ہوم << اِک نیا دَور، جس میں نیا کچھ نہ تھا - فہد کیہر

اِک نیا دَور، جس میں نیا کچھ نہ تھا - فہد کیہر

بنو امیہ کی حکومت جس دَور میں اپنے عروج پر پہنچی، عین انہی ایّام میں اس کا خاتمہ بھی ہو گیا۔ خراسان اور وسطِ ایشیا سے ابھرنے والی تحریک نے مسلم تاریخ کے پہلے شاہی خاندان کا خاتمہ کر دیا لیکن اس انقلاب کا انجام بھی وہی نکلا، یعنی اسلامی دنیا ایک خاندان سے دوسرے خاندان کی گرفت میں چلی گئی، جس کا نام تھا بنو عباس۔ اک نئے دور کا آغاز ہوا، جس میں نیا کچھ نہ تھا۔

بنو عباس حضور نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباسؓ کی اولاد سے تھے اور عرصے سے بنو امیہ کے خلاف ایک خفیہ تحریک چلا رہے تھے۔ انہی کے ایک امام ابراہیم بن محمد نے تحریک کو منظم کرنے، افرادی قوت اور مالی مدد حاصل کرنے اور موقع دیکھ کر بنو امیہ کے خلاف علانیہ جنگ کرنے کے لیے ابو مسلم خراسانی کو پورے اختیارات کے ساتھ خراسان بھیجا تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ آخر تک بنو عباس نے اپنی دعوت میں کبھی یہ نہیں کہا تھا کہ یہ جدوجہد اصل میں بنو عباس کے کسی فرد کو تخت پر بٹھانے کے لیے ہے، بلکہ ہمیشہ یہی کہا گیا کہ ہم آلِ رسولؐ کو اُس کا حق دلانے اور انہیں خلیفہ بنانے کے لیے میدانِ عمل میں ہیں۔

ایک وعدہ جو وفا نہ کیا گیا

یہاں تک کہ سن 748ء میں جب حج بیت اللہ کے موقع پر بنو عباس اور علویوں کے درمیان ایک خفیہ اجلاس ہوا، علوی مطلب حضرت علیؓ کی اولاد، تب بھی واضح طور پر کہا گیا تھا کہ خلافت آلِ علیؓ کو دی جائے گی۔

یہ وہ زمانہ تھا جب بنو امیہ کے خلاف تحریک کی کامیابی کے آثار رونما ہو چکے تھے۔ ابو مسلم خراسان میں سیاہ و سفید کا مالک بن چکا تھا اور واضح نظر آ رہا تھا کہ جلد ہی اُس کی کوششیں رنگ لائیں گی اور دمشق سے بھی امویوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ تو اُس خفیہ ملاقات میں یہ طے کیا جانا تھا کہ کامیابی کے بعد خلیفہ کسے بنایا جائے گا؟

اجلاس میں ابو جعفر المنصور بھی موجود تھا، وہی جو بعد میں عباسیوں کا دوسرا خلیفہ بنا۔ اُس نے رائے پیش کی کہ خلیفہ حضرت علیؓ کی اولاد میں سے کسی کو بنانا چاہیے۔ پھر حضرت حسنؓ کی اولاد میں سے محمد بن عبد اللہ کے نام پر اتفاق کیا گیا، جو محمد نفس زکیہ کے نام سے مشہور تھے۔

ذرا ایک منٹ کے لیے تصوّر کیجیے کہ اگر اجلاس میں ابو جعفر کوئی اور نام لیتا، بلکہ بنو عباس میں سے کسی کا نام تجویز کرتا تو کیا ہوتا؟ یقیناً اختلاف پیدا ہوتا اور بنو امیہ کی حکومت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے وَن پوائنٹ ایجنڈے پر جو اتحاد اب تک قائم تھا، اس کا خاتمہ ہو جاتا۔ تو ابو جعفر کا یہ اعلان بہت بڑی اور اہم سیاسی چال تھی کیونکہ اس کے نتیجے میں یہ تحریک مزید توانا ہو گئی۔ خاص طور پر علوی تو پوری یکسوئی کے ساتھ امویوں کی گرتی دیواروں کو آخری دھکا دینے میں لگ گئے۔ انہیں شاید اندازہ ہی نہیں تھا کہ اِس تمام تر دوڑ دھوپ کا فائدہ آخر میں عباسی سمیٹیں گے۔

پھر ہوا بھی یہی، کوفے میں بالآخر 750ء کے اوائل میں بنوعباس کا ایک فرد عبد اللہ بن محمد عباسیوں کا پہلا خلیفہ قرار پایا۔ وہ ابو العباس کے نام سے مشہور تھا اور پھر سفاح بھی کہلایا یعنی 'خونریز'۔

اس شہر یعنی کوفے میں دو قسم کے لوگ تھے: ایک بنو عباس کے حامی اور دوسرے آلِ علیؓ کے لیکن ابو العباس کی خلافت کا اچانک اعلان اس دعوے کے ساتھ کیا گیا کہ حضرت علیؓ کی غیر فاطمی اولاد محمد بن حنفیہ کے صاحبزادے ابو ہاشم نے اپنے انتقال کے وقت حضرت عباسؓ کی اولاد سے محمد بن علی کے حق میں وصیّت کی تھی، یعنی ان کا دعویٰ خلافت محض ہوائی نہیں بلکہ وہ بر حق خلیفہ ہیں۔ بہرحال، اپنی طاقت، مال و دولت اور اثر و رسوخ کے بل بوتے پر عباسی آگے نکل گئے اور علوی اور فاطمی پیچھے رہ گئے، جن کے لیے آگے ایک مشکل دَور شروع ہونے والا تھا۔

عباسیوں کےعتاب کا نشانہ

عباسیوں کے عتاب کا پہلا نشانہ ظاہر ہے بنو امیہ بنے۔ دمشق پر قبضے کے بعد اموی خاندان کے زندوں بلکہ مُردوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ اُن سے جو سلوک کیا گیا، اُس سے کہیں زیادہ حیرت انگیز رویّہ اپنایا گیا آلِ علیؓ کے ساتھ۔ عباسیوں نے اقتدار حاصل کرنے اور پھر اسے مضبوط کرنے کے لیے ہر وہ طریقہ اپنایا، جس کے لیے بنو امیہ بدنام تھے۔ وہ اپنے حریفوں کو زیر کرنے کے لیے ہر حد تک گئے، بلکہ کئی بار تو تمام حدیں پار کر گئے۔ انہیں اپنی صفوں میں جو خطرہ نظر آیا، اسے ختم کرنے میں تاخیر نہیں لگائی. اثنائے عشریہ شیعوں کے مطابق بنو عباس کی حکومت آنے کے بعد اُن کے جتنے بھی امام آئے، سب کی موت کے ذمہ دار عباسی خلیفہ ہی تھے:امام جعفر صادق سے لے کر امام حسن عسکری تک۔

ان سے پہلے ابتدائی دور میں ہی زیاد بن صالح جیسا جرنیل عباسی خلیفہ کی سیاست کی بھینٹ چڑھ گیا۔ جنگِ تالاس میں چین کو تاریخی شکست دینے والا زیاد خلیفہ کے ایڈونچر کی وجہ سے اپنوں ہی کے ہاتھوں قتل ہوا۔ پھر ابو مسلم خراسانی، وہ کہ جس نے عباسی تحریک میں روح پھونکی، اسے ایک زندہ و جاوید قوت بنایا، زمانے کی سب سے بڑی طاقت کے روپ میں ڈھالا، اسے بھی انتہائی بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔

دراصل عباسیوں کا دوسرا خلیفہ ابو جعفر المنصور ابو مسلم کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو پسند نہیں کرتا تھا۔ اسی نے زیاد بن صالح کو خراسان میں ابو مسلم کا زور توڑنے کے لیے بغاوت پر آمادہ کیا تھا، لیکن زیاد کامیاب نہ ہو سکا اور یوں اپنی جان سے گیا۔ لیکن ابو جعفر موقع کی تلاش میں تھا، اپنے دورِ حکومت کے آغاز کے بعد اُس نے اپنے چچا عبد اللہ بن علی کی بغاوت کے خاتمے کے لیے ابو مسلم کو بلا بھیجا۔ یوں ابو مسلم کو خراسان سے نکلنا پڑا اور بادل نخواستہ خلیفہ کے پاس حاضر ہونا پڑا، یہی اُس کا آخری دن ثابت ہوا۔

خراسان میں بغاوتیں

ابو مسلم کے قتل کی خبر خراسان پہنچی تو گویا آگ لگ گئی۔ ان بغاوتوں سے کئی راز بھی افشا ہوئے کہ آخر خراسان میں عباسی تحریک کی دعوت کیا تھی اور کس دعوت کے ساتھ اس نے اپنے قدم جمائے تھے۔ اسی سے اندازہ لگا لیں کہ ابو مسلم کے خون کا بدلہ لینے کے لیے جو پہلی آواز خراسان سے بلند ہوئی وہ ایک مجوسی سنباد کی تھی۔ اس کی پکار پر نیشا پور سے لے کر رے تک، پورا شمالی فارس اٹھ کھڑا ہوا۔ البتہ یہ بغاوت زیادہ عرصے ٹھیر نہیں پائی اور بُری طرح کچل دی گئی۔

لیکن ایسی تمام بغاوتوں سے یہ مکمل طور پر واضح ہو گیا کہ ابو مسلم کی دعوت کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ سمجھ لیں کہ وہ اپنے زمانے کا 'پاپولسٹ' لیڈر تھا، جس کا کام صرف ایک تھا: اپنے دشمن کے خلاف انتہا درجے کی نفرت پیدا کرنا اور پھر اس سے اپنے لیے سیاسی فائدے سمیٹنا۔ وہ جہاں جاتا، عوام کا جو مزاج دیکھتا، وہاں ویسی ہی دعوت دیتا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ خراسان میں بعد میں ایک کے بعد دوسرا مذہبی فتنہ برپا ہوا، چاہے معاملہ سنباد کا ہو یا دہائیوں بعد مقنّع خراسانی کا، جس نے نبوّت بلکہ خدائی کا دعویٰ تک کیا۔ یہ سب ابو مسلم خراسانی کے اہم کمانڈرز تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ابو مسلم نے عباسی تحریک کے لیے چھ لاکھ انسانوں کا قتل کیا۔ بلاشبہ یہ مبالغہ آرائی ہوگی، لیکن اس کا آدھا، پونا بھی ہو تو بہت بڑی تعداد بنتی ہے۔

استحکام اور نئی پالیسیاں

بہرحال، ابھرتی ڈوبتی بغاوتوں کے دوران عباسیوں نے بالآخر خراسان اور ماورا النہر پر اپنی گرفت مضبوط کر ہی لی۔ جس کے بعد خطے میں استحکام آیا، حالات آہستہ آہستہ بدلنے لگے، جس میں بلاشبہ عباسی حکمرانوں کی پالیسیوں کا بڑا ہاتھ تھا۔ مثلاً، اموی دور میں تمام تر عہدے صرف عربوں کے لیے مخصوص تھے، بلکہ اہم عہدوں پر تو صرف خاندانِ بنو امیہ کا فرد ہی تعینات ہو سکتا تھا۔ عباسی دور میں فوج میں اعلیٰ عہدوں پر تو عرب ہی رہے، لیکن سوِل انتظامیہ میں آہستہ آہستہ عجمی نظر آنے لگے۔ ابو العباس سفاح کے دور میں ہی دیوان الخراج کا اہم محکمہ خالد بن برمک کو دیا گیا، جس کے بعد وہ خلافت کی تاریخ کا پہلا وزیر بھی بنا۔

جس طرح اموی طرزِ حکومت میں رومی انداز صاف نظر آتا تھا، بالکل ویسے ہی عباسیوں میں فارسی نظام جھلکتا تھا۔ شاید اِس لیے بھی کیونکہ عباسی تحریک کا زیادہ تر زور خراسان اور فارس میں ہی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں عباسی دور میں وزیر کا عہدہ بھی نظر آتا ہے، جو اصل میں ساسانی روایت تھی، جو اسے بزرگ فرمان دار کہتے تھے۔

بعد میں عباسیوں نے دارالحکومت بھی تبدیل کیا۔ جعفر المنصور نے عراق میں کئی مقامات کی جانچ کے بعد بالآخر ایک جگہ کا انتخاب کیا۔ ساسانی دارالحکومت مدائن سے تقریباً 30 کلومیٹر دُور دریائے دجلہ کے کنارے ایک شہر بسایا گیا، جس کو مدینۃ السلام کا نام دیا گیا، یعنی سلامتی کا شہر لیکن عرفِ عام میں اسے بغداد کہتے تھے، وہ بغداد جو بعد میں دنیا کا سب سے بڑا شہر بنا۔

ابو جعفر المنصور کا آباد کیا گیا شہر، مدینۃ السلام

سن 800ء سے 1100ء کا زمانہ وسطِ ایشیا کا سنہری دَور کہلاتا ہے، جہاں سے پہلی نمایاں شخصیت، بلکہ خاندان، برامکہ تھا۔ ایک ایسا خاندان جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ سلطنتِ عباسیہ کے اصل حکمران تو برامکہ ہیں۔ عروج اور زوال کی اس عجیب داستان کا ذکر اگلی قسط میں۔

Comments

Avatar photo

فہد کیہر

فہد کیہر تاریخ کے ایک طالب علم ہیں۔ اردو ویکی پیڈیا پر منتظم کی حیثیت سے تاریخ کے موضوع پر سینکڑوں مضامین لکھ چکے ہیں۔ ترک تاریخ میں خاص دلچسپی رکھتے ہیں۔ ٹوئٹر: @fkehar

Click here to post a comment