر آتا ہے ۔

Comments

Click here to post a comment