ہوم << توشہ خانہ کی بحث: کون سا سوال رہ گیا ہے؟ ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

توشہ خانہ کی بحث: کون سا سوال رہ گیا ہے؟ ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

کل سے اچھی خاصی بحث ہوچکی۔ کوئی اسے چوری قرار دے رہا ہے اور اس پر حد کے اطلاق کی بات کررہا ہے (جی ہاں، ایک مفتی صاحب نے اس طرح کی بات لکھی ہے)، حالانکہ چوری جس پر حد کا اطلاق ہوتا ہے ایک بہت ہی مخصوص جرم ہے جس کو ثابت کرنے کا طریقہ بھی بہت ہی مخصوص ہے اور جس کی سزا کے سقوط کےلیے بہت سے قانونی اسباب ہیں (جنھیں اصطلاح میں شبہہ کہا جاتا ہے) اور جن میں ایک سبب (یا شبہہ) یہ ہے کہ جس پر چوری کا الزام ہو اس کا اس مال میں ملکِ مشترک (co-ownership) نہ ہو، اور اسی وجہ سے بیت المال سے چوری پر حد کی سزا کا اطلاق نہیں ہوتا۔ سیاسہ اور تعزیر کے اصولوں کے تحت کیا حکم ہوگا، وہ ایک الگ بحث ہے، لیکن یہاں صرف حد کے متعلق مفتی صاحب کی غلطی پر استدراک مقصود تھا، وہ غلطی جس کا ارتکاب صرف بغض یا تعصب کی وجہ سے ہی انھوں نے کیا، ورنہ عام حالات میں اور کسی اور کے متعلق شاید وہ ایسی بات نہ کرتے۔

پھر کسی نے حکمرانوں کو ملنے والے تحائف کے متعلق شرعی حکم بیان کرنے کےلیے ان احادیث کا حوالہ دیا جن میں عاملینِ زکاۃ کی جانب سے تحفے وصول کرنے پر وعید سنائی گئی ہے۔ اسی طرح کسی نے قاضی کو دیے جانے والے تحائف کے شرعی حکم پر بھی روشنی ڈالی۔ انھوں نے یہ دو باتیں تو ذکر کیں کہ کیا کسی عہدے پر تعینات شخص کو تب بھی تحفہ ملتا اگر وہ اس عہدے پر نہ ہوتا، اور یہ کہ ایسے تحائف بیت المال میں جانے چاہئیں، لیکن انھوں نے اس طرف توجہ نہیں کی کہ موجودہ ریاستی بندوبست میں بیت المال نام کا ادارہ پایا ہی نہیں جاتا، نہ ہی بیت المال کے احکام کا اطلاق موجودہ آئینی و قانونی بندوبست میں ہوسکتا ہے۔ ہم بارہا واضح کرچکے ہیں کہ موجودہ آئین و دستور کی رو سے ریاست ایک ایسا شخص ہے جو اپنے علاقے میں موجود تمام اموال کا مالک ہے۔ یہ شخص اپنی مرضی کا اظہار اپنے قانون کے ذریعے کرتا ہے۔

چنانچہ توشہ خانے سے کسی تحفے کے خریدنے اور بعد میں اسے فروخت کرنے کے معاملے کے جواز یا عدم جواز کا فیصلہ اس قانون پر ہوتا ہے جو ریاست نے بنایا ہے۔ اگر یہ معاملہ اس قانون کے مطابق ہوا ہے، تو نہ اسے چوری کہا جاسکتا ہے، نہ ہی کرپشن یا کوئی اور جرم۔ اگر اس قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے، یا اسے غلط طریقے سے ناجائز فائدہ اٹھانے کےلیے استعمال کیا گیا ہے، تو پھر یہ سوالات اٹھ سکتے ہیں۔ اب تک جو معلومات میسر ہیں، ان کی رو سے قانون کی خلاف ورزی کی کوئی بات سامنے نہیں آئی ہے۔ جب آئے، تو قانون کے مطابق اس پر کارروائی ہونی چاہیے۔

اس مقام پر ایک صاحب نے لکھا ہے کہ یہ قانون ہی کتاب و سنت کے خلاف ہے لیکن وہ اسے جس بنیاد پر کتاب و سنت کے خلاف قرار دے رہے ہیں، وہ بہت کمزور ہے۔ ان کی پوزیشن یہ ہے کہ حکمرانوں کو ملنے والے تحائف پوری قوم کی ملکیت میں ہوتے ہیں اور انھیں بیت المال میں جانا چاہیے اور اس وجہ سے کسی حکمران کا انھیں آدھی قیمت پر خریدنا غلط ہے۔ اس پوزیشن کی غلطی اوپر واضح کردی گئی۔ موجودہ نظام میں یہ تحائف پوری قوم کی ملکیت نہیں ہیں، نہ ہی یہ بیت المال میں جاتے ہیں، بلکہ یہ ریاست نامی شخص کی ملکیت ہیں اور اس شخص کے خزانے میں جاتے ہیں اور اس شخص نے اپنے اس خزانے سے اس مال کو نکالنے کا طریقہ قانون کے ذریعے بتایا ہوا ہے۔

کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ تو محض قانونی پردہ ہے اور اس سے امر واقعہ پر فرق نہیں پڑتا۔ اس کے جواب میں عرض ہے کہ یہی تو اصل مسئلہ ہے۔ شاخ تراشی کے بجاے جڑ پر توجہ کیجیے۔ جب تک ریاست کی فرضی شخصیت کا پردہ حائل ہے، آپ اس پر قانوناً اعتراض نہیں کرسکتے۔ لیکن کیا کریں کہ ہمارے علماے کرام نے ریاست کیا، بینک اور کمپنی کےلیے بھی فرضی شخصیت تسلیم کی ہوئی ہے، یہ اور بات ہے کہ انھیں اب تک اس فرضی شخصیت کے تسلیم کیے جانے کے نتائج کا احساس نہیں ہوسکا۔

لوگ کہیں گے کہ اس اصل مسئلے کا حل تو بہت مشکل کام ہے۔ جی ہاں، مشکل ہے لیکن اس مشکل کا حل نکالے بغیر شاخ تراشی سے صرف وقتی اور جزوی فائدہ ہی ہوسکتا ہے۔ پھر بھی اس وقتی اور جزوی فائدے کےلیے میں طریقہ آپ کو بتائے دیتا ہوں ۔ آئیے، وفاقی شرعی عدالت میں اس قانون کو چیلنج کرتے ہیں جس کی رو سے حکمرانوں کو توشہ خانے سے ایسی اشیاء رعایتی قیمت پر خریدنے کی اجازت مل جاتی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ شرعی عدالت ایسے تمام قوانین کو کالعدم کرسکتی ہے جو اس کے فیصلے کی رو سے کتاب و سنت کے منافی ہوں۔ یہ بھی واضح رہے کہ یہ مسئلہ صرف توشہ خانے کے قانون کا نہیں ہے۔ بیسیوں اور بھی قوانین ہیں جن سے حکمران ہی نہیں، دیگر عہدیدار بھی اس طرح کے فوائد اٹھاتے ہیں، جیسے استعمال شدہ سرکاری گاڑی کو رعایتی قیمت پر خریدنا وغیرہ۔

جب تک ایسے قوانین موجود ہیں، ایسے کاموں کو قانوناً غلط نہیں کہا جاسکتا۔ ہاں، اتنا یقیناً آپ کہہ سکتے ہیں کہ جو شخص اعلی اخلاقی اقدار کا قائل ہو اور اس بنا پر دوسروں پر تنقید بھی کرتا رہا ہو، اسے ایسے کاموں سے اجتناب کرنا چاہیے، خواہ قانوناً اسے اس کی اجازت ہو۔
ھذا ما عندی، واللہ اعلم۔

Comments

Click here to post a comment