ہوم << بھارت میں فاقہ کشی اور حکومت کی ناکامی - پروفیسر ظفیر احمد

بھارت میں فاقہ کشی اور حکومت کی ناکامی - پروفیسر ظفیر احمد

ہمارا ملک 2021کے گلوبل ہنگر انڈیکس (جی ایچ آئی) میں 116ممالک کی فہرست میں 101ویں مقام پر آگیاہے۔ گزشتہ سال 2020میں بھارت 107ممالک کی فہرست میں 94ویں مقام پر تھا۔ اس اشاریے (انڈیکس) میں بھارت اپنے پڑوسی ممالک، بنگلہ دیش، نیپال اور پاکستان سے بھی پیچھے ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارت کے شہر اور مضافات کورونا کو قابو میں کرنے کے لیے لگائے گئے لاک ڈاون سے بری طرح متاثر ہوئے۔ فاقہ کشی میں ہمارے ملک کا مقام خطرے کے آس پاس ہے۔ آئرش ایجنسی کنسرن ورلڈ وائڈ اور جرمن آرگنائزیشن ویلتھ ہنگر ہلف کے اشتراک سے تیار شدہ رپورٹ میں بھارت میں فاقہ کشی کی سطح کو تشویشناک بتایا ہے۔ رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش 76، نیپال76، میانمار 71 اور پاکستان 92ویں مقام پر ہےجو تشویشناک ہنگر کیٹگری میں ہے۔ کوویت، چین، برازیل 18 ممالک کے ساتھ ٹاپ رینک پر ہیں۔ ان کا جی ایچ آئی اسکور 5سے کم ہے جبکہ بھارت کا جی ایچ آئی اسکور 27.5ہے۔ واضح رہے کہ GHIاسکور کا حساب چار انڈیکیٹرس پر کیا جاتا ہے۔ انڈر نورشمنٹ (تغذیہ کا فقدان) چائلڈ ویسٹنگ (۵ سال سے کم عمر کے بچے جن کا وزن ان کی لمبائی سے کم ہو) چائلڈ اسٹینڈنگ (۵ سال کی عمر کے بچے جن کی لمبائی عمرکے تناسب سے کم ہو) اور چائلڈ مارٹیلٹی (۵ سال سے کم عمرکے بچوں کی شرح اموات) جی ایچ آئی کے سیکوریٹی اسکیل پر 9.9سے کم یا برابر کے اسکور کو کم تر مان لیا جاتا ہے۔ 10-19.9 کے اسکور کو متوسط moderate 20.0-34.9کو serious 35.0-49.9 کو alarming اور 50سے زائد یا برابر اسکور کو extremely alarming مانا جاتا ہے۔

اگرچہ بھارت ایشیا کی تیسری بڑی معیشت ہے لیکن جنوبی ایشیا میں وہ سب سے پیچھے ہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ ملک کی بڑی آبادی کو ضروری خوراک میسر نہیں ہورہی ہے۔ اس لیے بچوں کی شرح اموات زیادہ ہے۔ بچوں میں وزن کم ہے۔ ویسے 16اکتوبر کو غذا کا عالمی دن منایا جاتا ہے مگر ہمارے ملک کے لیے اس کی کیا اہمیت ہوگی جہاں کروڑوں لوگ غربت اور مفلسی کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ بھوک سے بلبلارہے ہیں۔ بدعنوانی اور لوٹ کھسوٹ کی وجہ سے حکومت کی اسکیموں کا کچھ حصہ برائے نام ہی غریبوں تک پہنچ پاتا ہے ۔ مودی کی جملہ بازی ’سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘کا پول گلوبل ہنگر انڈیکس کے ذریعے غربت اور مفلسی کے شکار فاقہ کش کھول رہے ہیں۔ ایک طرف حکومت 5 ٹریلین ڈالر کی معیشت کا خواب عوام الناس کو دکھا رہی ہے تو دوسری طرف فاقہ کشی میں اضافہ ہماری معاشی ترقی کے دعوے کی قلعی کھول رہا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہماری حکومت اعداد و شمار کے الٹ پھیر اور بازی گری کے معاملے میں عالمی برادری میں کافی بدنام ہے۔ ملک کے بھولے بھالے عوام اور اندھ بھکت مودی جی کی خود ساختہ معیشت کے معاملے میں کافی گمراہ بھی ہورہے ہیں۔ گزشتہ سات سالوں میں تقریباً سات کروڑ افراد خط افلاس سے نیچے گرگئے۔ لوگوں کی ملازمتیں گئیں۔ روزگار چھن گئے، نجی کمپنیوں کے ہاتھوں انفراسٹرکچر بنانے کے نام پر سرکاری کمپنیاں بیچی جارہی ہیں۔ جہاں سے ملازمین کی چھٹی یقینی ہے۔ ویسے بھی نجی شعبوں میں ملازمین ناپید ہیں۔ مزدوروں کے لیے بھکمری اور فاقہ کشی عام بات ہے مگرمٹھی بھر کارپوریٹس کی دولت میں یومیہ کروڑوں روپیوں کا اضافہ ہورہا ہے۔ اپنے بڑ بولے پن کی وجہ سے ہماری حکومت ہر روز ملک کو معاشی سپر پاور بنادینے کا دعویٰ کررہی ہے۔ ملک کو تمام شعبہ جات میں عالمی طاقت بنانے کی باتیں ہورہی ہیں۔ ہماری حکومت کا انداز ہی نرالا ہے۔ وہ ملک کے لوگوں پر پٹرول، ڈیزل اور رسوئی گیس پر بھاری ٹیکس لگاکر انہیں کنگال بنارہی ہے ۔ محض ڈیڑھ سال میں حکومت نے 2.25 لاکھ کروڑ روپے ٹیکس وصول کیا جس کی وجہ سے کمزور طبقہ اور حاشیے پر پڑے لوگ مزید نڈھال ہو گئے۔ آسمان کو چھوتی مہنگائی سے غذائیں اور ضروری اشیا لوگوں کی پہنچ سے باہر ہو گئے ہیں۔

مرکزی حکومت نے 2021کے گلوبل ہنگر انڈیکس کی اشاعت پر کافی واویلا مچایا مگر ماہرین کا ماننا ہے کہ بھارت کی خراب درجہ بندی کی وجہ حکومت نے کورونا قہر کے دوران جو قدم اٹھایا وہ نہ بر وقت تھا اور نہ ہی مناسب تھا۔ حکومت بڑے پیمانے پر فاقہ کشی کی پیمائش کرنے میں ناکام رہی ہے یہی وجہ ہے کہ اس انڈیکس میں 16 ممالک میں بھارت کی درجہ بندی 101 ہے۔ اگرچہ حکومت نے اس سلسلے میں اس دوران فاقہ کشی اور بھوک کے خلاف کئی اقدامات کا اعلان کیا۔ مگر کیا وہ سب اسکیمیں وزیراعظم کے پروپگنڈے کا حصہ تھیں یا غیر مناسب؟ پرنیما مینن، سنٹر ریسرچ فیلو انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (IFPRI)کہتی ہیں کہ ہمارے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہے۔ کیونکہ بھارت نے اس مسئلہ پر کسی طرح کا ڈاٹا جمع نہیں کیا۔ اس سیاسی ایجنڈے میں کورونا قہر کے پہلے سے ہی تغذیہ کی کمی نمایاں رہی۔ اگلے مورچہ پر کام کرنے والے کارندوں کے ذہن میں تغذیہ (Nutrition) ما قبل کورونا قہر کا اولین ترجیحی اور مضبوط ایجنڈا رہا ہے۔ مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے غذائی فراہمی کا کام کیا مگر یہ حسبِ ضرورت مناسب تھا یا نامناسب کوئی نہیں جانتا۔ کیونکہ کس کو کتنی بھوک ہے کسے غذائی عدم سلامتی لاحق ہے اور ایسے حالات میں کتنی ضرورت ہے وغیرہ۔ ڈاکٹر مینن نے کہا کہ آبادی کے تناسب سے تیزی سے ڈاٹا کی دستیابی سب سے زیادہ اہم اور ضروری تھی۔ ماہر معیشت پروفیسر جیتی گھوش نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جی ایچ آئی کے دعویٰ کو رد کرنے کے لیے ہمارے پاس کوئی ڈاٹا نہیں ہے۔ ایک ذمہ دار حکومت کو اس مسئلہ کی سنگینی کو سمجھ کر کچھ کرنا چاہیے تھا کیونکہ نیشنل سیمپل سروے کی کھپت کے ڈاٹا میں خود ہی ہیرا پھیری کی گئی کیونکہ حکومت کو نتائج نہیں چاہیے تھا۔ جیتی گھوش نے کہا کہ ہمیں پانچ کلو اناج کے بجائے دس کلو دیا جانا چاہیے تھا اور آنگن واڑی کے بچوں کو اسکولس کھول کر مڈ ڈے میل فراہم کرنا چاہیے تھا۔ یہ سارے اقدامات مہینوں قبل ہونے چاہیے تھے، ہمیں منریگا اسکیم کو بھی دیہی علاقوں میں موثر بنانا ہوگا۔ دیپا سنہا نے جو امبیڈکر یونیورسٹی میں اکنامکس کی اسسٹنٹ پروفیسر اور رائٹ ٹو فوڈ کمپنی کی ممبر ہیں، سوال کیا کہ حکومت کو کہاں سے پتہ چلا کہ ملک کے مختلف آنگن واڑیوں میں محض 3.9فیصد بچے ہی تغذیہ کی کمی کے شکار ہیں جب کہ حکومت کے پاس اس کے گروتھ کو مونیٹر کرنے کے لیے کوئی ڈاٹا ہی دستیاب نہیں ہے؟

واضح رہے کہ جی ایچ آئی درجہ بندی ملک کے لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کا بہترین موقع ہے۔ بہت سارے لوگ اب بھی حق غذا (Right to Food) کے لیے جدوجہد کرتے نظر آرہے ہیں ۔ جی ایچ آئی اسکور کسی ملک کے چار اشاریے کا اوسط ہے جہاں سبھوں کو یکساں اہمیت دی جاتی ہے۔ یہ انڈیکسز ہیں مناسب کیلوری کا استعمال۔ ویسٹنگ، اسسٹنگ اور اموات اطفال کی شرح۔ بھارت کے لیے یہ قومی خاندان صحت سروے (این ایف ایچ ایس) 4 کے 2015-16کے ڈاٹا پر منحصر ہے۔ حالانکہ این ایف ایچ ایس 5سروے 2019-20 میں کیا گیا لیکن پہلے مرحلہ کا نتیجہ دسمبر 2020 میں جاری کیا گیا۔ چند شہریوں نے بھوک کی پیمائش کے لیے چند سوالات کیے ہیں۔ مثلاً کیا لوگ بھوکے سونے یا کم مرتبہ کھانے، یا کم کھانے پر مجبور ہیں؟ جی ایچ آئی کے ذریعہ بھوک کے دائرہ میں تغذیہ کو شامل کیا جانا مستحسن ہے۔ جی ایچ آئی کا لائحہ عمل دیگر محاذوں پر واضح ہوا ہے یعنی کتنی آبادی حسبِ ضرورت کیلوریز استعمال کرتی ہے۔ یہ طے کرنے کے لیے اقوام متحدہ Food and Agriculture Organizatio) FAO)کے ڈاٹا کو استعمال میں لایا جاتا ہے ۔ ویسے بھارت کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ جی ایچ آئی رپورٹ میں زمینی حقیقت اور اصلیت نہیں ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ 2020 کے مقابلے میں چائلڈ ویسٹنگ اور چائلڈ اسسٹنگ کی حالت میں 2021میں بھی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ کیونکہ بچوں کے تغذیہ کی فراہمی کے پروگرا م کا بجٹ بہت قلیل ہے۔ جس میں 2014 کے بعد سے مکمل کٹوتی ہوتی آرہی ہے اور جُملہ بازی زیادہ۔

کورونا قہر نے خصوصی اور اہم سماجی راحت میں رکاوٹ پیدا کرکے تغذیہ کی فراہمی کو مزید مشکل بنادیا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ پہلے لاک ڈاون میں آنگن واڑیوں کے بند رہنے سے بچوں کی ٹیکہ کاری ، زچگی کے پہلے ضروری احتیاط اور صحت عامہ کا شعبہ بری طرح متاثر ہوا۔ ریسرچر جیاں دریز اور ویپل پیکرا نے اپنے مطالعہ میں پایا کہ لاک ڈاون اول کے دوران ان خدمات کی سہولتیں پہلے کے مقابلے میں زیادہ ہی متاثر رہیں۔ بچوں کی ٹیکہ کاری 65-74فیصد پر تھی۔ زچگی سے قبل دیکھ ریکھ کا معاملہ 71-78فیصد پر آگیا۔ یہ صحیح ہے کہ نیوٹریشن کے نتائج بچوں کی زندگی کے 1000دنوں میں دکھائی پڑنے لگتے ہیں اس لیے یہ حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین اور ان کے چھ سال سے کم عمر کے بچوں تک پہنچنا کافی اہم ہوتا ہے۔ یہ ہماری خوش بختی ہے کہ ہمارے ملک میں تغذیہ اطفال (Child Nutrition) کے لیے آنگن واڑیوں اور بچوں کے لیے اسکولوں میں کھانے کا انتظام ہے جو 20 کروڑ بچوں کو ملتا ہے اور 80کروڑ لوگوں کے لیے پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم (پی ڈی ایس) ہے۔ جس کا استعمال کورونا کی پہلی اور دوسری لہر میں نہیں ہوا۔ اس لیے ضروری ہے کہ انتظامیہ کی بدعنوانی سے بچاکر پی ڈی ایس کو وسعت دینے، آنگن واڑیوں اور اسکولوں میں غذائیت سے پُر کھانے کی فراہمی پردھان منتری ماتر بندنا یوجنا کے تحت ماؤں کو ملنے والی سہولتوں کو بہتر بنانے اور دیگر عوامل کو آسان کرنے بہترمتبادل اختیار کرکے فاقہ کشوں کو راحت دی جائے۔ حکومت کو بلاتاخیر اس پر توجہ دینا ہوگا تاکہ جی ایچ آئی میں ہمارا اسکور بہتر سے بہتر ہو اور عوام آسودہ حال رہیں۔