ہوم << چراغ کا جن اور پاکستان کے مسائل - ریحان اصغر سید

چراغ کا جن اور پاکستان کے مسائل - ریحان اصغر سید

میں اپنے مرغی کے ڈربے سے کچھ ہی بڑے کیبن میں کسی برائلر ککڑی کی طرح ہی نیم جان پڑا تھا۔ جب سے خان صاحب نے بتایا تھا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے میری راتوں کی نیند اڑ گئی تھی۔ میں ساری رات خان صاحب کی حفاظت کے بارے میں فکرمند، جاگتا رہتا اور دن بھر آفس میں جمائیوں اور انگڑائیوں کی مشق کرتا۔

گلاس ڈور کے پیچھے مقصود چپڑاسی کی شکل دکھائی دی۔ اس نے ہاتھ میں چائے کے خالی کپ کی ٹرے پکڑ رکھی تھی۔ مجھے متوجہ پا کے اس نے اندر آنے کے بجائے دائیں ہاتھ سے گنجے سر کا اشارہ کیا اور چلا گیا۔ یہ اس بات کا پیغام تھا کہ مجھے میرا ٹکلا باس شکیل ڈار بلا رہا ہے۔ میں نے لیپ ٹاپ بند کیا اور لڑکھتا ہوا باس کے آفس کی جانب بڑھا جو میرے ڈربے سے ہی کچھ ہی بڑا تھا۔

شکیل ڈار ایک دلچسپ کردار تھا۔ گنجے سر کے نیچے موٹے شیشے والوں عینک، منگل پانڈے جیسی مونچھیں اور مئی کے صحرا میں بھی اہتمام سے پہنی گئی ٹائی سوٹ۔
تمہیں کوئی تکلیف ہے۔؟
باس نے عینک کے شیشوں کے اوپر سے مجھے گھورا۔
پورا ملک ہی اس وقت سخت اذیت کا شکار ہے۔!
کیوں کیا ہوا۔؟
باس چونکا۔
مقامی میر جعفروں نے امریکہ کے ساتھ سازش کر کے ہمارے ملک کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا ہے اور اپنے غلاموں کو مسند اقتدار پر بیٹھا دیا ہے۔ پورے ملک میں ہاہا کار مچی ہوئی ہے اور آپ کو کچھ پتہ ہی نہیں۔؟
یہ تو کافی دن پرانی بات نہیں۔؟
باس نے اپنے کمپیوٹر کی سکرین سے نظر اٹھا کر مجھے تعجب سے دیکھا۔
کچھ زخم وقت کے مرہم سے بھی نہیں بھرتے۔ آدھی رات کو عدالتوں کا کھلنا اور اسٹبلشمنٹ کا نیوٹرل ہو جانا ہمارے دلوں پر لکھا ہے۔ اب یہ لوگ جو مرضی کر لیں مداوا نہیں ہو سکتا۔!
میں نے فلسفیانہ انداز میں فضا میں گھورا۔
وہ تو ٹھیک ہے پر اب کچھ اپنا کام کاج بھی کرنا ہے یا یوں ہی ہوکے بھرتے رہنا ہے۔؟ یہ کوئی سرکاری آفس تو ہے نہیں جہاں کام نہ کرنے اور سیاست کرنے کی ہی تنخواہ ملتی ہے۔!

ایک طرف ملکی عزت اور سالمیت داؤ پر لگی ہے دوسری طرف خان صاحب کی جان کو خطرہ ہے اور ادھر آپ کو کام کی پڑی ہے۔ ڈار صاحب یہ وقت جہاد ہے اگر آج ہم عمران خان کے ساتھ نہ کھڑے ہوئے تو قیامت تک یوں ہی ذلیل ہوتے رہیں گے۔ پاکستان ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گا۔ قوم کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ اسے امریکہ کی غلامی کرنی ہے یا عمران خان کی قیادت میں ایک آزاد اور خودمختار ریاست میں جینا ہے۔!
میں نے جوش سے میز پر مکا مارتے ہوئے کہا۔
آج کل کام کا بوجھ زیادہ ہے۔ یہ فیصلہ اگلے ہفتے نہ کر لیں۔؟
ڈار نے ہچکچاتے ہوئے کہا۔
اس تاریخی موقع پر ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ ذرا سی تاخیر اور تذبذب ملک و ملت کو گہری، تاریک کھائی میں پھینک سکتا ہے جہاں ہماری آنے والی کئی نسلیں یوں ہی غلامی اور پسماندگی کی تاریکی میں پڑی رہیں گی۔ تحریک انصاف اور اس کے کارکن اس کی قطعاً اجازت نہیں دیں گے۔ اگر ہمیں روکا گیا تو ہم غداروں کے خون کے دریا بہا دیں گے۔!
عینک کے موٹے شیشوں کے پیچھے ڈار کی آنکھیں خوف سے ذرا سی پھیلیں اس نے ہونٹوں پر زبان پھیری اور ممناتے ہوئے کہا۔
میں بھی عمران خان اور پاکستان سے محبت کرتا ہوں۔ پچھلے دھرنے میں ایک سو روپیہ ڈونیشن بھی دیا تھا میں نے۔ تم لوگ واقعی جہاد کر رہے ہو۔ جاؤ اپنا کام مطلب جہاد کرو۔
میں نے یوں گہری سانس لی جیسے ڈار صاحب نے میرے کندھوں پر بہت بھاری ذمہ داری ڈال دی ہو۔ اپنے ڈربے نما کیبن سے میں نے اپنا لیپ ٹاپ بیگ اٹھایا اور لفٹ کی طرف بڑھا۔

آج بہت گرمی ہے۔!
اوبر کے ڈرائیور نے اے سی فین کی ناب کو دو سے چار پر گھماتے ہوئے گفتگو کا آغاز کیا۔
یہ سب میاں برادران کے کالے کرتوتوں کی وجہ سے ہے۔ خان صاحب کے پونے چار سال میں تو ایسی گرمی کبھی نہیں پڑی۔؟
میں نے بیزاری سے لیپ ٹاپ بیگ کو پچھلی سیٹ پر پھینکتے ہوئے کہا۔
پیڑول دیکھیں نا کدھر جا رہا ہے۔؟
ڈرائیور نے میری ہاں میں ہاں ملائی۔
پیٹرول کا ریٹ بڑھ گیا ہے۔؟
میں نے چیتے جیسی پھرتی سے اپنا سیل فون نکال کر ٹویٹ داغا۔
غریب عوام پر پیٹرول بم گرانے والی لعنتی امپورٹڈ حکومت نا منظور۔
ہیش ٹیگ۔ خاک ہو گے نگینے لوگ۔
حکمران ہو گے کمینے لوگ۔
نہیں پیٹرول کا ریٹ تو شاید وہی ہے پر جب سے یہ چور آئے ہیں پیٹرول کی مقدار کم ہو گئی ہے۔ ادھر پیٹرول ڈلواتے ہیں ادھر ختم ہو جاتا ہے۔
ڈرائیور نے اپنی منطق پیش کی۔
علاج ہے اس قوم کا۔ ان کو ایسے چور ہی پسند ہیں۔
میں نے نفرت سے کہا۔
آپ ٹویٹ تو ڈیلیٹ کر دیں۔!
اس نے کن اکھیوں سے میری فون کی سکرین دیکھتے ہوئے کہا۔
ٹویٹ تو ڈیلیٹ نہیں ہو گا آلریڈی درجنوں دفعہ ری ٹویٹ ہو چکا ہے۔ ان چوروں کو جتنا گندا اور بدنام کیا جا سکتا ہے کرنا چاہیے۔
ڈرائیور نے معاملہ فہمی سے سرہلایا اور مجھے توصیف بھری نظروں سے دیکھا یہ الگ بات ہے کہ کمینہ جاتے ہوئے دھوکے سے مجھ سے تین سو زیادہ لے گیا تھا۔
ساری قوم ہی چور ہے اکیلا خان کیا کرے۔؟
میں نے بیچارگی سے سوچا۔

اس سے پہلے کہ میں گھر میں داخل ہوتا میری نظر باہری کیاری میں لگی سبزیوں کے پودے کو پیچھے چکمتی ہوئی کسی چیز پر پڑی۔ میں نے جھک کر دیکھا تو مجھے چاندی کا چراغ نظر آیا جو الٹا پڑا ہوا تھا۔ میں نے احتیاط سے اسے اٹھایا اور اس سے مٹی جھاڑی۔ چراغ اپنی ہیت سے بہت قدیم اور تاریخی چیز لگ رہا تھا۔چراغ پر سونے کی تار سے بڑے نفیس نقش و نگار بنائے گئے تھے۔ میں نے ڈائزین پر غور کیا تو مجھ ایک دیو ہیکل جن کی شبیہہ نظر آئی جو بادلوں پر بیٹھا تھا۔ میرے جسم میں سنسنی کی ایک لہر دوڑ گئی۔
کہیں یہ وہی مشہور زمانہ چراغ تو نہیں جس کو رگڑنے سے جن برآمد ہوتا تھا۔؟
میں نے محتاط نظروں سے دائیں بائیں دیکھا اور چراغ کو اپنے بیگ میں ڈال کر گھر میں داخل ہو گیا۔
جلدی جلدی کھانا کھا کے میں اپنے کمرے میں آ گیا اور دروازے کو اندر سے لاک کر چراغ کو رگڑنے لگا۔ جوش سے میرا دل بہت تیز دھڑک رہا تھا۔ میں نے نوٹ کیا کہ میرے ہتھیلی کی رگڑ سے چراغ کی گردن سے دھویں کے مرغولے برآمد ہو رہے ہیں۔ رفتہ رفتہ دھواں اتنا بڑھ گیا کہ کمرے کی دیواریں اس دبیز دھویں میں غائب ہو گئیں، پھر دھواں میرے سامنے جمع ہونا شروع ہوا اور اس نے رفتہ رفتہ ایک شکل اختیار کرنا شروع کر دی۔ غالباً یہ وہی جن تھا جس کی تصویر چراغ پر کندہ تھی۔ اچانک دھواں چھٹ گیا اور میرے سامنے ناٹے قد کا سیاہ رو دبلا پتلا سا جن تھکاوٹ بھرے انداز میں کھڑا تھا۔ جس نے مجھے بیزاری سے سلام کیا اور رسمی سے "ہاہاہا" کہہ کر گرنے کے انداز میں میرے بیڈ پر لیٹ گیا۔ میں نے قریب جا کر دیکھا تو اس کی شیو بڑھی ہوئی تھی اور آنکھوں کے نیچے گہرے حلقے تھے۔
فوڈ پانڈا پر میرے لیے کھانا آرڈر کر دیں۔
جن نے مجھے اپنا طرف متوجہ پا کے فرمائش کی۔
کیوں۔؟
بھوک لگی ہے۔؟
جن نے سادگی سے کہا۔
تم چراغ والے جن ہی ہو نا۔؟
میں نے جھجھکتے ہوئے کہا۔
تو اور کیا آقا، میں انسان نظر آ رہا ہوں آپ کو۔؟
کانگڑی جن نے برا منایا۔
لیکن جن تو چراغ سے برآمد ہونے کے بعد ہاہاہا کے بعد کہتے ہیں کیا حکم ہے میرے آقا، میں آپ کا غلام ہوں۔ آپ نے مجھے تین ہزار سالہ قید سے رہائی دلائی ہے میں اس احسان کا بدلہ آپ کی تین فرمائشیں پوری کر کے کروں گا۔ یہاں تو ایسا کوئی سین ہی نہیں ہے۔؟
میں نے شکوہ کیا۔ جن کے چہرے پر بیزاری کے تاثرات ابھرے۔
ایک تو ہمارے بزرگ تم انسانوں کو بری عادتیں ڈال گئے ہوئے ہیں۔ اب وقت بہت بدل گیا برو، اب نہ وہ خوراکیں رہی ہیں نہ ہی ہم میں وہ طاقت، میری صحت تو تم دیکھ ہی رہے ہو۔؟
یعنی تم میرا کوئی کام نہیں کرو گے۔؟
خیر ایسا بھی نہیں ہے۔ دیکھیں گے کہ میں آپ کے لیے کیا کر سکتا ہوں۔
جن کا انداز ٹالنے والا تھا۔
یار یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔ اب میں نے اتنی مشکل سے تمہیں چراغ کے قید سے رہائی دلائی ہے۔ اوپر سے تم میرا کوئی احسان ہی نہیں مان رہے۔ اگر کوئی حکم نہیں ماننا تو چلو واپس چراغ میں۔!
میں نے غصے سے کہا۔
ناراض نہ ہوں آقا۔۔ چلیں سوچتے ہیں کچھ آپ کے بارے میں۔ پہلے میرے لیے کھانے کے لیے کچھ منگوائیں۔ میں کئی ہفتے سے بھوکا ہوں۔!
جن کے چہرے پر چاپلوسی کے تاثرات ابھر آئے۔
نہیں، مفت کا کھانا نہیں ملے گا۔ اگر تین فرمائشیں پوری نہیں کر سکتے تو چراغ میں قید ہی کیوں ہوتے ہو۔؟
یہ ہمارے کوہ کاف کی ایک ظالمانہ راویت ہے کہ جنات نافرمان اولاد کو چراغ یا بوتل میں قید کر کے دنیا میں پھینک دیتے ہیں۔!
جن نے ایک سرد آہ بھری۔
چلو پھر واپس چراغ میں، تمہیں تو میں گٹر میں پھینک کر آؤں۔!
میں نے چراغ اٹھاتے ہوئے کہا۔

جب جن نے دیکھا کہ میری یہاں دال نہیں گلنے والی تو وہ طوعا" کرہا" میری تین فرمائشیں پوری کرنے پر آمادہ ہو گیا۔
میری زندگی کی سب بڑی خواہش یہی ہے کہ میں اپنی زندگی عمران خان کے قدموں میں گزار دوں۔!
میں نے بڑے جذبے سے جن کو بتایا۔
عمران خان کون ہے۔؟
وہ اس ملک کا بلکہ امت مسلمہ کا سب سے بڑا اور ایماندار لیڈر ہے۔ پاکستان کی فلاح اور ترقی کے لیے خان کی سپورٹ ہر محب وطن پاکستانی پر فرض ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم میری یہ خواہش پوری کر دوں کہ میں ہر وقت خان صاحب کے ساتھ رہوں اور میں اپنے حصے کی باقی دو خواہشات خان صاحب کے لیے چھوڑتا ہوں جو وہ ملک و قوم کے لیے مناسب سمجھیں وہی بہتر ہے۔
یہ تمہارا آخری فیصلہ ہے۔؟
جن نے سنجیدگی سے پوچھا۔؟
ہاں بالکل۔!
میں نے مضبوط لہجے میں جواب دیا۔ جن نے چٹکی بجائی اور اس کے ساتھ ہی منظر بدل گیا۔ میں کسی اور کی خواب گاہ میں تھا۔ سامنے خان صاحب کو کرسی پر بیٹھا دیکھ کر میں خوشی سے جھوم اٹھا۔ وہ نظر والی عینک لگائے کاغذ پر کچھ لکھ رہے تھے۔ میں نے چراغ والے جن کو دیکھا۔ وہ خان صاحب کے بالکل سامنے کھڑا تھا۔
کون ہو تم۔۔۔اور کیا چاہتے ہو۔؟
عمران خان نے چونک کر اسے دیکھا۔ جن نے بتایا کہ وہ چراغ کا جن ہے ان کے ایک پرستار نے اپنے حصے کی دو خواہشیں ان کے لیے چھوڑ دیں ہیں اور میں آپ کی وہ دو خواہشات پوری کرنے آیا ہوں۔ میں نے دیکھا خان صاحب کا چہرہ خوشی سے کِھل اٹھا ہے۔ میرا خیال تھا وہ اپنے پرستار کا نام پوچھیں گے لیکن شاید انہیں یاد نہیں رہا۔ خان صاحب نے جن کو اپنے سامنے کھڑا رکھا اور خود وہ گہری سوچ میں ڈوب گئے یقیناً وہ دو خواہشات کے اندر ہی پاکستان کا سارا قرضہ اتارنے کے علاؤہ ملکی خزانے بھرنے اور تعمیر و ترقی کے دیگر منصوبوں کے بارے میں سوچ رہے تھے۔
آخر کار وہ کسی نیتجے پر پہنچے اور انہوں نے گہری سانس لے کر جن سے کہا۔
ویل، میں چاہتا ہوں تم نواز شریف کی ساری دولت چھین کر اسے جیل میں ڈال دو۔
جن نے اثبات میں سر ہلایا اور چٹکی بجائی۔ اس کا مطلب تھا کہ خان صاحب کی خواہش پوری ہو چکی ہے۔
خان صاحب نے جن سے دوسری فرمائش اس کے کان کے قریب منہ کر کے کی جسے میں سن نہیں پایا۔ جن نے اثبات میں سر ہلا کے چٹکی بجائی۔ اس کے ساتھ ہی خان صاحب کی چہرے کی جھریوں ختم ہو گئیں اور وہ کسی نوجوان کی طرح تروتازہ اور خوبصورت دیکھائی دینے لگے۔ خان صاحب کی دونوں خواہشات پوری کر کے جن نے تیسری چٹکی بجائی اور غائب ہو گیا۔ مجھے بہت افسوس ہوا کہ خان صاحب نے فضولیات میں دو قیمتی لائف لائنز ضائع کر دیں لیکن مجھے اس بات کی خوشی تھی کہ میں اب ہر وقت اپنے لیڈر کے ساتھ رہوں گا۔ میں نے فرط جذبات سے خان صاحب کو پکارا اور بے اختیار ان کی طرف بڑھنے کی کوشش کی لیکن ایک پشاوری چپل خود کب چل سکتی ہے۔؟

Comments

Click here to post a comment

  • بہت اعلیٰ، پشاوری چپل والا اختتام ہم جیسے کم فہموں کو سمجھ نہیں آیا