ہوم << من کا بھوت بنگلہ - شیخ خالد زاہد

من کا بھوت بنگلہ - شیخ خالد زاہد

ہم اپنے اندر ایک بھوت بنگلا لیے گھوم رہے ہیں یا سب انسانوں کے اندر یہ بھوت بنگلہ ہوتا ہے ، شاید یہ بھوت بنگلہ وقت حالات اور واقعات مل کر بناتے ہیں جس میں تزئین و آرائش اور مکینوں کا دعوت نامہ دکھ اور مایوسی کے ذمہ ہوتا ہے ۔ ویسے اس بھوت بنگلے کی بنیادباقاعدہ طور پر بچپن میں رکھ دی جاتی ہے جب ہماری سرگرمیوں کو محدود رکھنے کے لیے ہمارے بڑے ہمیں ڈراتے ہیں کہ وہاں اندھیرا ہے وہاں مت جانا، وہ سنسان جگہ ہے وہاں اکیلے نہیں جانا ۔

بھوت بنگلے کی دلچسپ بات یہ ہے کہ کسی کو بتایا بھی نہیں جاسکتاکہ آپ کے اندر ایک بھوتوں کی آماجگاہ بھوت بنگلہ ہے۔ بھلا اس بات پر کون یقین کرے گا اور کس طرح سے اس بھوت بنگلے کو دیکھ سکے گا ۔ موت برحق ہے تو پھر خوف کس بات کا لیکن اپنے اندر موجود بھوت بنگلے کا کیا جائے اور اس میں رہنے والے بھوتوں سے کیسے خوفزدہ نہ ہوا جائے۔ یہ مارتے نہیں ہیں بلکہ موت کے قریب لے کر واپس لے آتے ہیں اور پتہ نہیں کب ایسا ہو کہ ان کا ارادہ بدل جائے اور واپس ہی نہ لائیں ۔ بھوت بنگلے والے بہت شورکرتے ہیں۔ یہ سامنے والے کے اندر بسنے والے بھوتوں کی حرکتوں تک رسائی حاصل کرلیتے ہیں۔ ان کی باہمی ہم آہنگی انہیں بتا دیتی ہے کہ سامنے والے بھوت اس سے کیا کروانا چاہ رہے ہیں۔ جیسے جیسے آپ اور سامنے والے کی ملاقات کا دورانیہ بڑھتا جاتا ہے ویسے ویسے یہ بھوت حرکتوں میں اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں۔ کبھی تو یہ بھوت بھی سامنے والے بھوتوں سے خوفزدہ ہوجاتے ہیں اور اپنے بھوت بنگلے میں چھپ کر بیٹھ جاتے ہیں اور سناٹا ہوجاتا ہے ۔ اورجب کبھی جب یہ ضد پر آجاتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ اس جسدِ خاکی کو جو ان کے رہنے کی آماجگاہ ہے، کو مسمار کردیں گے اور کہیں دوسری جگہ ہجرت کرجائیں گے ، لیکن ایسا بھی نہیں ہوتا(نہ مارتے ہیں اور نہ ہی مرنے دیتے ہیں)۔ پھر معلوم نہیں کیا ہوتا ہے ، وہ سب جیسے آہستہ آہستہ سو جاتے ہیں اور ان کے سونے کی مدت طے نہیں جیسے جاگنے کی مدت کا پتہ نہیں ہوتا . ان کی خاموشی ایسی لگتی ہے کہ جیسے سارے بھوت بنگلے کے اندر ایک دوسرے سے چھپ جاتے ہیں یاشاید کسی بات پر اتفاق نہ ہوپانے پر یعنی کس بات سے زیادہ خوفزدہ کرنا ہے کس خوف سے باز رکھنا ہے الگ الگ ہوکر بیٹھ جاتے ہیں ۔ کچھ بھی تو واضح نہیں ہوتا ۔ من میں بھلا جھانکے تو کون ، من بھوتوں کا بنگلہ جو ہے۔

ذہن ایک سوال اٹھاتا ہے کہ کہیں کوئی ان بھوتوں کا نجات دہندہ بھی تو ہوگا جو من کے بنگلوں کو ان بھوتوں سے نجات کے اسباب پیدا کرتا ہوگا ۔ ان گھس بھیٹیوں سے من کو آزاد کرتا ہوگا اور وہ جو بھوت بنگلہ ہے اسے اس کے مکین کے حوالے کراتا ہوگا ۔ اس نجات دہندہ کی تلاش جاری تھی کہ کسی نے بتایا کہ نجات بھی ہے اورنجات دہندہ بھی لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ انھوں نے اپنے وقت کا دائرہ بدل لیا ہے۔ یا شاید انہوں نے اپنا خطہ یا پھر سیارہ بدل لیا ہے. اب ان سے ملنا بہت مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ پہلے من کے بنگلے میں یہی رہتے تھے لیکن انسانوں نے ان کی ایک نہیں مانی اور پھر من خالی ہوگئے اور خالی من دیکھ کر بھوتوں نے بسیرا کرلیا۔ کہنے والا کہہ رہا تھا کہ اب تو بس انھی بھوتوں کے ساتھ جینا پڑے گا اور اس دار فانی سے کوچ کرنے تک ایسے ہی ہونقوں کی طرح بولائے بولائے رہنا پڑے گا ۔ زندگی کی امنگ نے ایک سوال اٹھایا کہ کیوں نا ان بھوتوں سے دوستی کرلی جائے اورجب ان کے ساتھ رہنا ہی طے پایا ہے تو پھر خوف سے چھٹکارا پالیا جائے۔ من میں بھوچال سا پیدا ہوا اور سارے بھوتوں نے گویا ایک ساتھ بھاگ دوڑ شروع کردی ۔ بھوتوں نے شور مچانا شروع کردیا کہ خوف ختم ہوجائے گا تو ہماراوجود خطرے میں پڑ جائےگا۔

یہ بھوت بھی عجیب ہیں اور ان کے ڈرانے کے انداز اوربھی عجیب ہیں ۔ ۔ ایک ایسا ڈر جس کی بازگشت کے لیے یہ اپنا کوئی بہت بڑا بھوت تعینات کردیتے ہیں۔ وہ ڈریہ ہوتا ہے کہ اب سارے بھوت اس بھوت بنگلے کو تباہ کرنے والے ہیں اورایسا احساس دلاتے ہیں جیسے یہ بھوت کسی خودکش بمبار کے جسم پر بندھے ہوئے بم ہوں اور بس دھماکا ہونے کو ہی ہو ۔ ہم اپنے کانوں پر ہاتھ رکھے گھنٹوں اس خوف کے انتظار میں گزار دیتے ہیں کہ دھماکا اب ہوا کہ کب ہوا ۔ دھماکہ نہیں ہوتا خوف ہمارے پورے وجود میں سرایت کرجاتا ہے اور جیسے مفلوج کرکے رکھ دیتا ہے۔ ان بھوتوں کے پاس ایسی طاقت ہوتی ہے کہ یہ آپ کو باہر کی دنیا سے منقطع کردیتے ہیں۔ آپ سب جگہ ہوتے ہوئے بھی کہیں نہیں ہوتے ۔ ان کی دھما چوکڑی اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ آپ کو لیے گھومتے رہتے ہیں۔ دنیا کی نظروں میں آپ ایک عام انسان کی طرح دکھائی دیتے ہیں کیونکہ آپ کے طبعی برتاؤ پر یہ بھوت اس وقت تک اثر انداز نہیں ہوتے جب تک آپ اپنا آپ ان کو باقاعدہ سونپ نہیں دیتے ۔ لڑنے کی سکت رکھنے والے ان بھوتوں سے لڑتے ہیں شدید مزاحمت کرتے ہیں۔ اکثر دیکھا یہی جاتا ہے کہ سوائے ہلکان ہونے کے اور کم ہی کچھ حاصل ہوتا ہے۔ فنا میں بقاء کے سوا کوئی حل نہیں سجھائی دیتا ۔

ہم ایک ایسے معاشرے میں پیدا ہوئے ہیں جہاں ، بدعنوانی ، بے ایمانی ،ایمان فروشی، جھوٹ، دھوکے بازی، حسد، قتل و غارت گری، جسم فروشی ، نشہ، دغابازی ، چوربازاری، بھتہ خوری، گران فروشی، وغیرہ بھوت بن کر ہ میں اپنے قبضے میں کئے ہوئے ہیں اور ان سے بچنے کا سوچنا بھی محال ہے ۔ ان سے بچنے کی کوشش میں ساری زندگی گزار دیتے ہیں اور پھر نسل نسل در یہ سلسلہ چلتا ہی جارہا ہے ۔ ہم انہیں بھوتوں کے ساتھ اپنی عبادت گاہوں میں بھی جاتے ہیں، یہی بھوت ہ میں اپنے رب کے حضور سجدہ کرنے کی اجازت تو دیتے ہیں لیکن تعلق قائم کرنے سے باز رکھتے ہیں ۔ بھوت بنگلے میں گھنٹیاں بجنا شروع ہوجاتی ہیں اور جلد از جلد باز آنے کی دھمکیاں سنائی دینے لگتی ہیں۔ یہ بھوت اپنے ناپاک عزائم کے وجود کیساتھ بہت طاقتور ہوچکے ہیں کیونکہ ہم نے ان سے نجات دہندہ کو ناراض کر دیا ہے، اب یہ بھوت ہم سے تدبیریں بھی وہ ہی کرواتے ہیں جن سے یہ خوش ہوتے ہیں جن سے ان کی بھوک مرتی ہے ۔ ہمیں ان تدبیروں کا پتہ چلانا ہوگا ورنہ ایک ایک کر کے ہم سب ان بھوتوں کے ہاتھوں خوف کے مارے خوفزدہ مرتے چلے جائیں گے۔ مرنا تو برحق ہے لیکن کیا ہم وہاں جاسکین گے جہاں ہم جانے کے لیے اس دنیا میں آئے ہیں ۔ ۔ کیاہم اپنے خالق اور اپنے نجات دہندہ کے سامنے کھڑے ہونے کی جسارت کرسکیں گے۔ ایسا اس وقت تک ممکن نہیں ہوگا جب تک ہم من کے بنگلے ان بھوتوں سے خالی نہیں کروالیتے ۔