پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ یقیناً ملک میں مہنگائی کا ایک اور بم ثابت ہو گا ۔ بہرحال اس حوالے سے کسی ایک کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا ان حالات تک پہنچانے میں سب نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ کسی کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ملک توانائی کے بدترین بحران سے دوچار ہے۔
سیاست دانوں کو ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے سے فرصت نہیں ملتی انہوں نے خاک منصوبہ بندی کرنی ہے۔ بالخصوص گذشتہ بیس بائیس برس کے دوران جب دنیا میں بڑی بڑی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اس عرصے میں ہمارے حکمرانوں نے توانائی کے متبادل ذرائع پر کوئی توجہ نہیں دی، نہ ہی دستیاب وسائل کے حوالے سے کچھ اچھا کام کیا آج نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ ملک میں کوئی بڑی سیاسی جماعت یا نمایاں علاقائی سیاسی جماعت یہ نہیں کہہ سکتی کہ اس عرصے میں اسے حکومت کا موقع نہیں ملا یا اس کے پاس اختیارات نہیں تھے، موقع تو سب کو ملا ہے لیکن فائدہ اٹھانے میں کوئی کامیاب نہیں ہو سکا۔
آج ہم آنسو بہاتے ہیں، ایک دوسرے پر الزامات کی بارش کرتے ہیں، ہر وقت دوسروں کو برا بھلا کہتے ہیں، سینیٹ ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے اجلاسوں کو دیکھ لیں وہاں صرف اور صرف سیاسی بیان بازی نظر آتی ہے۔ یا اپنے قائد کا دفاع ہے اور مخالف کی کردار کشی ہے، یا اپنے قائد کی مدح سرائی ہے یا سیاسی مخالف کی کردار کشی، قوم کے کروڑوں اربوں ان اسمبلیوں پر خرچ ہوتے ہیں لیکن ماسوائے اپنی حکومت بچانے یا کسی کی حکومت کو گرانے کے یہاں کوئی دوسرا کام اتنی شدت اور جوش و جذبے سے ہوتے ہوئے نظر نہیں آتا۔ چونکہ اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنے والوں کا عوام سے تعلق صرف ووٹ لینے کی حد تک محدود ہوتا ہے اس سے بڑھ کر کوئی غرض نہیں ہوتی یہی وجہ ہے کہ عام آدمی کے بنیادی مسائل جوں کے توں ہیں۔
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر کوئی بتانا پسند کرے گا کہ گذشتہ بیس بائیس برس کے دوران ملک میں توانائی کے متبادل ذرائع پر کتنا کام کیا، چلیں اس وقت نہیں کر سکے، غلطی ہو گئی کیا اس وقت تحقیق کا کوئی کام ہو رہا ہے، کیا کوئی ایسی پالیسی بنائی جا رہی ہے جس میں عام آدمی کو اس مصیبت سے نکالنے بارے سوچا جا رہا ہو، کیا ہم دنیا کو نہیں دیکھتے کہ کیسے وہ ممکنہ حالات کے پیشِ نظر منصوبہ بندی کرتے ہیں، خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے سر جوڑتے ہیں، تحقیق پر توجہ دیتے ہیں، ماہر افراد کو آگے لاتے ہیں، ان کی خدمات سے استفادہ کرتے ہیں۔ خطرات اور بحرانوں سے نمٹنے کے لیے اخلاص، اخلاق، ایمانداری اور بہترین دماغ کی ضرورت ہوتی ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسا کچھ نہیں ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ ملک میں تحقیقی اور تعمیری کام کرنے والے موجود نہیں ہیں بدقسمتی ہے کہ ایسے افراد کو آگے آنے کا موقع نہیں ملتا، اگر نظام میں کچھ ایسے لوگ موجود بھی ہیں تو انہیں اس حد تک دبا کر رکھا گیا ہے کہ وہ کچھ کر نہیں سکتے۔ چونکہ باصلاحیت لوگوں کے کام کرنے کا انداز ذرا مختلف ہوتا ہے وہ خوشامد نہیں کرتے، نظام میں رہنے کے لئے لابنگ نہیں کرتے، اپنا وقت منفی سیاست میں ضائع کرنے ہی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں اس لئے گھر بیٹھے رہتے ہیں یا پھر کہیں دور رہ وقت گذارتے ہیں۔ ملک کی خدمت کے دعویداروں کو ایسے لوگوں سے کچھ ایسا خطرہ ہوتا ہے کہ وہ انہیں ساتھ رکھنے سے خوف کھاتے ہیں، وہ ملک و قوم کا نقصان برداشت کر لیتے ہیں لیکن خوشامدیوں کی جگہ باصلاحیت افراد کو دینے کی ہمت نہیں کرتے۔
خبر یہ بھی ہے کہ صدر جو بائیڈن سعودی عرب کے دورہ پر غور کر رہے ہیں۔ ممکنہ طور پر اس دورے میں امریکی صدر کی سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ ملاقات بھی ہو۔امریکی صدر بائیڈن رواں ماہ کے آخر میں یورپ ، اسرائیل کے دورے کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کے دورے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ یہ واضح رہے کہ جو بائیڈن مختلف حوالوں سے شہزادہ محمد بن سلمان کے حوالے سے نہایت سخت رائے رکھتے ہیں اور وہ سعودی عرب کو تنقید کا نشانہ بھی بنا چکے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ موجودہ حالات میں سعودی عرب کا دورہ ضروری سمجھتے ہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن کے اس دورے کا سب سے بڑا مقصد سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو ایک ایسے وقت میں تقویت دینا ہے جب امریکا میں پیٹرول کی قیمتوں کو کم کرنے کے طریقوں پر کام ہو رہا ہے۔
پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ بہت بڑا خطرہ ہے عوام تو اس بوجھ کو برداشت کر لیں گے لیکن کیا حکومت یہ نہیں سمجھتی کہ ٹیکس کے پیسوں سے سرکاری افسران کو ایسے وقت میں جب عام آدمی کے لئے ایک لیٹر پیٹرول کی قیمت برداشت کرنا بھی مشکل ہے ایک ایک افسر کو سینکڑوں لیٹر پیٹرول الاؤنس کی مد میں جاری کیا جائے۔ حکومت کے پاس وقت ہے یا نہیں ہے بہرحال یہ الگ پہلو ہے لیکن موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے توانائی کے متبادل ذرائع اور مختلف ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا سب سے اہم ہے۔ اس حوالے سے بہت تاخیر ہو چکی ہے ہم مزید تاخیر کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
تبصرہ لکھیے