ہوم << کہانی ایک عظیم دریا کی - فہد کیہر

کہانی ایک عظیم دریا کی - فہد کیہر

وسط ایشیا کی سرزمین مسلمانوں کے ابتدائی دور میں خراسان کا حصہ تھی۔ یہ وہ وسیع و عریض صوبہ تھا، جس میں شمال مشرقی ایران بھی شامل تھا اور اس کا دارالحکومت عام طور پر مرو ہوتا تھا۔

یہاں کے کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں زرخیز وادیاں ہیں، یہاں گاؤں دیہات بہت قریب قریب واقع ہیں۔ پھر وہ علاقے ہیں جہاں وسیع و عریض صحرا ہیں۔ گرمیوں میں سخت گرم اور سردیوں میں ناقابلِ یقین حد تک ٹھنڈے۔ صرف سخت جان خانہ بدوش ہی ان علاقوں میں رہ سکتے ہیں۔ پھر پہاڑی علاقے آتے ہیں، جہاں لگتا ہے وقت بہت سست روی سے گزرتا ہے۔ آج بھی یہاں عام رہن سہن میں قدیم ثقافت کی جھلک نظر آتی ہے، جی ہاں! صدیاں گزر جانے کے بعد اور کئی فاتح اقوام کے قبضوں کے باوجود۔ یہ سب سے الگ تھلگ ایک منفرد دنیا ہے۔ ایسی دنیا جس کے لوگوں کی زبانیں بھی عجیب ہیں۔ اگر وہ کوئی جانی پہچانی بولی بولتے بھی ہیں تو لہجے بالکل مختلف ہیں۔

وسطِ ایشیا کے خانہ بدوش ترک

بہرحال، اس خطے میں بنیادی تقسیم صرف دو قسم کی ہے: ایک فارسی اور اس کے مختلف لہجے بولنے والے اور دوسرے وہ جو ترک زبان بولتے ہیں۔ یہ تقسیم آج صدیوں بعد بھی نمایاں اور واضح ہے۔ مثلاً ایک طرف آپ کو فارسی بولنے والے تاجک بھی ملیں گے تو دوسری جانب ترکی بولنے والے ازبک۔ جب ساتویں صدی میں عرب یہاں پہلی بار آئے تھے تو یہ فرق تب بھی موجود تھا اور آج جبکہ دنیا بہت بدل چکی ہے، قائم و دائم ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ تب فارسی بولنے والے زیادہ تر شہروں اور دیہات میں رہتے تھے جبکہ ترک خانہ بدوش تھے۔

وسط ایشیا کی تاریخ کے اس مرحلے کی ابتدائی داستان ایک دریا کے گرد گھومتی ہے، جسے آمو دریا کہا جاتا ہے۔ عربی میں اسے جیحوں اور انگریزی و یونانی میں Oxus کہتے ہیں۔ یہ وسط ایشیا کا سب سے بڑا دریا ہے۔

ایران سے وسطِ ایشیا جانے والے راستے پر مرو سے کچھ دن کا سفر کریں تو ایک کھلے اور وسیع ریگستان میں یہ دریا اچانک سامنے آ جاتا ہے۔ یہ مشرق میں قزل قُم (سرخ صحرا) اور مغرب میں قرا قُم (سیاہ صحرا) کے درمیان بہتا ہے۔ آمو دریا کی چوڑائی، رفتار اور بہاؤ دیکھیں تو لگتا ہے یہ غلطی سے بھٹک کر صحرا کی طرف آ نکلا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پرانے زمانے سے یہ ایک واضح خطِ تقسیم بنا ہوا ہے۔ اس کے پار ایک الگ دنیا ہے، جسے ماورا النہر کہتے ہیں، یعنی دریا کے پار کی سرزمین۔ یہ اصطلاح نہ صرف عربی اور فارسی بلکہ اردو میں بھی جغرافیہ اور تاریخ میں جا بجا ملتی ہے۔

آمو دریا کے اہم علاقے

آمو دریا کے وسطی حصے میں جو وادی ہے، اسے طخارستان کہتے ہیں۔ اس کے شمال میں حصار کا پہاڑی سلسلہ ہے اور جنوب میں ہندو کش کا۔ انیسویں صدی میں یہ دریا افغانستان اور روس کے قبضے میں موجود وسطِ ایشیا کے علاقوں کے درمیان سرحد بناتا تھا، لیکن ساتویں اور آٹھویں صدی میں ایسی کوئی سرحد نہیں تھی۔ دریا کے دونوں طرف ایک ہی قوم آباد تھی، جن کی ثقافت بھی ایک تھی، بولی بھی ایک۔

آمو دریا کے ساتھ واقع مختلف علاقے

طخارستان کا سب سے اہم شہر تھا بلخ۔ وہی بلخ جسے 1220ء میں چنگیز خان نے تباہ و برباد کر دیا تھا۔ لیکن اس سے پہلے یہ دنیا کے عظیم شہروں میں سے ایک شمار ہوتا تھا۔ یہ سکندر اعظم کے بعد بننے والی یونانیوں کی باختر سلطنت کا دارالحکومت تھا۔ پھر کوشانی آئے اور ساتھ ہی اُن کی بدھ ثقافت بھی اور بلخ دنیا میں بدھ تہذیب کا عظیم مرکز بن گیا۔

آمو دریا کے ساتھ مزید مشرق کی طرف چلیں تو ایک دُور دراز علاقہ آتا ہے بدخشان۔ علامہ اقبال نے بھی اس علاقے کا ذکر کچھ ان الفاظ میں کیا ہے:

ہمسایۂ جبریلِ امیں بندۂ خاکی
ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشاں

اس کے جنوب میں ہندوکش کے پہاڑی دامن میں بامیان کا علاقہ ہے۔ یہاں دنیا کا سب سے بڑا گوتم بدھ مجسمہ تھا۔ جسے افغان طالبان نے اپنے پہلے دورِ حکومت میں دھماکا خیز مواد سے تباہ کر دیا تھا۔

بامیان، جہاں کبھی دنیا بھر میں گوتم بدھ کا سب سے بڑا مجسمہ نصب تھا

آمو دریا ترمذ کے قلعہ بند شہر سے گزرتا ہوا شمال کا رخ کرتا ہے اور بالآخر خوارزم کے کھلے میدان میں جا پہنچتا ہے۔ یہ علاقہ آجکل ازبکستان اور تاجکستان کے درمیان ہے۔ یہاں سے دریا تقسیم ہونا بھی شروع ہو جاتا ہے اور اپنا ڈیلٹا یعنی دہانہ بناتا ہوا بالآخر اپنی منزل بحیرۂ ارال تک پہنچ جاتا ہے۔

منزل، بے منزل

ایک زمانہ تھا کہ آمو دریا کے اختتام پر ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہوتا تھا۔ ویسے تو بحیرۂ ارال ایک جھیل ہے لیکن اپنی وسعت اور پانی نمکین ہونے کی وجہ سے قدیم زمانے میں اسے سمندر سمجھ لیا گیا تھا۔ آج یہاں نہ وسعتیں ہیں، اور نہ پانی۔ ہر طرف دُھول ہے اور سمندر خشک ہو جانے کے بعد جو نمک بچ گیا ہے، وہ ہواؤں کے ساتھ اڑتا پھرتا ہے اور ارد گرد کی زمینوں کو بنجر بنا رہا ہے۔

بحیرۂ ارال 1960ء میں 68 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا تھا۔ یہ دنیا کی چوتھی سب سے بڑی جھیل تھا۔ لیکن یہ تباہ کیسے ہوا؟ اصل میں سوویت یونین نے جب وسطِ ایشیا پر قبضہ کیا تو آمو دریا اور خطے کے دوسرے بڑے سیر دریا کے ساتھ ساتھ کپاس کاشت کی جاتی تھی۔

تب اشتراکی روس نے کپاس کی پیداوار بڑھانے کے لیے ان دونوں دریاؤں کے درمیان نہروں کا جال بچھا دیا۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اگر دریاؤں کا پانی یوں راستے ہی میں استعمال ہو جائے گا تو بحیرۂ ارال کا کیا ہوگا؟ کیونکہ یہ عظیم جھیل پانی کے لیے انہی دریاؤں پر انحصار کرتی تھی۔ خیر، جب ان دریاؤں کا زیادہ تر پانی کاشت کاری میں استعمال کیا جانے لگا تو بحیرۂ ارال کے لیے پانی کا کوئی ذریعہ نہیں بچا اور یہ آہستہ آہستہ خشک ہونے لگا۔ یہاں تک کہ یہ مختلف چھوٹی چھوٹی جھیلوں میں تبدیل ہو گیا اور زیادہ تر علاقہ خشک ہو چکا ہے۔

بحیرۂ ارال، بائیں جانب 1989ء اور دائیں طرف 2014ء کا منظر

Comments

Avatar photo

فہد کیہر

فہد کیہر تاریخ کے ایک طالب علم ہیں۔ اردو ویکی پیڈیا پر منتظم کی حیثیت سے تاریخ کے موضوع پر سینکڑوں مضامین لکھ چکے ہیں۔ ترک تاریخ میں خاص دلچسپی رکھتے ہیں۔ ٹوئٹر: @fkehar

Click here to post a comment