ہوم << کہانی ، خاموش التجاء - طیبہ سلیم

کہانی ، خاموش التجاء - طیبہ سلیم

مبارک ہو بیٹی ہوئی ہے ۔۔اللہ نے خیر سے تمھیں ماں کے مرتبے پر فائز کر دیا ۔۔خالہ نے بھانجی کو گلے لگا کر مبارک باد دی ۔۔ کتنے سالوں سے میں اس گھڑی کا انتظار کر رہی تھی ۔لیکن تمھیں اپنی نوکری کی ترقی کی فکر تھی ۔ خالہ وہ بھی تو ضروری ہے ۔آجکل گورنمنٹ جاب ملنا مشکل ہے ۔

اور میں اپنی لگی بندھی نوکری کو کیسے چھوڑتی ۔فاخرہ نے حتمی لہجے سے کہابھائی میں تو کہتی ہوں ۔اب بچی کو دیکھوں ۔چھوڑو نوکری کو ۔میں تو چند دن خیال رکھ لوں گی ۔پھر تم نے ہی دیکھنا ہے ۔۔خالہ میں نوکری کیسے چھوڑ سکتی ہوں ۔۔آپ میرے ساتھ رہ لیں۔میں اکیلی کیسے سنبھالوگی ۔حیدر تو صبح کے گئے شام کو واپس آتے ہے ۔سارا دن بچی اکیلی کس کے سہارے چھوڑوں گی ۔ فاخرہ نے پریشان ہوتے ہوۓ کہا۔ارے بٹیا میں اپنا گھر چھوڑ کر تمھارے پاس نہیں رہ سکتی میری بھی ذمہ داریاں ہے ۔شادی کے پانچ سال بعد اولاد کی نعمت ملی ہے ۔اور تمھیں ابھی بھی اپنی نوکری کی فکر ہے ۔

اچھا بھلا تمھارا میاں کماتا ہے ۔ پتا نہیں اس نوکری میں کیا رکھا ہے ۔ خالہ رضیہ نے غصے سے کہا۔رضیہ خالہ ایک ماہ رہ کر واپس اپنے گھر چلی گئی ان سے فاخرہ کو بہت سہارا تھا ۔رات بھر بچی کو وہی دیکھتی تھی ۔فاخرہ کو اپنی نیندبہت پیاری تھی ۔وہ خالہ کو کہہ کر سوتی تھی کہ مجھے مت اٹھایۓ گا ۔اسکول کی سرکاری نوکری سے ایک ماہ کی چھٹی لی تھی وہ بھی ختم ہونے کو تھی ۔خالہ ے فاخرہ کو بہت سمجھایا کہ تم بچی کو توجہ دوں چھوڑو نوکری کو۔۔لیکن فاخرہ کسی صورت بھی نوکری نہیں چھوڑنا چاہتی تھی ۔
آخر کار بہت کوششوں کے بعد ایک جز وقتی ملازمہ مل گئی جو فاخرہ کے اسکول جانے سے پہلے آتی اور اسکے اسکول سے آنے کے بعد چلی جاتی ۔فاخرہ کو اسکے شوہر نے بھی سمجھایا کہ اتنی چھوٹی بچی کو ملازمہ کے حوالے مت کرو ۔خود دیکھ بھال کرو ۔لیکن فاخرہ کا ایک ہی جواب میری زندگی ہے میں اپنی مرضی سے گذاروں گی۔

فاخرہ خود بھی بہت مشقت میں تھی ۔آدھا ٹائم اسکول میں بچوں کے ساتھ مغز ماری کرتی ۔رات کو اسکی بیٹی ساری رات جگاتی ۔نیند کی کمی کی وجہ سے اسکے سر میں مستقل درد رہنے لگا ۔ایک دفعہ حسب معمول بیٹی پیٹ کے درد کی وجہ سے ساری رات سوئی نہیں... روتی رہی ۔فاخرہ بھی اسکی وجہ سے سو نہ سکی ۔آخر کار صبح ہو گی لیکن بچی روتی رہی ۔حیدر کی نائٹ ڈیوٹی تھی ۔ورنہ وہ بھی دیکھ لیتا تھا ۔فاخرہ کو بچی پر شدید غصہ آیا ۔ساری دوائیں۔۔ٹوٹکے کر چکی تھی ۔۔اسکی آواز اسکے سر کا درد مذید بڑھارہی تھی ۔اس نے پوری قوت سے اسکے منہ پر ہاتھ رکھ دیا ۔چند سکینڈ میں بچی کی آواز آنا بند ہوگی ۔

اس نے سکھ کا سانس لیا ۔۔اور وہ سوگئ کتنے گھنٹوں سونے کے بعد حیدر کی آواز پر اٹھی ۔آج اسکول نہیں گئی ۔۔اس نے وقت دیکھا دوپہر کے دو بج رہے تھے۔سارے منظر ذہن میں تیزی سے گھومنے لگے ۔اس نے جلدی سے اپنی بیٹی کو دیکھا جو بے ساکت پڑی ہوئی تھی ۔۔اسں نے اسکو ہلایا جلایا لیکن وہ اب ہمیشہ میٹھی نیند سو چکی تھی ۔۔۔تاکہ اسکی ماں میٹھی نیند سو سکے۔