ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترکی میں سزائے موت کی ممکنہ بحالی کی بات کی تھی. اس اعلان نے یورپی شراکت داروں کو شدید ردعمل پر اکسایا ہے. 2004 میں سرکاری طور پر یورپی یونین میں ترکی کی شمولیت کی شرط کو پورا کرتے ہوئے سزائے موت کو ختم کر دیا گیا تھا. اردگان نے استنبول میں ناکام فوجی بغاوت کے متاثرین کے جنازے کے اجتماع میں لوگوں کے مطالبے پر کہا تھا کہ ہم آپ کی درخواست نظر انداز نہیں کر سکتے. سرکاری طور پر اور ایک ریاست کے طور پر، ہم جانتے اور سمجھتے ہیں کہ یہ ان لوگوں کا مطالبہ ہے جنہوں نے فوجی بغاوت کو ناکام بنایا ہے. ہماری حکومت اپوزیشن کے ساتھ بات چیت کے بعد اس کا فیصلہ کرے گی۔ اس کے بعد ترکی کے وزیر اعظم بن علی یلدرم نے کہا کہ سزائے موت کی ممکنہ بحالی پر پہل ےپارلیمنٹ میں ایک بحث کی ضرورت ہے.
ترکی میں سزائے موت بحال ہوتی ہے تو یہ یورپی یونین کی رکنیت کے معیار کے برعکس ہوگا. ترکی اور یورپی کے درمیان رکنیت مذاکرات برسوں سے تعطل کا شکار ہیں. برسلز سے یورپی سفارت کاری کے سربراہ Federica Mogherini نے اس کے خلاف ردعمل دیا. برسلز میں یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں پہنچنے پر اطالوی وزیر نے کہا کہ " قانون کی حکمرانی ترکی کے فائدے میں ہے، مزید یہ کہ ترکی کے اقدامات اسے یورپی یونین سے دور کرنے کے لیے کوئی بہانا نہیں ہے." جرمن حکومت نے بھی اس پر شدید ردعمل دیا اور اس کے ترجمان ، اسٹیفن Seibert نے خبردار کیا سزائے موت کی بحالی یورپی یونین کے ساتھ الحاق کی کوشش کا اختتام ہوگا". یورپی یونین کے ردعمل سے اندازہ ہوتا ہے کہ ترکی میں سزائے موت کی بحالی کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور اس سے نہ صرف رکنیت کے حصول کی خواہش کو دھچکا لگے گا بلکہ تعلقات میں بھی فرق پڑے گا.
تبصرہ لکھیے