ہوم << سمندر پار پاکستانی اور امریکی سازش-عبداللہ طارق سہیل

سمندر پار پاکستانی اور امریکی سازش-عبداللہ طارق سہیل

سمسّیا تو بڑھ گئی صاحب، بڑھ کر گھمبیر سے گھور گھمبیر ہو گئی۔ تین دن پہلے خان صاحب نے کسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہیں میر جعفر کہا۔ پھر دیکھا کہ بات بڑھ گئی تو کہا کہ میں نے شہباز شریف کو میر جعفر کہا تھا۔ پھر اسی جلسے میں شہباز شریف کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ اصلی میر جعفر تم ہو، تم بوٹ پالشی بھی ہو، تم چیری بلاسم ہو۔ یوں بات ٹھنڈی ہونے لگی لیکن کل اخبار نویسوں سے گفتگو کے دوران خان صاحب نے پھرپلٹا کھایا اور کہا کہ کسی دن اصلی میر جعفر کا نام بھی لے دوں گا۔

یعنی بات بڑھ کے بہت دور چلی گئی۔ سیلِ بلا کو دعوت دینے والی بات ہے۔ دیکھئے آگے کیا ہوتا ہے لیکن، چلئے شہباز شریف صاحب کو اطمینان ہو گیا کہ میں اصلی میر جعفر نہیں ہوں۔ اگر کبھی عمران خان اور شہباز کا ٹاکرا ہو جائے تو عمران یہ کہہ کر نکل جائیں گے کہ میاں تمہیں میر جعفر تو کہا تھا لیکن اصلی والا نہیں، نقلی۔ اصلی تو کوئی اور ہے۔ شہباز شریف پھر کیا کریں گے؟ خدا کا شکر ادا کریں گے اور کیا۔

اصلی اور نقلی میں بہت فرق ہوتا ہے۔ آپ کسی راہ چلتے کو گدھا کہہ دیں تو ظاہر ہے وہ سخت ناراض ہوگا اور آپ سے تگڑا ہوا تو آپ کی مرمت ہونا بھی خارج از امکان نہیں۔ معاملہ بگڑتا دیکھ کر آپ اس سے بنا معذرت کئے، یہ کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کر سکتے ہیں کہ میاں، تم تو بے وجہ ہی ناراض ہو رہے ہیں، تمہیں اصلی نہیں، نقلی گدھا کہا تھا۔ اصلی کوئی اور ہے، وہ دیکھو گلی کے موڑ پر کھڑا کان ہلا رہا ہے۔کیا خیال ہے، ’’نقلی گدھا‘‘ غصہ تھوک دے گا؟ نہیں، وہ آپ کو آپ کی وضاحت کے باوجود ٹھوک بجا کر رکھ دے گا۔ بہرحال یہاں معاملہ دو راہگیروں کا نہیں ہے۔ ایک سابق اور ایک موجودہ وزیر اعظم کا ہے اور سابق بھی ایسا کہ خود کو سابق ماننے پر راضی ہی نہیں ہے۔

کل ذکر ہوا تھا کہ بات سوچ سمجھ کر کرنی چاہئے لیکن یہ کہ کبھی کبھار سوچ سمجھ کر کہے گئے کلمات بھی الٹے پڑ جاتے ہیں جیسے کہ خان صاحب نے کسی کو سوچ سمجھ کر میر جعفر کا خطاب دیا اور بات بگڑ گئی۔ اور کل ہی رات گئے خان صاحب نے ایک اور بات کر دی۔ پتہ نہیں سوچ سمجھ کر یا بنا سوچے سمجھے۔فرمایا، ان چوروں ڈاکوئوں کو حکومت دینے سے اچھا تھا کہ پاکستان پر ایٹم بم پھینک دیتے۔بہت بڑی بات کہہ دی۔ ایسا کہنے کیلئے بہت بڑا دل گردہ چاہئے۔ اب پی ٹی آئی وہ تو یہی کہیں گے، دیکھا ہمارے خان کا دل گردہ کتنا بڑا، کتنا مضبوط ہے لیکن جو ان کے حامی نہیں ہیں، وہ بیچارے تو سہم کر رہ گئے۔ان صاحب کا بیان بہرحال نامکمل ہے۔ پاکستان کی آبادی 22، 23 کروڑ ہے۔ خان صاحب کو تعداد بتانی چاہئے تھی کہ کتنے ایٹم پھینکنے چاہئیں تھے۔ ایک آدھ سے تو مطلب نکلنے سے رہا۔ایک سوال پوچھنے کو دل کرتا ہے۔ یہ فقرہ کہنے سے پہلے خان صاحب نے الفاظ کا چنائو کیا تھا یا خیالات کا؟

خدا پاکستان کو محفوظ رکھے بلکہ کل عالم کو کہ ہر جگہ اس کی مخلوق آباد ہے۔ ایٹم بم تو کجا، کہیں کوئی بم بھی نہ چلے اور بم کیا گولی بھی نہ چلے کیونکہ ایک گولی چلتی ہے تو ایک جان جاتی ہے او ایک گھر ویران ہوتا ہے۔ قدرت کے راز قدرت ہی سمجھتی ہے۔ گولی چلانے والا بھی خدائی مخلوق اور گولی کھانے والا بھی۔ کسی کیلئے تو جان لینا بھی ایک تفریح ہے۔ جیسے اسرائیلی سپاہیوں کیلئے جنہوں نے چند دن پہلے ایک عرب صحافی خاتون کو، کسی وجہ کے بناء سر میں گولی مار کرقتل کر دیا، اور تفریح مزید کیلئے اس کا جنازہ بھی الٹ دیا، جنازے میں آنے والوں کو لاٹھی اور شیلنگ کی زد میں رکھ لیا۔ امریکہ نے اس قتل کی مذمت نہیں کی۔ اس لئے کہ وہ فلسطینی تھی۔ شاید!

ایک خبر ہے کہ سمندر پار پاکستانیوں کی طرف سے اس مہینے ریکارڈ ترسیلات موصول ہوئی ہیں۔ یعنی انہوں نے تین ارب دس کرو ڈالر بھیجے ہیں جو گذشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 11 فیصد زیادہ ہیں۔ آدھی سے زیادہ رقم سعودی عرب اور امارات سے آئیں۔مطلب سمندر پار پاکستانیوں کے، بالخصوص ان کے جو مشرق وسطیٰ میں ہیں، مالی حالات اچھے ہو رہے ہیں۔ ادھر ان کے وطن میں لوگوں کے حالات البتہ پہلے سے کہیں خراب ہیں اور ٹھیک ہونے کی بجائے مزید خراب ہونے کی سنائونی سنائی دے رہی ہے۔ اللہ رحم کرنا۔

برسبیل تذکرہ، کچھ لوگ اس طرح کی بات کر رہے ہیں کہ سمندر پار پاکستانی ’’امریکی سازش‘‘ کی کامیابی سے خوش نہیں ہیں، وہ ترسیلات کا سلسلہ بند کر دیں گے اور پاکستان کا بھٹہ بیٹھ جائے گا۔ایسا اس لئے نہیں ہوگا کہ یہ ترسیلات حکومت کے کسی فنڈ میں نہیں آتیں۔ یہ وہ رقم ہے جو سمندر پار پاکستانی اپنے گھر والوں، بیوی بچوں اور ماں باپ کو بھیجتے ہیں۔ چونکہ یہ ادائیگی ڈالر یا پائونڈ میں ہوتی ہے، اس طرح ضمنی طور پر حکومت کو بھی فائدہ ہو جاتا ہے کہ اس کے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ جاتے ہیں۔ امریکی سازش سے ناراض لوگ غصہ اپنے ہی ماں باپ اور بیوی بچوں کو کیوں نکالیں گے۔

ویسے بھی یہ کہنا غلط ہے کہ ’’امریکی سازش‘‘ سے سارے کے سارے سمندر پار پاکستانی ناراض ہیں۔ چیک فرما لیجئے، بہت بڑی تعداد ’’امریکی سازش‘‘ سے راضی ہے، ناراض نہیں۔ قومی اسمبلی میں سوال کیا گیا ہے کہ ’’ڈیم فنڈ‘‘ کہاں ہے۔ارے، رکن اسمبلی نے کیا یاد دلا دیا۔ لوگ تو بھول گئے تھے کہ ایک ڈیم والا بابا ہوا کرتا تھا اور ٹی وی پر ہر آن یہ نغمہ گونجا کرتا تھا کہ ڈیم بنے گا وقت سے پہلے۔

یہ ڈیم والا بابا بھی کیا زبردست شے تھا۔ اپنے سے زبردست کو اٹھ کر سلام کرتا تھا، زیردست کو کھڑے کھڑے نااہل قرار دے دیتا تھا۔ پھر کیا ہوا کہ یہ بابا بھی لاپتہ ہو گیا، ساتھ ہی اس کا بنایا گیا ڈیم فنڈ بھی اور وہ نغمہ بھی گم ہو گیا جس کے ساتھ خان صاحب اور بابا جی کی تصویریں ساتھ ساتھ دکھائی جاتی تھیں۔بہرحال، سوال اٹھ ہی گیا ہے تو کیوں نہ تلاش گمشدگان کا اشتہار بھی دے دیا جائے۔

Comments

Click here to post a comment