ہوم << ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی نے تحریک عدم اعتماد مسترد کر دی . میر افسر امان

ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی نے تحریک عدم اعتماد مسترد کر دی . میر افسر امان

قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر نے اپوزیشن کی عدم اعتماد کی تحریک کو آئین پاکستان کے آر ٹیکل ۵؍ اے کے خلاف قرار دے کر مسترد کر کے قومی اسمبلی کا اجلاس ختم کر دیا ۔ قومی اسمبلی کے آج کے اجلاس پہلے تلاوت قران شریف کی گئی .

مطالعہ حدیث اور نعت رسول مقبول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدوزیراطلاہات اور وزیر قانون فواد چوھدری نے آئین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جناب ڈپٹی سیکر ٹیری صاحب خط کے مندرجات میں صاف صاف لکھا ہے کہ حکومت کو عدم اعتماد سے ختم کر دیا جائے۔ کیا کوئی غیر ملک پاکستان کی حکومت کو باہر بیٹھے اس طرح سازش کر کے ختم کر سکتا ہے؟ ڈپٹی اسپیکر کی اسمبلی توڑ کے قومی اسمبلی کا اجلاس ختم کرنے کے اعلان بعد میں ایاز صادق سابق اسپیکر کی نشست سنبھال لی اور عدم اعتماد کی کاروائی چلائی جا رہی ہے۔ اپوزیشن ارکان اسمبلی میں موجود ہیں۔ شہباز شریف نے کہا کہ اس غیر آئینی فیصلہ معاملہ کو سپریم کورٹ واضح کر سکتی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان اسمبلی میں حاضر نہیں تھے۔ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے بعد عمران خان نے قوم سے مختصرخطاب میں قوم کو مبارک دی کہ غیر ملکی سازش ناکام بنا دی گئی ہے۔ قوم سے کہتا ہوں گھبرانا نہیں۔ میں نے اپنا آئینی اختیار استعمال کرتے ہوئے صدر پاکستان کو قومی اسمبلی توڑ کر نئے انتخابات کرنے کی درخواست کر دی ہے۔ صدر مملکت جناب عارف علوی نے وزیر اعظم کی درخواست منظور کر لی اور نئے انتخابات کا اعلان کر دیا۔ عمران خان نے قوم کو نئے انتخاب کے تیاری کرنے کا کہا۔ فوادچوھدری نے ٹویٹ کیا کہ موجودہ کابینہ تحلیل کر دی گئی ہے۔ آرٹیکل ۲۲۴ کے تحت وزیر اعظم اپنی ذمہ داریاں جاری رکھیں گے۔ ادھر پی ٹی آئی کے پنجاب کے گورنر سرور کو برطرف کردیا گیا۔ سابق گورنر نے ایک پریس کانفرنس میں عمران خان کے خلاف چارج شیٹ پیش کی۔

وزیر اعظم نے قوم سے خطاب میں عوام کو بتایا تھا کہ اسٹبلشمنٹ نے مجھ سے رابطہ کرکہا کہ عدم اعتماد کو ہونے دیں۔ استعفا دے دیں یا پھر نئے الیکشن کرائیں۔ میں نے کہا کہ نئے الیکشن بہتر ہوگا۔ اگر اس بات کو سامنے رکھا جائے تو کیا یہ پہلے طے شدہ منصوبہ ہے؟۔ وزیر اعظم نے یہ بھی کہا نواز شریف اور اس کی بیٹی فوج کے خلاف ناجائز باتیں کرتی ہیں۔ فضل الرحمان نے بھی فوج کی کھل کر مخالفت کی۔ اس لیے فوج نیوٹرل ہے۔ عمران نے خان نے اپنے خطاب یہ بھی کہا تھا کہ حق و باطل کی جنگ میں نیوٹرل تو جانور ہی ہوتا ہے۔بعد میں اس کی تشریع کرتے ہوئے کہا تھا کہ میرے مخاطب فون نہیں تھی۔ بہرحال اپنے جلسے کا نام’’ امر بل لمعاروف‘‘ رکھ پیغام تو کسی کو پہنچانا ہی تھانا۔ عمران خان نے یہ بھی کہا کہ فوج نے پاکستان کو پچایا ہوا ہے میں کبھی بھی فوج کے خلاف نہیں بولوں گا۔ دشمن پاکستان کے تین ٹکڑے کرنا چاہتے ۔یہ فوج ہے جو اس سازش کا مقابلہ کر رہی ہے۔ دشمن کے عزاہم ناکام بنانے کے لیے آئے روز فوج اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کر رہی ہے۔

اس سے قبل عمران خان نے اسلام آباد میں اپنے ۲۷ مارچ کے جلسے میں ایک خط لہرا کر قوم کو بتایا تھا کہ میرے پاس ایک غیر ملکی خط ہے جس میں میری حکومت کے خلاف عدم اعتماد پیش کر کے ختم کرنے کی سازش کی گئی۔ اس کام کے لیے اربوں روپے باہر سے آئے ہیں۔زرداری نے اسلام آباد میں سندھ ہائوس میں میرے منحرف لوگوں کو کرڑوں روپے دے کر خریدا لیا۔ ہمیں معلوم ہے کس جہاز میںیہ روپے لائے گئے۔لیکن میں کرکٹ کے اصول کے مطابق آخری تک گیند تک لڑوں گا۔ عدم اعتماد کے دن سرپرائز دوں گا۔ کیا عمران خان کایہ ہی سرپرائز تھا کہ آج ڈپٹی اسپیکر نے آئین ِ پاکستان کے حوالے دے کر اپوزیشن کی عدم اعتماد کو مسترد کر دیا۔ خط میں اپوزیشن کو کہا گیا کہ عدم اعتماد پیش کر کے عمران خان حکومت کو ختم کر دو ۔ ورنہ پاکستان کے لیے مشکلات ہوں گی۔ عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو پاکستان کو معاف کر دیں گے۔

بقول عمران خان لندن میں بیٹھے نواز شریف نے یہ سازش تیار کی ہے۔ اس میں زرداری اور فضل الرحمان شامل ہیں۔ نواز شریف نے اسرائیل کے نمایدے سے ملاقات کی۔ امریکا میں مقیم سابق وزیر خارجہ حسین حقانی جو بھگوڑا ہے نے بھی نواز شریف سے ملاقات کی تھی۔اپنی کل کی تقریر میں قوم کے سامنے سارے حقائق رکھے تھے کہ یہ لوگ اپنی کرپشن بچانے کے لیے مجھ سے این آر او چاہتے ہیں۔ وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ شہباز شریف جو کرپش کے مقدمے میں قید تھا۔ عدالتی ضمانت پر رہا ہے۔ اس کی ضمانت منسوخ کرنے کی درخواست عدالت میں داہر کر دی گئی ہے۔ اس نے پاکستان کا وزیر اعظم بننے کے لیے اچکن تیار کی ہوئی کی ہے۔ پیپلز پارٹی کے نیئر بخاری نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف درخواست داہر کر دی۔اب سپریم کورٹ اس کا فیصلہ کرے گی۔

اس وقت الیکٹرنک میں میڈیا میں اینکر اپنے اپنے تجزیے پیش کر رہے ہیں۔ اس مسئلہ کا حل نہ فوج کے پاس ہے نہ سیاستدانوں کے پاس ۔ اس کا حل صرف سپریم کورٹ کے پاس ہے۔جو جلد سامنے آ جائے گا۔صاحبو! بقول امیر جماعت اسلامی یہ سب اقتدار اور سیاست دانوں کی ذاتی مفادات کی جنگ ہے ۔ مسئلہ کا حل نئے انتخابات ہی ہیں۔ جماعت اسلامی ان سب کے ساتھ نہیں۔ ملک میں قائد اعظم ؒ کے وژن کے مطابق اسلامی نظام حکومت کی کوئی بھی بات نہیں کرتا۔سب اپنے اپنے مفادات کی بات کرتے ہیں۔ ساری سیاسی پارٹیوں کو عوام نے آزماء لیا ہے۔ اب پاکستان کے عوام جماعت اسلامی کو منتخب کریں تاکہ ملک میں اسلامی نظام رائج کیا جائے۔