ہوم << ریاست غصے سے نہیں چلتی...وسعت اللہ خان

ریاست غصے سے نہیں چلتی...وسعت اللہ خان

557857-WusatullahNEWNEW-1468605895-811-640x480
یہاں تک تو ٹھیک تھا کہ جن جن پر اردوان حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام سازش کا ماسٹر مائنڈ یا براہِ راست ملوث ہونے کا شبہہ ہوتا انھیں حراست میں لے کر عام ، خصوصی یا فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جاتے۔ مگر یہاں تو معاملہ ہی دوسرا نظر آ رہا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ہر طبقہِ زندگی میں موجود سیاسی و نظریاتی مخالفین کی فہرستیں پہلے سے تیار تھیں اور بس موقع کا انتظار تھا۔ خود اردوان کہہ چکے ہیں کہ ناکام ’’کُو‘‘ کی شکل میں خدا نے موقع دیا ہے کہ ملک کو متوازی کینسر سے نجات دلائی جائے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی بھی قوم کے جسد میں بدنظمی، کرپشن، اقربا پروری یا غداری تو کینسر ہو سکتی ہے۔ نظریاتی و سیاسی اختلاف کو کینسر کی نگاہ سے دیکھنا اور اس کے آپریشن کی ٹھاننا مرض کو بھلے جڑ سے اکھاڑے نہ اکھاڑے البتہ ریاست کو ضرور اتھل پتھل کر سکتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کوئی بھی ماہر سرجن کینسر کی تلاش میں پورے جسم کو کھدیڑنے کی کوشش نہیں کرتا صرف وہیں نشتر چلاتا ہے جہاں ضرورت ہو تاکہ اناڑی پن میں کینسر جسم کے دیگر حصوں تک نہ پھیل جائے۔ تیسری بات یہ ہے کہ دنیا کا کوئی بھی سرجن تب تک آپریشن کے لیے نشتر نہیں اٹھاتا جب تک کہ وہ آپریشن ٹیبل پر لیٹے مریض کے بارے میں پیشہ ورانہ غیر جانبدار نہیں ہوتا، غصے میں نہیں ہوتا، پریشان نہیں ہوتا۔ ایسی صورت میں وہ آپریشن خود نہیں کرتا بلکہ ساتھی سرجنز کو یہ ذمے داری سونپتا ہے تاکہ اندازے کی غلطی مریض کے لیے جان لیوا ثابت نہ ہو۔
پچھلے ایک ہفتے کے دوران ترکی میں اوپری اور درمیانے درجے کے ایک سو اٹھارہ افسروں سمیت ساڑھے سات ہزار فوجیوں کو حراست میں لیا گیا۔ ان میں سے کئی کی گرفتاری کے دوران اردوان کے حامیوں نے جو سلوک کیا یا جس انداز سے انھیں گرفتاری کے بعد قمیضیں اتروا کر اکڑوں بٹھایا گیا وہ تصاویر پوری دنیا میں گردش کر رہی ہیں۔
آٹھ ہزار پولیس والے، پندرہ سو ججوں سمیت عدلیہ کے تین ہزار سے زائد اہلکار، لگ بھگ چالیس ہزار سرکاری و پرائیویٹ اسکول ٹیچرز ، پندرہ سو ستتر یونیورسٹی ڈینز، وزارتِ خزانہ و سماجی بہبود اور وزیرِ اعظم کے دفتر سے منسلک تقریباً دو ہزار سرکاری اہلکاروں اور سو سے زائد انٹیلی جینس اہلکاروں کو ملازمتوں سے فارغ کر دیا گیا ہے۔ مجموعی طور پر گرفتار یا برطرف سرکاری و نجی افراد کی تعداد ساٹھ ہزار بتائی جا رہی ہے اور آنے والے دنوں میں یہ تعداد ایک لاکھ سے بھی اوپر نکل سکتی ہے۔
اگر واقعی یہ سب لوگ بغاوت کا حصہ ہیں تو حیرت ہے کہ اردوان حکومت کیسے برقرار ہے اور بغاوت ناکام کیسے ہو گئی۔ امکان ہے کہ پارلیمنٹ بارہ برس پہلے ختم کی جانے والی سزائے موت بھی بحال کر دے گی۔
بنیادی طور پر یہ لڑائی سیکولر بمقابلہ نان سیکولر نہیں بلکہ ایک ہی نظریاتی لابی کے دو گروہوں کے درمیان ہے جس کے پاٹوں کے بیچ ترک ریاست آ گئی ہے۔ امریکا میں سترہ برس سے مقیم عالمِ دین اور مبلغ فتح اللہ گولن کو کینسر کہہ کر بغاوت کا ذمے دار ریاستی اداروں اور سماجی شعبوں میں موجود گولن کے حامیوں کو بتایا جا رہا ہے۔ گولن کی تنظیم ہزمت (خدمت ) کو دھشت گرد قرار دے دیا گیا ہے ( اس اقدام پر داعش یقیناً بغلیں بجا رہی ہو گی)۔
مگر صرف پانچ برس پہلے تک خود اردوان اور ان کے ساتھی بھی تو گولونائٹس کہلاتے تھے۔ انیس سو ستانوے میں اردوان کے نظریاتی گرو نجم الدین اربکان کی حکومت جب فوج نے کنپٹی پر بندوق رکھ کے ختم کروائی تو فتح اللہ گولن کا حالانکہ اس حکومت سے براہِ راست تعلق نہیں تھا مگر اسٹیٹ پراسکیوٹر نے گولن کی ایک تقریر کی وڈیو کی بنیاد پر ریاست کے خلاف سازش اور دہشت گردی کا مقدمہ دائر کیا۔
اس ٹیپ میں فتح اللہ گولن اپنے حامیوں سے کہہ رہے ہیں کہ ’’ہمیں موجودہ نظام کی شریانوں میں پھیل کر مقتدر اداروں کو گرفت میں لینے کی ضرورت ہے تا کہ تمام آئینی و ریاستی اداروں پر آپ کے اثر و نفوز کے بعد ان کی اصلاح آسان و موثر ہو سکے ’’۔ اگرچہ گولن نے کہا کہ ان کے اس بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا ہے تاہم گرفتاری کی پیش بینی کے طور پر گولن انیس سو ننانوے میں امریکا منتقل ہوگئے۔ عدالت نے ان کی غیر موجودگی میں سن دو ہزار میں سزائے قید سنائی لیکن دو ہزار آٹھ میں اردوان حکومت نے یہ سزا ختم کر دی۔ تاہم اسی اردوان حکومت نے دو ہزار چودہ میں گولن پر دہشت گردی کے الزامات لگانے شروع کیے اور اب امریکا سے ان کی باقاعدہ حوالگی کا مطالبہ کیا ہے۔
اگر گولن اور ان کی تنظیم ایسی ہی ہے تو پھر ریاستی اداروں میں ان کے حامی اعلی مناسب تک اتنی بڑی تعداد میں کیسے پہنچ گئے؟ دو ہزار گیارہ میں اردوان اور گولن کے مابین نظریاتی اختلاف شروع ہو گیا اور حکومت نے حزیمت کے تحت چلنے والے ایک ہزار اسکولوں کی نگرانی شروع کر دی۔ ساتھ ہی ساتھ فوج کے سیکولر عناصر کی جانب سے ایک مبینہ سازش کو ناکام بنانے کے نام پر ڈھائی سو کے لگ بھگ حاضر و ریٹائرڈ افسروں کو بھی جیل میں ڈال دیا گیا۔ اس اقدام پر تینوں مسلح افواج کے سربراہوں نے احتجاجاً استعفی دے دیا۔ اس کے بعد فوج پر اردوان کے حامیوں کی گرفت مضبوط ہوتی گئی۔ مگر مشکل یہ تھی کہ جو اردوان کے حامی تھے وہ گولن کی تعلیمات سے بھی اسی طرح متاثر تھے جیسے ایک زمانے تک خود اردوان۔ اردوان نے تو اپنا راستہ جدا کر لیا مگر باقی لوگ بھی اردوان کی تقلید اتنی ہی سرعت سے کرتے یہ ضروری تو نہیں تھا۔
دو ہزار تیرہ میں پولیس نے جب اردوان کے چند وزیروں اور صاحبزادے کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کی چھان بین شروع کر دی تو اردوان نے اسے حکومت کو بدنام کرنے کی گولن سازش قرار دیا اور اس کے بعد سے کٹر دشمنی ہو گئی۔گولن تحریک کے حامی میڈیا اور صحافیوں کے گرد گھیرا تنگ ہونے لگا۔ اور پھر حکومت کو ہر طرف گولن کا آسیب دکھائی دینے لگا۔
اب سے پانچ برس پہلے تک ترکی اسلام اور جدید جمہوریت کو شانہ بشانہ چلانے کا مثالی ماڈل تصور کیا جاتا تھا۔ فسطائیت کی ماری شمالی افریقہ و مشرقِ وسطی کی ریاستوں میں دو ہزار گیارہ میں عرب اسپرنگ کی جو لہر اٹھی اس کے سامنے جدید اسلامک ٹرکش ماڈل تھا جس کے تحت شاندار اقتصادی و سماجی ترقی روداری کے ساتھ ممکن تھی۔ لیکن اب یہ ٹرکش ماڈل مغرب کے بجائے مشرق کی جانب سخت گیری کے ٹریک پر مراجعت کرتا نظر آ رہا ہے۔
پچھلے چودہ برس میں اردوان حکومت نے ملک کو جو اقتصادی و سیاسی استحکام دیا اس میں زیادہ سے زیادہ اختیارات کے ارتکاز کے بڑھتے ہوئے رجحان سے جمود پیدا ہوتا جا رہا ہے۔ شام کے بحران کے سبب ترکی پر بھی دھشت گردی کے سائے منڈلا رہے ہیں اور کرد علیحدگی پسند تحریک بھی نئی کروٹ لے رہی ہے۔ یورپی یونین میں شمولیت ترکی سے آج بھی اتنے ہی فاصلے پر ہے جتنی کل تھی۔
اس وقت بھی اردوان حکومت کو ترکوں کی اکثریت کی حمائیت حاصل ہے مگر شائد اردوان حکومت کا خود پر اعتماد متزلزل ہو رہا ہے لہذا اس کا مداوا سخت گیری، عدم برداشت اور ریاستی غصے کی شکل میں نکل رہا ہے۔ اس سے اور کچھ ہو نہ ہو سماجی و نظریاتی خلیج بڑھنے کے سبب پچھلے چودہ برس میں حاصل کردہ اقتصادی ثمرات اور علاقائی وقار کو ٹھیس پہنچ سکتی ہے۔ لہذا موجوہ انتظامی بحران کو تطہیر کے نام پر طول دینے کے بجائے انتظامی و اقتصادی ٹریک پر ثابت قدم رہتے ہوئے شخصی آمرانہ خواہشات کی دلدل سے بچنے کی اشد ضرورت ہے۔ ترکی ساٹھ اور ستر کے عشرے میں دائیں اور بائیں بازو کی مسلح کش مکش اور اس کے سبب فوجی آمریتوں کا زخم خوردہ رہ چکا ہے۔ اس بار ترکی اگر ناکام ہوا تو یہ صرف ترکی کی ناکامی نہیں ہو گی۔