وسطِ ایشیا کی تاریخ کے سلسلے میں آج ہم مزید آگے بڑھیں گے اور شاہراہِ ریشم، سیر دریا اور مسلمانوں کے ترکوں کے ساتھ پہلے ٹکراؤ کے بارے میں بات کریں گے۔
آمو دریا کے مشرق اور کوہِ حصار کے شمال میں جو سرزمین واقع ہے، اسے تاریخ میں سغدیہ کہا جاتا ہے۔ یہیں آمو اور سیر دریا کے علاوہ خطے کا تیسرا اہم دریا زر فشاں بہتا ہے، جس کے نام کا مطلب ہے دولت اگلنے والا دریا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ سرزمین اُس وقت بھی کتنی مالا مال ہوگی۔
سغدیہ شہزادوں، نوابوں اور سرداروں کی سرزمین تھے۔ سب سے بڑے سردار بخارا اور سمرقند کے تھے، وہ شہر اسی زرفشاں کے زیریں حصے میں واقع ہیں۔ یہ دریا مشرق سے مغرب کی جانب بہتا ہے اور ترکستان کے پہاڑوں سے نکل کر ان عظیم شہروں سے گزرتا ہوا قزل قم کے صحرا میں جا کر آمو دریا میں شامل ہو جاتا ہے۔
یہ علاقہ شاہراہِ ریشم کے مرکزی راستوں پر واقع تھا، وہ شاہراہ کے جس کا نام سامنے آتے ہی نجانے کیوں افسانوی و رومانوی خیالات آتے ہیں، حالانکہ حقیقت اِس سے کہیں مختلف تھی۔
شاہراہِ ریشم
اس نام سے دھوکا نہ کھائیں، عملاً یہ کوئی شاہراہ نہیں تھی، اور ریشم جیسی تو ہر گز نہیں تھی۔ دراصل چین اور مغرب کے درمیان تجارت کے لیے جتنے بھی راستے استعمال ہوتے تھے، ان سب کو شاہراہِ ریشم کہتے تھے۔ اس لیے کیونکہ اُس زمانے میں چین کی سب سے اہم برآمد ریشم ہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں Silk Road کے بجائے Silk Routes کہنا زیادہ مناسب ہے۔
ویسے یہ بہت اہم شاہراہ تھی، لیکن پھر سمندروں کے ذریعے تجارت بڑھتی چلی گئی اور شاہراہِ ریشم گردشِ زمانہ کی نذر ہو گئی۔ اگر آج ہمیں دنیا میں وسطِ ایشیا کا کردار محدود نظر آتا ہے، تو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب مغرب اور مشرق کے درمیان تجارت زمینی نہیں بلکہ سمندری راستوں سے ہوتی ہے۔
بہرحال، اب چین جدید شاہراہِ ریشم بنا رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ سمندری راستوں پر دوسری عالمی طاقتوں کی اجارہ داری کا خاتمہ چاہتا ہے۔ اس کے علاوہ عالمی تجارت کے کھیل میں اپنے اصول خود بنانے کا خواہشمند ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے اُس نے انٹرنیٹ کی دنیا میں امریکا اور دیگر طاقتوں کی محتاجی کے بجائے گوگل، فیس بک، ٹوئٹر اور دیگر کے اپنے متبادل بنائے ہیں اور چین کی آبادی وہی ایپس استعمال کرتی ہے۔
پاکستان کے لیے اہمیت رکھنے والا منصوبہ سی پیک بھی اِسی جدید شاہراہِ ریشم کا حصہ ہے۔ اس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اگر عالمی سیاست میں کوئی غیر یقینی صورت حال پیدا ہو جائے، تو چین کے پاس تجارت کا ایک متبادل راستہ بھی ہو۔
تاریخ میں شاہراہِ ریشم پر دو زمانے ایسے ضرور گزرے ہیں، جن میں اس کی اہمیت بہت زیادہ ہو گئی تھی۔ ایک مسلم فتوحات کا زمانہ اور دوسرا تیرہویں صدی، جب یہ علاقہ منگول سلطنت کا حصہ تھا۔
سیر دریا کے ساتھ ساتھ
وسطِ ایشیا کے اس مرکزی حصے کا آخری مقام ہے سیر دریا کے ساتھ ساتھ۔ اس دریا کو عربی میں سیحوں اور انگریزی میں Jaxartes کہا جاتا ہے۔ یہ قرغزستان کے پہاڑوں سے نکلتا ہے اور پھر ازبکستان سے ہوتا ہوا قزاقستان پہنچتا ہے، جہاں اس کی منزل بھی بحیرۂ ارال ہے۔
یہ آمو دریا سے چھوٹا ہے اور کئی مقامات پر تو اتنا کم گہرا ہے کہ اسے پیدل ہی پار کر لیا جاتا ہے۔ مشرق میں وادئ فرغانہ بھی اسی دریا سے سیراب ہوتی ہے جس سے آگے پہاڑوں کے پار کاشغر اور مشرقی ترکستان ہیں۔ یہ علاقہ اب چین کے پاس ہے اور اسے سنکیانگ کہا جاتا ہے لیکن کبھی یہ وسطِ ایشیا کا اہم حصہ ہوتا تھا۔
وسطِ ایشیا اور پہلی ترک ریاست
ایشیا کے اِن دُور دراز علاقوں کے خانہ بدوشوں کو عموماً ترک کہا جاتا تھا۔ وسطِ ایشیا کی فتح کے دوران سب سے پہلے عربوں کا پالا انہی ترکوں سے پڑا۔
اِن ترکوں اور آج کے جدید ترکی کے مابین تعلق اتنا سیدھا سادا نہیں ہے۔ جب مسلمان وسطِ ایشیا کے ترک علاقے فتح کر رہے تھے تو آج کا ترکی بزنطینی سلطنت کا حصہ تھا، بلکہ اگلی چار صدیوں تک یہ انہی کے قبضے میں رہا۔ اُس زمانے میں شاید ہی کوئی ترک اِس علاقے میں رہتا ہوگا جو آج ترکی کہلاتا ہے۔ تب ترکوں کا وطن جدید ترکی سے کہیں دُور مشرق میں تھا۔ دیوارِ چین کے بھی پار، جہاں 553ء میں بومین اور اس کے بھائی اشتمی کی ریاست تھی۔ وہ اپنے انصاف اور بہادری کی وجہ سے بہت مشہور تھے۔ لیکن اُن کی اصل مہارت تھی شہ سواری۔
وہ گھڑ سوار خانہ بدوش تھے یعنی ان کا اٹھنا، بیٹھنا، کھانا، پینا، سونا سب کچھ گھوڑوں پر ہی تھا۔ ترک بچے چلنا بعد میں سیکھتے تھے لیکن گھڑ سواری پہلے کرتے تھے۔ ایک زبردست شہ سوار ہونے کے علاوہ اُن کی ایک اور خاصیت تھی: بہت سخت جان ہونا۔ شدید ترین گرمی ہو یا سردی، ان میں ہر موسم برداشت کرنے کی صلاحیت تھی۔ وہ ایسے ماحول کے عادی تھے، جہاں ہم جیسے عام لوگ جاتے ہی مر جاتے۔
ان ترکوں نے جب سفید ہُنوں یعنی Hepthalites کا خاتمہ کیا تو ان کی سرحد فارسی سلطنت سے آ ملی۔ انہوں نے ساسانی خاندان سے رشتہ داریاں تک جوڑ لی تھیں، بزنطینیوں سے بھی تعلقات استوار کیے تاکہ وسط ایشیا کے ان راستوں پر تجارت بڑھا سکیں۔ لیکن یہ پہلی ترک ریاست زیادہ عرصے نہیں چل پائی۔ جب حکمران خاندان میں پھوٹ پڑی تو خانہ جنگی ہوئی اور 583ء تک مغرب اور مشرق میں دو الگ ترک ریاستیں بن چکی تھیں۔
بہرحال، جب عربوں نے پہلی بار آمو دریا پار کیا تو ان کا سامنا اِنہی سخت جان ترکوں سے ہوا اور حقیقت یہی ہے کہ وہ اُن کی بہادری سے بہت متاثر ہوئے۔
تب تُرگش خاقان اس علاقے کا سربراہ تھا جو شاہِ چین کے ماتحت تھا۔ مسلمانوں کے بڑھتے قدم دیکھ کر انہوں نے مقامی فارسی شہزادوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کیا اور ابتدائی مسلمان افواج کو سخت ترین مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔
شاید یہی وجہ ہے کہ ابتدائی کارروائیوں کا مقصد اِس علاقے پر قبضہ کرنا نہیں، بلکہ علاقے کی زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنا اور مقامی شہزادوں کو خراج پر مجبور کرنا تھا۔ ایسے حملوں کے بعد مسلمان واپس دارالحکومت مرو آ جاتے۔ ان کارروائیوں کا دائرہ سمرقند تک پھیلا ہوا ہوتا تھا۔
تبصرہ لکھیے